وجود

... loading ...

وجود

بھوک اورآنسو

جمعه 22 اکتوبر 2021 بھوک اورآنسو

خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھاکہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچرنے پڑھانا چھوڑا بھاگم بھاگ اس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو۔ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لیے ہیں۔ ٹیچرنے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بندکردو کوئی باہرنہ جائے سب کی تلاشی ہوگی ٹیچرنے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھرانہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوںکی تلاشی کی ہدایت کردی کچھ دیر بعد دو لڑکیوںکی تکرار سے اچانک کلاس ایک بارپھر شورسے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی۔کیا بات ہے؟
’’ مس تلاشی لینے والی طالبہ بولی ۔۔ کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔۔ٹیچروہیں تڑک سے بولی پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے
کوثر تڑپ کر بولی نہیں۔ نہیں مس میں چورنہیں ہوں
’’چور۔۔نہیں ہوں ٹیچر کہنے لگی تو پھربیگ کی تلاشی لینے دو
’’نہیں۔کوثر نے کتابوںکے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا نہیں میں تلاشی نہیں دوںگی ۔ٹیچر آگے بڑھی اس نے کوثر سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی اسے غصہ آگیاٹیچرنے کوثر کے منہ پر تھپڑ دے مارا وہ زور زور سے رونے لگ گئی ٹیچر پھر آگے بڑھی ابھی اس نے طالبہ کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی ۔رک جائو ٹیچرنے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھیں نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔انہوںنے طالبہ اورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں ۔پرنسپل نے پوچھا کیا معاملہ ہے ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔انہوںنے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا ’’نہیں اس نے نفی میں سرہلادیا۔ کوثرکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے
’’بالفرض مان بھی لیا جائے۔پرنسپل متانت سے بولیں تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوںکیا؟
کوثر خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی ۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔ٹیچرنے کچھ کہنا چاہا جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھاکر اسے روک دیا پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔ اس میں کیا رازہے ؟ وہ سوچنے لگی اور پھر کچھ سوچ کرٹیچرکو کلاس میں جانے کا کہہ دیا۔پرنسپل نے بڑی محبت سے کوثرکو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھاکر پھر استفسارکیا اس نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کردیا پرنسپل نے اشتیاق، تجسس اوردھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا۔ مگر یہ کیا کتابوں کاپیوں کے ساتھ ایک کالے رنگ کا پھولا پچکا ہوا شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا طالبہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیاہو۔ کوثرکی ہچکیاں بندھ گئیں پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں کھائے ادھ کھائے برگر،سموسے اور پیزے کے ٹکڑے، نان کچھ کباب اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آگیا ۔۔ وہ کاپتے وجودکے ساتھ اٹھی روتی ہوئی کوثرکو گلے لگاکر خود بھی رونے لگ گئی۔ کوثرنے بتایا میرا کوئی بڑا بھائی نہیں۔دیگر3 بہن بھائی اس سے چھوٹے ہیں والدصاحب ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا بھوک سے مجبورہوکر ایک دن رات کا فاقہ تھا ناشتے میں کچھ نہ تھا کالج آنے لگی تو بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا میں ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھایا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھالیا قریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا۔پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا ندیدوںکی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر پہلے وہ پریشان ہوا پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی وہ ایک نیک اورہمدرد انسان ثابت ہوا میںنے اسے اپنے حالات سچ سچ بتادئیے اسے بہت ترس آیا اب وہ کبھی کبھی میرے گھر کھانا بھی بھیج دیتاہے اور گاہکوںکا بچاہوا کھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپرمیں ڈال اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے جو میں کالج آتے ہوئے اٹھاکرکتابوں کے بیگ میںرکھ لیتی ہوں اور جاتے ہوئے گھرلے جاتی ہوں میرے امی ابوکو علم ہے میںنے کئی مرتبہ دیکھاہے لوگوںکا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوںمیں آنسو ہوتے ہیں بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں۔
یہ چھوٹی سی سچی کہانی کسی بھی درد ِ دل رکھنے والے کو جنجھوڑکر رکھ سکتی ہے ہم غورکریں تھوڑی سی توجہ دیںتو ہمارے اردگرد بہت سی ایسی کہی ان کہی کہانیوںکے کردار بکھرے پڑے ہیں اس سفیدپوشوںکے لیے کوئی بھی جمہوری حکومت کچھ نہیں کرتی ایسے پسے، کچلے سسکتے اور بلکتے لوگوںکو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دیس میں کوئی ڈکٹیٹرراج کررہاہے یا جمہوریت کا بول بالاہے۔ نہ جانے کتنے لاکھوں اورکروڑوں عوام کا ایک ہی مسئلہ ہے دووقت کی روٹی جو بلک بلک کر تھک گئے ہیں اے دنیابھر کے حکمرانو!خداکے واسطے رحم کرو۔۔ غریبوںسے ہمدردی کرو ۔ان کو حکومت یا شہرت نہیں دووقت کی روٹی چاہیے حکمران غربت کے خاتمہ کے لیے اناج سستاکردیں تو نہ جانے کتنے لوگ خودکشی کرنے سے بچ جائیں۔یقینا ہم میں سے کسی نے کبھی نہیں سوچاہوگا کہ ہم روزانہ کتنا کھانا ضائع کرتے ہیں اور کتنے لوگ بھوک ،افلاس کے باعث دانے دانے کے لیے محتاج ہیں رزق کی حرمت اور بھوکے انسانوںکااحساس کرناہوگا حکمران کچھ نہیں کرتے نہ کریں ہم ایک دوسرے کا خیال کریں ایک دوسرے کے دل میں احساس اجاگرکریں یہی اخوت کا تقاضاہے اسی طریقے سے ہم ایک دوسرے میں خوشیاں بانٹ سکتے ہیں آزمائش شرط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر