... loading ...
(مہمان کالم)
رام پنیانی
حال ہی میں آسام کے ضلع درانگ میں واقع پساجھار میں احتجاجی مظاہرین پر پولیس کی کھلے عام فائرنگ ان تمام افراد کے لیے ایک انتباہ ہے جو انسانیت اور اخوت میں یقین رکھتے ہیں۔ وہاں سے جو تصاویر اور وڈیو فوٹیجز منظر عام پر آئی ہیں‘ خاص طور پر ایک فوٹوگرافر بیجو بنیا کی انسانیت سوز حرکت کی تصاویر اور فوٹیج‘ اس نے پورے بھارت کو خبردار کردیا۔ بیجو بنیا نے جس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دم توڑتے معین الحق کے پیٹ پر اچھل کود کی‘ اس نے ہر ذی حس انسان کو رنجیدہ کردیا اور اس خطرناک منظر کو دیکھنے والے یہ سوچ کر سکتے میں ہیں۔ کیا کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح کا وحشیانہ سلوک بھی روا رکھ سکتا ہے؟ 27 سالہ معین الحق تین چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ تھا۔ بوڑھے ماں باپ اور بیوی بچوں کی ساری ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر تھی۔ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سبزی اگاکر اسے فروخت کرکے گھر چلاتا تھا۔ سرکاری اراضی پر ناجائز قبضہ خالی کرانے کی مہم کے دوران آسام پولیس نے معین الحق کے سینے میں گولی ماری۔ پولیس فائرنگ کی زد میں آکر اپنی زندگی سے محروم ہونے والا دوسراشخص12 سالہ شیخ فرید تھا جو موضع دھول پور کا رہنے والا تھا۔ مذکورہ واقعے نے ہمیں بھارتی معاشرے کی سنگدلی دکھا دی ہے اور بتا دیا ہے کہ ہمارا معاشرہ کسی قدر سنگدل ہوگیا ہے اور جہاں انسانیت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔
جب آسام حکومت نے سرکاری اراضیات پر آباد لوگوں کو بے دخل کرنے کی مہم شروع کی تو ابتدا میں کسی نے بھی اس مہم کی مخالفت نہیں کی۔ بے دخلی کے دوسرے مرحلے کے دوران جب انہدامی کارروائی میں مبینہ طور پر غریب مکینوں کی چھوٹی سی اراضی پر نصب کی گئی جھونپڑیوں کو آگ لگانے کا عمل شامل کیا گیا تو مقامی آبادی نے اس کی مزاحمت کی اور پھر تشدد اور فساد پھوٹ پڑا۔ دھول پور گورو کھوتی گائوں میں احتجاج کیا گیا اور جھڑپیں ہوئی جن میں کئی افراد بشمول 9 پولیس والے بھی زخمی ہوئے جبکہ دو مظاہرین کی موت ہوئی۔ اس واقعے کے وڈیو میں معین الحق کو ایک پولیس آفیسر کا پیچھا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی۔ وڈیو میں پولیس بھی نہایت نزدیکی فاصلے سے اس پر فائرنگ کرتی دکھائی دے رہی تھی۔ ایک گولی مار کر اسے زخمی کرنے کے بجائے پولیس اہلکاروں نے کئی گولیاں مار کر اس کی جان لینے پر اکتفا کیا۔
حسبِ توقع حکومت نے اس سارے تشدد کے لیے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ آسام کی ریاستی حکومت نے مقامی افراد کے ان الزامات کو بھی مسترد کردیا جن میں کہا گیا تھا کہ انہدامی و بے دخلی کی مہم شروع کرنے سے قبل ان لوگوں کو مناسب نوٹس نہیں دیے گئے تھے۔ حکومت اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ دم توڑتے معین الحق کے سینے اور پیٹ پر اچھل کود کر کے اپنی درندگی کا مظاہرہ کرنے والے فوٹو گرافر بنیا کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے لیکن یہاں پولیس کا امتیازی و جانبدارانہ رویہ ا?شکار ہوتا ہے اور یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں موجودگی کے باوجود‘ ہاتھ میں لاٹھی تھامے آگے بڑھنے والے آدمی پر قابو پانے میں وہ ناکام کیسے رہی۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس مقام پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ کیا پولیس فائرنگ کرنے کے بجائے کوئی اور یا متبادل طریقہ اختیار نہیں کرسکتی تھی؟ جہاں تک شوٹنگ یا فائرنگ کا سوال ہے‘ یہ آخری اقدام ہونا چاہئے لیکن سج پا جھار میں صرف لاٹھی تھامے ایک شخص کے خلاف پولیس نے فائرنگ کا آخری حربہ اختیار کیا اور وہ ایسے کہ اس کے سینے میں گولیاں اتار دیں۔
یہ اندوہناک واقعہ اس لیے پیش ا?یا کیونکہ بی جے پی کے ہیمنت بسوا سرما کی زیرِقیادت ریاستی حکومت نے ایک ایسے علاقے سے لوگوں کو بے دخل کرانے کی ہدایت دی، جہاں وہ کئی عشروں سے زندگی گزار رہے تھے۔ امن و انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر نے حال ہی میں لکھا کہ چیف منسٹر بنتے ہی ہیمنت بسوا سرما نے ان ’’قبضوں‘‘ کو ہٹانے سے متعلق اپنی حکومت کے عہد کا اعادہ کیا تھا۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی تھی کہ انہدامی کارروائی کے لیے صرف بنگالی نڑاد مسلمانوں کی کثیر ا?بادی والی بستیوں کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا؟
یہ ایسا سوال ہے جو ایک طویل عرصہ تک بھارت کا تعاقب کرتا رہے گا۔اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھی فرقہ پرست بی جے پی نے ہمیشہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بیرونی باشندے قرار دیا ہے۔ ان فرقہ پرستوں نے اس علاقے میں ان مسلمانوں کی طویل تاریخ کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ان کی تاریخ آسام کی وسیع و عریض خالی زمین پر انگریز سامراج کے شجرکاری پروگرام سے شروع ہوتی ہے۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) کا عمل سپریم کورٹ کی نگرانی میں کیا گیا لیکن ریاستی حکام پر مسلسل فرقہ وارانہ تعصب کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔ این آر سی نے ریاست آسام میں 19.5 لاکھ مکینوں کو ان کے حقِ شہریت سے محروم کردیا اور اپنے دامن میں بسنے والے غریبوں کو ناقابلِ بیان مشکلات سے دوچار کردیا۔ این آر سی کے اختتام کے بعد دعوے کیے گئے کہ ان 19.5 لاکھ مکینوں میں 12 لاکھ تو ہندو ہیں جس کے نتیجہ میں ہی حکومت این آر سی عمل کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور ہوئی۔ حقوق انسانی پر کام کرنے والے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ بنگالی زبان بولنے والی اقلیتوں کو اس مہم میں خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور فرقہ پرست انہیں بنگلہ دیشی یا بیرونی باشندے قرار دیتے ہیں۔ یہ ایسا جھوٹ ہے جس پر بھارت کا حکمران طبقہ بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
جب تعصب کا دور دورہ ہو اور کمزور طبقات بالخصوص اقلیتوں کو ایک منظم سازش کے تحت دشمن کے طور پر پیش کیا جائے تو پھر شیخ فرید کے بارے میں بات کرنے کا کہاں موقع ملے گا۔ 12 سالہ شیخ فرید‘ بتایا جاتا ہے کہ‘ پوسٹ آفس سے اپنا آدھار کارڈ لیے واپس جارہا تھا کہ تشدد کی زد میں آگیا۔ کیا اس چھوٹے سے لڑکے پر قابو پانے کے لیے گولی کی ضرورت تھی؟ پولیس کو جرائم پر قابو پانے کی تربیت دی جاتی ہے‘ بے قصور لوگوں پر حملوں کی نہیں۔ آسام پولیس کو تربیت کی ضرورت ہے۔ کئی پولیس کمیشنوں نے ریاستی پولیس میں اصلاحات کی سفارش کی ہے۔ صرف آسام میں ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں پولیس میں اصلاحات کے لیے سفارشات پیش کی گئیں۔
حکومت عوام کی سرپرست سمجھی جاتی ہیں۔ لوگ جو کئی عشروں سے ایک علاقے میں مقیم ہیں، وہ چھوٹی چھوٹی کاشت کرکے یا چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مستقل شکار بنایا گیا ہے۔ پہلے وہ آفاتِ سماوی سے پریشان تھے‘ پھر انہیں سرکاری استحصال کا شکار بنایا گیا اور اب پولیس نے ان پر گولیاں چلادیں۔ درانگ ضلع میں برہم پترا سب سے بڑی ندی ہے۔ اس سے جو کٹائو ہوتا ہے‘ اس سے لوگوں کو بار بار مقامات بدلنا پڑتے ہیں، لیکن اقتدار میں نسلی قوم پرست بیٹھے ہیں ایسے میں غریبوں کے اپنے عدمِ احساسیت پائی جاتی ہے۔ نوجوان فوٹوگرافر کی حرکتیں نئی نہیں ہیں لیکن اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ نفرتیں کس قدر گہرائی تک سرایت کرچکی ہیں۔ ایک دَم توڑتے انسان پر حملے نے ساری انسانیت کو شرمسار کردیا ہے۔ یہ سب بھارت کے کارپوریٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور بدنام زمانہ ا?ئی ٹی سیل کی ناپاک کوششوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے جھوٹی خبریں پھیلائے اور معاشرہ کو بانٹنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔