... loading ...
وہ حا فظ ِ قرآن تھا لیکن ایک کمپوڈر ٹائپ اتائی ڈاکٹر گوجرانوالہ کے کسی نواحی قصبہ میں لوگوںکا علاج معالجہ کرتا تھا انتہائی شریف النفس ،بے ضرر ،اپنے اڑوس پڑوس کا خیال رکھنے والا ایک روز اس کا کسی سے جھگڑا ہوگیا موقع پر موجود لوگوںنے معاملہ رفع دفع کروادیا لیکن مخالف انتہائی مکار تھا اس نے دل ہی دل میں اتائی ڈاکٹر کو مزا چکھانے کا فیصلہ کرلیا چند روز بعد مخالف نے سرگوشیوں کے انداز میں کانا پوسی شروع کردی کہ اتائی ڈاکٹر گستاخ ہے حالات سے بے خبر اتائی ڈاکٹر کے خلاف ماحول بنتا گیا پھر ایک روز صبح ایک مسجد سے اعلان ہوا کہ ایک اتائی ڈاکٹر نے نعوذ باللہ آخری الہامی کتاب کی بے حرمتی کی ہے شرپسندوں نے اتائی ڈاکٹر کو عیسائی ڈاکٹر سمجھ لیا پھر اس کے مکان پر چڑھ دوڑے دروازہ توڑ ڈالا اتائی ڈاکٹر کی بیوی نے بلوائیوں کو لاکھ سمجھایا ،مگرانہوںنے ایک نہ سنی وہ ہر چیز تہس نہس کرتے ہوئے اس کمرے تک جا پہنچے وہاں ڈاکٹر کرسی پر بیٹھا قرآن حکیم کی تلاوت کررہاتھا ،شرپسند اتنے غیض و غضب میں تھے کہ انہوںنے اللہ کی کتاب کا بھی احترام نہیں کیااور ڈاکٹرکو لاتوں،مکوں گھونسوں اور ٹھڈوں سے مار مار کر ادھ مواء کردیا جب تک پولیس پہنچی ڈاکٹر کی ہڈیوںکا سرما بن گیا تھا ،اذیت،خوف اور دردکی شدت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا اور آنکھیں بے نور ہوچکی تھیں بعد میں لوگوںکو حقیقت ِ حال کا پتہ چلا بہت دیرہوچکی تھی ۔
اسی طرح احمدپورشرقیہ میں ایک مجذوب نوجوان کو قرآن مجیدکی بے حرمتی کے الزام میں پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی ٹھیک دوسال بعد اس جگہ ایک پٹرول سے بھرا ایک آئل ٹینکر الٹ گیا اس شہرکے باسی راوی ہیں کہ قدرت نے اس خون ناحق کا ایسا انتقام لیا کہ جہاں جہاں مجذوب نوجوان اپنی جان بچانے کی فطری خواہش لیے بھاگتا پھرتا وہاں وہاں پٹرول کو مال مفت سمجھ کر جو 200 سے زائد لوگ گیلن،ڈرم بھررہے تھے زندہ جل کر خاکسترہو گئے ہمارے ارد گرد عبرت کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم میں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرناچاہتا ۔۔۔ یہ کتنی خوفناک بات ہے کہ لاالہ اللہ کی بنیادپر معرض ِ وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں مذہبی جنونیت انتہا کو پہنچ گئی ہے اب اپنے مخالفین کو قتل کرنا کتنا آسان ہوگیا ہے ،اب ڈر لگنے لگا ہے کہ کسی دن آپ کا کوئی ملازم ،گارڈ یا مخالف آپ کو گستاخ قرار دے کر قتل کرڈالے یا پھرگستاخ یا کافر کہہ کر گولیاں مار دے اور یوں آپ کے سب گھر والے بھی یکایک رسک پہ آجائیں، پھر قاتل تھانے میں چائے پیتا پھرے اور مقتول کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے اس کے لواحقین شہادتیں اکٹھی کرتے پھریں اور ان کو اپنی جان کے لالے پڑجائیں بلاشبہ ایسے واقعات انتہائی دردناک ہیں اصل واقعہ مگر اس کے بعد کا ہے چنیوٹ کا جنونی قاتلانہ حملہ کرنے والا ا ہیرو بن چکا تھا، تھانے میں اسے چائے پیش کی گئی، لوگوںنے آئودیکھا نہ تائو تھانے کی چھت پر چڑھ کر گستاخ ِ رسول کی سزا لوگ سر تن سے جدا کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔
بلاشبہ بنی برحق ﷺ کی شان میں گستاخی کائنات کا سب سے بڑا جرم ہے ایسا کرنے والا کسی رعائت کا مستحق نہیں ۔ حکومت یہ دیکھ رہی ہے،علماء بھی خاموش تماشائی ہیں، کسی میں جرات نہیں کہ قاتلوں کے اس مجنونہ رقص کو گستاخانہ،خلافِ شریعت اور آئین کی کھلی خلاف ورزی کہہ سکے۔ یہ علما ء آخر کیوں چپ ہیں؟ کیا کسی کو صفائی کا موقعہ دیئے بغیر اسے گستاخ ِ رسول قرار دے کر قتل کرنا جائز ہے ؟ کیا وہ یہ معاملہ برحق سمجھتے ہیں،یا اس وقت بولنا خلاف مفاد سمجھتے ہیں؟ اس واقعہ میں قاتل و مقتول دونوں ایک ہی مسلک کے ہیں شنیدتویہ ہے کہ گارڈ نے اپنے پیر کو ماسک کے بغیر بنک میں داخل کیا. پیر صاحب کے جانے کے بعد مینجر نے کہا کہ ماسک کا اصول ہر کسٹمر کے لیے ہے جس پر گارڈ نے کہا کہ میرا پیر مشکل کشا ء ہے اس کو ماسک کی ضرورت نہیں منیجر نے کہا کہ مشکل کشا ء صرف خدا کی ذات ہے. اس گستاخی پر گارڈ نے مینجر کو گولی مار دی کچھ لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ بس ذرا سا اختلاف زاویہ ٔ سوچ کا فرق تھا ایسا مان بھی لیا جائے یہ تو اور بھی خطرناک بات ہے غوروفکریہ بات یہ ہے کہ جو نبی ﷺرحمت ِ دوجہاں ہے اسی کا نام لے کر دوسروںکو قتل کرنا کون سی دانائی ہے اناللہ واناالیہ راجعون ایک ناجائز قتل گویا کہ پوری انسانیت کا قتل ہے۔۔ اہل ِ علم سے شکوہ کریں تو ان کا اپنا نقطہ ٔ نظر ہے ان کا مؤقف ہے گذشتہ800سال سے مسلمان علمی انحطاط کا شکارہیں تحقیق سے لاتعلقی نے مسائل کا انبار اکٹھاکردیاہے آج تمام ایجادات ان لوگوںکی ہیں جنہیں ہم کافر کہتے ہیں غیرمسلم ممالک میں تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی تعداد لاکھوں کروڑوںمیں ہے جبکہ 53مسلم ممالک اور ریاستوںکی حالت سب کے سامنے ہیں جہاں دنیاکی TOP HUNDRED یونیوسٹیوں میں ایک بھی کسی مسلم ممالک میں قائم نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آج منبر اور محراب پرتعلیم یافتہ علماء کی اکثریت نہیںہے اس کی بنیادی وجہ دور وراز اور پسماندہ علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے جس کے باعث ہمارے مدارس میں طلبہ کوجدید علوم سے روشناس نہیں ہو سکے اس پر مزید ظلم یہ ہوا کہ جاہل پیر طریقت بن بیٹھے ہیں ا ور دن بہ دن یہ صورت ِ حال سنگین سے سنگین ہوتی چلی جارہی ہے ۔کسی کو دین اسلام کی مبادیات کا علم نہیں۔۔۔فقہ’جہاد’اجتہاد’ شرع’ تقوی ‘ فتوی۔۔۔اس علم سے مطلقاً واقفیت نہیں۔
آج اگر معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ جاہل ریاست کو اپنے جْہل کی نوک پر رکھ چکے ہیں تو اس میں اچھلنے، حیرت اور اچھنبے کی کیا بات ہے؟؟؟ جہاں جاہل بیک وقت وکیل اورجج بن کر فیصلے کرنے لگیں اورلوگ بغیر سوچے سمجھے عقل کے فیصلے جذبات سے کرتے ہوئے سڑکوں پر قاتلوںکے حق میں نعرے لگاتے پھریں وہاں بہتر کیا ہوسکتاہے۔ کیا عشق ِ رسالت مآب ﷺکے یہی تقاضے ہیں ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچناہوگا ان حالات میں ریاست کو ا یسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک بیانیہ تشکیل دینا چاہیے کہ من گھڑت واقعات اور گستاخی کی حدود کا تعین اورفیصلہ کون کرے گا؟ یہ ہمارے ہاں اکثریت کا
مائنڈ سیٹ بھیڑ چال ہے اس لیے وزارت ِ مذہبی امور مختلف مکاتب ِ فکر کے علمائ،مذہبی ا سکالرز اور ایڈوکیٹ جنرل پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو ایسے معاملات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے کسی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ برے سے برا مسلمان بھی رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخی کا تصور نہیں کرسکتا یقین جانئے میں نے ٹن شرابیوں کو نبی پاک ﷺ کا اسم ِ گرامی سن کر مؤدب ہوکر سنبھلتے دیکھا ہے ۔خوشاب کا واقعہ میں نماز ِجنازہ کے دوران مقتول بینک منیجرکے حق میں ہزاروں لوگوںکی گواہی نے ہم سب کو سوچنے پر مجبورکردیاہے ۔کیا ابھی بھی کوئی شک رہ جاتا ہے کہ کسی کوبھی قتل کر کے اس کو گستاخ رسول کہہ کر ہیرو بن جانا کس قدر آسان ہے جس طرح ریاست اس پہ ستو پی کر سوتی رہی اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے ملکی جغرافیائی صورت ِ حال،نازک حالات، دہشت گردی ،فرقہ واریت،صوبائی عصبیت اور لسانی معاملات کے تناظرمیں دیکھا جائے تو پاکستان پہلے ہی بارود کے ڈھیرپر کھڑا ہے ہمارے چاروں جانب دشمن موقع کی تلاش میں ہے خدارا حالات کی نزاکت کااحساس کریں اسلام کے نام پر بننے والی پہلی مملکت ِ خداداد میں جاہلوںکو سپورٹ کرنا بندکردیں ورنہ اس بارود کے ڈھیر کے لیے ماچس کی ایک تیلی ہی کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔