... loading ...
پال کرگمین
کیا آپ کو وہ دن یاد ہیں جب سمپسن بائولز نے ہمیں قرضوں میں کمی کا ایک پلان دیا تھا؟ ایک عشرہ قبل امریکا میں اشرافیہ پر ایک ہی جنون سوار تھا کہ بجٹ کے خسارے پر قابو پانے کے لیے فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ میں جنہیں ’’بہت ہی سنجیدہ لوگ‘‘ کہتا اور لکھتا ہوں‘ اس مسئلے پر ان کے درمیان اتنا مضبوط اتفاقِ رائے پایا جاتا تھا کہ ٹائمز کے موجودہ لکھاری ایزرا کلین نے لکھا تھا کہ یہ خسارہ اتنا اہم مسئلہ بن چکا ہے جس پر غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے اصولوں کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ نیوز میڈیا نے کم وبیش اس خسارے میں کمی کے بارے میں زیادہ لکھنے کی کوشش نہیں کی مگر خاص طور پر مستقبل میں میڈی کیئر اور سوشل سکیورٹی کے فوائد میں کٹوتی کے بارے میں پوری وضاحت اور صراحت سے لکھا۔ ان کٹوتیوں کے بارے میں ہر سمجھ دار انسان کا مو?قف تھا کہ یہ قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے لازمی ہیں۔ مگر ایسا نہیں تھا۔
میرا ایک سوال ہے۔ اگر اشرافیہ کو قوم کے مستقبل کی اتنی ہی فکر ہے تو ان میں ماحولیات اور بچوں پر رقم خرچ کرنے سے متعلق ایکشن پر اتفاقِ رائے کیوں نہیں ہے۔ یہ دونوں باتیں صدر جو بائیڈن کے ’’بِلڈ بیک بیٹر‘‘ ایجنڈا کا حصہ ہیں اور یہ کیس فوائد میں کٹوتیوں کے کیس کے مقابلے میں بہت مضبوط کہا جا سکتا ہے؛ تاہم سوشل سکیورٹی میں کٹوتیوں کے مطالبے کو بجا طور پر سیاسی سنجیدگی کے زمرے میں لیا جاتا تھا مگر ماحولیات اور بچوں کے معاملے پر فوری ایکشن کو اتنا سنجیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ اگر جو بائیڈن کے روایتی انفراسٹرکچر پر معقول سرمایہ کاری کو محدود کرنے کے لیے کسی چیز کو ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے تو ترقی پسند یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکا کے مستقبل پر سرمایہ کاری ایک غیر سنجیدہ عمل ہے۔استحقاق سے متعلق اصلاحات (Entitlement Reform) کے مطالبے کی دلیل ہمیشہ مشکوک رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عمر رسیدہ آبادی اور ہیلتھ کیئر پر بڑھتے ہوئے اخراجات ہمیں مجبور کر سکتے ہیں کہ ہم ٹیکس بڑھانے اور فوائد میں کمی کرنے میں سے ایک کا انتخاب کر یں مگر 2010ئ میں ہی یہ ایکشن لینا اتنا ضروری کیوں تھا؟ چند سال مزید انتظار کر لینے سے کیا نقصان ہو جاتا؟ اگر ا?پ نے اس مسئلے پر کبھی غور و خوض کیا تھا تو اشرافیہ کی اکثریت میں یہ اتفاقِ رائے پایا جاتا تھا کہ ہمارا اپنے مستقبل کے فوائد میں کٹوتی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمیں آنے والے دنوں میں ان فوائد میں مزید کمی نہ کرنی پڑے۔ اس کے برعکس ماحولیات اور بچوں کے معاملے میں تاخیر کی قیمت بہت بھاری اور حقیقی ہو گی۔
جہاں تک ماحولیات کی بات ہے تو دنیا ہر سال گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو محدود کرنے میں ناکام نظر ا?تی ہے۔ ہم ہر سال 35 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرتے ہیں اور یہ خارج شدہ گیسز ہماری فضا میں ہی موجود رہیں گی اور ہمارے سیارے کو کئی صدیوں تک گرم کرنے کا سبب بنیں گی۔ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی قیمت پہلے ہی خشک سالی اور شدید موسمیاتی مضمرات کی شکل میں ادا کر چکے ہیں۔ وسیع تر سائنسی اتفاقِ رائے اس بات پر ہے کہ آنے والے عشروں میں ہمیں یہ قیمت بدترین شکل میں چکانا پڑے گی لہٰذا ماحولیات کے بارے میں اپنے اقدامات میں تاخیر کر کے ہم اپنے مستقبل کو سنگین نقصان پہنچا رہے ہیں۔
جہاں تک بچوں کی بات ہے تو امریکا میں بچوں میں پائی جانے والی غربت ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ اس بات کے بھاری ثبوت موجود ہیں کہ بچوں میں غربت سے متعلق پروگراموں پر بھاری ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ جو بچے بھی ان پروگراموں سے مدد لیتے ہیں وہ صحت مند بالغ نوجوان بن کر سامنے ا?تے ہیں۔ دوسرے بچوں کے مقابلے میں ان کی کما ئی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ہمیں سڑکوں اور پلوں پر سرمایہ کاری کر نے سے اتنا فائدہ حاصل نہیں ہوتا جتنا فائدہ بچوں پر سرمایہ کاری سے حاصل ہوتا ہے؛ چنانچہ ہم اگر ہر سال ٹیکس کریڈٹ میں توسیع دے کر بچوں کی مدد میں اضافہ نہیں کرتے تو ہم دہائیوں کے لیے انسانی وسائل کو ضائع کر تے ہیں؛ تاہم اشرافیہ کی رائے اور سوچ کی جس طرح رپورٹنگ کی جاتی ہے تو ہم کلین انرجی کے منصوبوں کی غیر ذمہ دارانہ مخالفت کر کے اس امر کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں کہ ہم کس طرح بچوں کی غربت پر توجہ نہ دے کر بھاری انسانی وسائل کے ضیاع کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ الٹا ہر وقت 3 ٹریلین ڈالرز‘ 3 ٹریلین ڈالرز کی رٹ لگائی جاتی ہے مگر ہم یہ نہیں بتاتے کہ یہ مجوزہ رقم ایک سال میں نہیں‘ 10 سال میں خرچ کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ رقم ہماری جی ڈی پی کا محض 1.2 فیصد ہو گی۔ میں اس حوالے سے دہرے معیارکو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے ان سنجیدہ حضرات پر یہ جنون کیوں اور کب سے سوار ہو گیا ہے کہ ہمیں گورنمنٹ کے قرضوں کو فوری طور پر محدود کرنے کی ضرورت ہے اور جن امور کا ہمارے مستقبل سے اہم تعلق ہے‘ یہ اگر ان تجاویز کے اتنے مخالف نہیں ہیں تو پھر سیخ پا کس بات پر ہیں؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس سارے مسئلے میں مالی وسائل نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکی چیمبر آف کامرس جیسے کارپوریٹ گروپس استحقاق سے متعلق اصلاحات پر بہت بیزار ہیں بلکہ ’’بِلڈ بیک بیٹر‘‘ کے خلاف زبردست لابنگ کرنے میں مصروف ہیں۔ اس میں یقینا کوئی شک نہیں کہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ارکان کانگرس صدر جو بائیڈن کے ایجنڈے کے حوالے سے جتنے متحرک نظر ا?رہے ہیں یہ دیکھ کر بجا طور پر انہیں مرکزیت پسند سے زیادہ پارٹی کا کارپوریٹ ونگ کہا جا سکتا ہے۔ اب تک ہونے والے پولز کے نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جن پالیسیوں کی مخالفت کرنے پر اترے ہوئے ہیں‘ انہیں عوام میں خاصی مقبولیت حاصل ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وہ سیاسی سنٹر میں دائیں بازو کے زیادہ قریب نظر آتے ہیں مگر یہ کہنا بھی مناسب نہیں ہے کہ اس وقت جو کوئی بھی روایتی فہم و فراست کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کر رہا ہے اس نے کوئی نہ کوئی مالی مفاد حاصل کیا ہوگا۔ یہاں ہمیں سیاست کے میدان کے ساتھ ساتھ میڈیا میں بھی ایک سماجی حرکیات نظر ا? رہی ہیں جس سے ہم پر ان حلقوں کی بھی بہتر انداز میں عکاسی ہو رہی ہے جس میں ہمارے صاحب الرائے حضرات گھومتے پھرتے ہیں اور یہ ان لوگوں کے ساتھ بھی منسلک رہتے ہیں جو عام امریکی شہریوں کی زندگیوں کو مشکل اور سخت تر بنانا چاہتے ہیں جبکہ جو لوگ کارپویشنز اور امیر طبقے پر ٹیکسز کی شرح میں اضافہ کر نا چاہتے ہیں‘ ان کو یہ لوگ غیر حقیقت پسند اور پیچیدہ انسان سمجھتے ہیں۔اس حرکیات کی خواہ کچھ بھی وجہ ہو‘ ان کے خلاف ایک جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ عین اس وقت ہمارے پاس یہ موقع موجود ہے کہ اس ضمن میں ہم کوئی درست فیصلہ اور اقدام کر سکیں۔ اگر اس مرتبہ بھی ہم نے یہ موقع ضائع کر دیا تو اسے ایک المیے کے سوا کیا کہا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔