وجود

... loading ...

وجود

مہنگائی اور احتجاج

هفته 23 اکتوبر 2021 مہنگائی اور احتجاج

مہنگائی نے عام آدمی کی چیخیں نکال دی ہیں اچھے بھلے صنعتکار اور آفیسر بھی پٹرول ،بجلی ،آٹا،گھی کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہیں اگربالاتر طبقات کے یہ حالات ہیں تو تصور کریں عام آدمی کِن مشکلات کے گرداب میں پھنسا ہو گا لیکن مستقبل میں بہتری کا امکان ہے؟افسوس کہ اِس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دیا جا سکتا وجہ یہ ہے کہ مستقبل میں بہتری کا امکان تبھی ہوسکتاہے جب مہنگائی میں کمی لانے کے لیے ٹھوس فیصلے اور نتیجہ خیز اقدامات اُٹھائے جائیں یہاں تو حالات ایسے ہیں کہ وزراء میں حریفوں کے خلاف تندوتیز بیانات کے سواکوئی خوبی نہیں اور سبھی عملی طور پر کچھ کرنے کی بجائے شیخ چلی کی طرح ہوامیں قلعے تعمیر کرنے اور جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے میں یکتا ہیں جہاں ایسا طرزعمل اور ایسی غیر سنجیدگی ہووہاںمہنگائی کم ہونے کے امکانات کی بات حقائق کے منافی ہوگی۔
کسی وزیر باتدبیر سے پٹرول کی گرانی کی وجوہات دریافت کریں تو جواب میں عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ کازکر کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں تیل کی قیمتیں پاکستانی کرنسی میں بتا کر مہنگائی کم ثابت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن یہ نہیں بتائیں گے کہ وہاں کی کر کرنسی کا ہم سے کتنا فرق اورعام آدمی کی پاکستانی کرنسی میں تنخواہ کیا ہے؟ ارے بھئی اگر عوام کو حالات کے رحم وکرم پر ہی چھوڑنا ہے تو لمبی چوڑی وزیروں کی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ؟ سب کو گھر بھیجیں تنخواہوں ،گھروں اور گاڑیوں کی سہولتوں پر اُٹھنے والے اخراجات سے تو ملک بچ جائے گا کیونکہ کوئی بھی وزیر اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہا اگر کررہاہوتا تو حالات آج اتنے خراب نہ ہوتے کرونا کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں یکدم گر نے کے ایام میں دوست ممالک سے تیل کی درآمد کے معاہدے کیے جاتے ایسا ہوتا تو آج نہ صرف زرِ مبادلہ کے زخائربہتر ہوتے بلکہ حکومت پر سیاسی دبائو نہ ہوتا علاوہ ازیںپورے ملک کوکم نرخوں پر پٹرول دستیاب ہوتالیکن بروقت فیصلے نہ کرنے سے آج ملک مہنگائی کے عذاب سے دوچار اور سیاسی عدمِ استحکام کا خطرہ بھی یقینی ہے۔
سستی توانائی صنعت و زراعت کے فروغ کے لیے لازم ہے مگرآئی ایم ایف کی ہدایات پر ہونے والی مہنگی بجلی کی بابت حکومتی نمائندوں سے سوال کیا جائے تومہنگی بجلی کے معاہدوں کازمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہرادیا جاتا ہے اور اگر کوئی غلطی سے کہہ دے کہ سرکاراقتدار میں آئے آپ کو تین برس سے زائد عرصہ ہو گیاہے پھر بجلی کے معاہدے درست کیوں نہیں کر سکے؟ تو سوال سن کرناگواری ظاہر کرتے ہوئے کہیں گے جنھوں نے باری باری پینتیس برس ملک پر حکومت کی اُن سے توآپ پوچھنے کی جسارت نہیں کرتے ہمیں اقتدار میں آئے ابھی تین بر س ہی ہوئے ہیں اور ہم سے حساب کتاب ہونے لگا ہے شایدحکمران چاہتے ہیں کہ سابق حکمرانوں جتنی مدتِ اقتدار کے بعد محاسبے کی نوبت آئے ایسا ممکن نہیں کیونکہ ملک کا کباڑہ کرنے اور عوام کو بھوکوں مارنے کی اجازت کوئی نہیں دے سکتاحکمران چاہتے ہیںچاہے ملک میں جتنی بھی مہنگائی ہو جائے یا پٹرول کے نرخ خواہ کچھ ہو جائیں عوام صبروشکرکریں ایسا نہیں ہو سکتا ۔
آٹا ،چینی ،گھی اور خوردنی تیل عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکا ہے مگرمافیا کو ذمہ دار کہہ کراطمنان دلانے کی کوشش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اربابِ اختیار کوکوئی فکر نہیں مہنگائی کے ذمہ دار مافیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے کی داستان سنانے والے یہ نہیں بتاتے کہ کپتان مافیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا کیوں ہے ؟مافیا کے گریبانوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتا کیا عام آدمی کی جان لینے کا منصوبہ ہے؟حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اگر جلد بہتری نہ لائی گئی تو حکمرانوں کو مشکل دنوں کے لیے تیار رہنا ہوگا جس طرح کپتا ن سب کو گھبرانا نہیں ہے کا درس دیتے ہیں عین ممکن ہے زوردار تحریک کی صورت میں عوام سے پہلے حکومت کی گھبرانے کی باری آجائے معروف عالمی جریدے دی اکانومسٹ نے مہنگائی کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک قرار دیا ہے ارجنٹائن پہلے ،ترکی دوسرے اور برازیل تیسرے نمبر پر ہے ہر بات پر بھارت کی مثال پیش کرنے والوں کے لیے یہ رپورٹ کسی تازیانے سے کم نہیں کہ بتائے گئے اعداد وشمارکے مطابق وہ بھی مہنگائی کے حوالے سے پاکستان سے بہتر ہے اُس کارپورٹ میں نمبر 16ہے لیکن عمران خان کاخیال ہے کہ تاریخی کہانیوں پر مبنی ڈرامے اور کہانیاں بنانا ہی مہنگائی کا حل ہے۔
حکمرانوں نے دورانِ اقتدار آج تک مہنگائی کم کرنے کے لیے کبھی نتیجہ خیز اقدامات اُٹھائے ہیں؟ ہنوز ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتاالبتہ اتنا ضرور کہا جانے لگا ہے کہ مہنگائی کے اثرات کا احساس ہے اور ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام کے اجرا کی باتیں کی جانے لگی ہیں کم آمدنی والوں کو پٹرول ،ڈیزل اور یوٹیلٹی ا سٹورز میں اشیائے خوردونش پر رعایت دینے کے وعدے اور ضلعوں میں مہنگائی روک کمیٹیاں بنانے کا عندیہ دیا جانے لگاہے ساتھ ہی دالوں ،سبزیوں ،چینی اور آٹے کی قیمتیں کم کرنے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے کیا باتوں سے کسی کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے ؟ مگر حکمران عوام کو روکھی سوکھی کھانے کی سکت سے محروم کرنے کے بعدچکنی چپڑی باتوں سے عوام کا پیٹ بھرنے کے لیے کوشاں ہیں عمران خان اپنی ناکامیوں کو مزہبی خیالات کے اظہارسے ڈھانپنے اور اسلام پسند تشخص بنا کر مزہبی ووٹ کی ہمدردیاں سمیٹنے کے چکر میں ہیں لیکن اُنھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھوک پیٹ بھرنے سے کم ہوتی ہے مزہبی باتوں کے پرچارسے نہیں ۔
مہنگائی نے ملک میں احتجاج کی فضا بنا دی ہے ہراپوزیشن جماعت کی اولیں کوشش ہے کہ عوای مشکلات پر بات کر کے خود کوزیادہ سے ذیادہ عوامی جماعت ثابت کیا جائے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی راہیں جدا ہونے کے باوجود احتجاج میں پیش پیش ہیں سب سے بنا کر رکھنے والے شہباز شریف بھی مصلحتیں چھوڑکر میدانِ عمل میں آگئے ہیںمگر حکمران مہنگائی کم کرنے کی بجائے عوامی رابطہ مُہم شروع کرنے اور بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کی ہدایات دی کر اپوزیشن تحریک کے توڑ کا خواب دیکھ رہے ہیں یہ فیصلے اور ایسا طرزِ عمل فہم و دانش کے منافی ہے مہنگائی کے خلاف احتجاج کازور مہنگائی میں کمی سے ہی توڑا جا سکتا ہے لیکن احتجاجی لہر کو تقویت دینے والے فیصلوں کی بھرمار ہے تحریکِ لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی ضمانت پر رہائی کے عدالتی احکامات کے باوجود حکمران راہ فرار پر گامزن ہیں جو احتجای لہرکو مزید جاندار بنانے کے مترادف ہے ابھی تو ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہے سیاسی کارکنوں کے ساتھ وکلا اورٹرانسپورٹرہی سڑکوں پر آئے ہیں دیگر طبقات کے شامل ہونے سے احتجاجی سلسلہ جلسوں اورپھر بڑے مارچ تک بھی پہنچ سکتا ہے مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک سے ہویدا ہے کہ ریلیوں اور مظاہروں میں بڑھتی عوامی شرکت کو حکومت محض باتوں سے کم نہیں کر سکتی نہ ہی باتوں سے مہنگائی کم ثابت کر نے کے حربے کامیاب ہو سکتے ہیں اگر عوامی حمایت اور سیاسی استحکام کو برقرار رکھنا ہے تو عام آدمی کو اشیائے خوردونوش کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر