... loading ...
افغانستان میںامریکی افواج کے انخلاکی خبر سُن کر ایک پاکستانی نے اپنے امریکی دوست سے دریافت سے کیا کہ ’’یار! کیا امریکا دنیا بھر میںمختلف جنگی محاذوں پر پے درپے شکست کھا کر تنگ نہیں آتا؟‘‘۔ امریکی شہری نے جواب دیا ’’بالکل تنگ بھی آتا ہے اور شرمساربھی ہوتا ہے ۔جب ہی تو فوراً ہی اپنی ہار کی خفت مٹانے کے لیے ایک نئی جنگ میں کود پڑتا ہے ۔اس اُمید پر کہ شاید اس بار جنگ میں فتح امریکا کو حاصل ہوجائے ‘‘۔لگتا ہے کہ کاتب ِ تقدیر نے امریکا کی دریافت کے ساتھ ہی اس ملک کے نصیب میں لکھ دیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن امریکی عوام اپنے حریفوں اور حلیفوں کے خلاف جنگ کیے بغیر کبھی زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ اگرفی الفرض محال امریکی عوام امن و آشتی سے رہنا بھی چاہیں تو امریکا میں قائم بڑی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان اپنی مالی منفعت کی خاطر امریکی قیادت کو یہ فیصلہ ہرگز لینے نہیں دیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا نے اَب تک جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں ، حسن ِ اتفاق سے اُسے سب میں شکستِ فاش ہوئی ہے ۔نیز ہر شکست کے بعد امریکا میں ہمیشہ یہ بحث بھی پورے شد و مد کے چھیڑی گئی ہے کہ کیا اُسے آئندہ کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ شروع کرنی چاہیے یا نہیں ؟۔ویت نام کی جنگ ہویا عراق و شام کی جنگ کا عبرت ناک انجام ہو، بہرحال ملک گیر بحث و مباحثہ میں تو یہ ہی طے کیا جاتاہے کہ آئندہ امریکا جنگ کرنے غلطی نہیں کرے گا۔ مگر شاید امریکا میں جنگ کرنے یا نہ کرنے کا اصل اختیار عام امریکی عوام کے بجائے ، اسلحہ ساز فیکٹریوں کے اُن طاقت ور سربراہوں کے پاس ہے ۔ جن کے کاروباری نفع کا تمام تر دارمدار دنیا بھر میں مسلسل جنگ جاری رہنے میں ہی ہے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکی قیادت ،افغانستان میں عسکری تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا مزہ چکھنے کے بعدبھی چین کے خلاف ایک اور جنگ کا آغاز کرنے کا حتمی فیصلہ کرچکی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا چین کے خلاف جس نئی جنگ کا آغاز کرنے جارہا ہے ،وہ ماضی کی تمام جنگوں کے مقابلے کہیں زیادہ طویل ،پیچیدہ ،سخت اور صبر آزما ہوگی اور اس متوقع جنگ کے نتائج صرف امریکا کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے بھی بہت ہول ناک نکل سکتے ہیں ۔ یہ رائے ہماری نہیں بلکہ دنیا بھر کے عسکری ماہرین کی متفقہ تجزیہ ہے ۔جبکہ امریکا کے مشہور و معروف تھنک ٹینکس کا بھی یہ ہی ماننا ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان شروع ہونے والی کسی بھی نوعیت کی جنگ کا اختتام کسی ایک فریق ،یا دونوں فریق حتی کہ ساری دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے بھی کافی ثابت ہوسکتاہے۔ مگر یہاں مصیبت یہ ہے کہ امریکا میں قائم بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں ،جن میں سے زیادہ تر کا کلی انتظام و انصرام پینٹاگون اور سی آئی اے سے منسلک افراد کے پاس ہی ہے ۔انہیں جنگ کی ہولناکیوں سے زیادہ فکر ،دورانِ جنگ بکنے والے اسلحہ سے حاصل ہونے والے خطیر منافع کی ہے۔سادہ الفاظ میں آپ یوںسمجھ لیں کہ آج کل امریکی قیاد ت کی جانب سے امریکی عوام کو یہ نقطہ ذہن نشین کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغانستان میں 20 برس تک امریکی کا جنگ کرنا ایک بہت بڑی عسکری غلطی تھی اور اَب اس غلطی کو سدھارنے کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کہ چین کے خلاف امریکی افواج کو جلد ازجلد میدان جنگ میں اُتار دیا جائے۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ امریکی عوام بھی بہت جلد اس گھسی پٹی دلیل کے آگے اپنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی افواج کی عبرت ناک شکست کو فراموش کرکے چین کے خلاف جنگ میں امریکی قیادت کی ہم نوا نظر آئے گی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صرف امریکی قیادت ہی نہیں بلکہ امریکا میں رہنے والا ہر فرد ،بُری طرح سے خبط عظمت میں مبتلا ہے ۔ امریکا عظیم ہے اور امریکی عظیم تر ہیں ۔لہٰذا ،ویت نام ،عراق اور افغانستان میں حاصل ہونے والی عسکری شکستوں سے اُن کے بڑھتے ہوئے قدم روکے نہیں جاسکتے ۔ یہ خیال ہی امریکیوںکے لیے اتنا دلآویز اور مسحور کن ہے کہ انہیں اپنی ہر شکست پر بھی فتح کا ہی گمان ہوتاہے۔ امریکی صدر جو زف بائیڈن نے بھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کیے گئے امریکی قوم سے اپنے خطاب میں یہ ہی تو کہنے کی کوشش کی ہے کہ ’’افغانستان میں جنگ امریکا نے اس لیے ادھوری چھوڑی ہے کہ اَب ہم چین سے نبرد آزما ہونا چاہتے ہیں ‘‘۔بظاہر افغانستا ن میں امریکا کو شکست ضرور ہوئی لیکن یہ شکست امریکیوں کے نزدیک اتنی معمولی سی ہے کہ اُنہیں اس کا بھرپور مزہ ہی نہیں آیا اور اَب وہ اگلی عسکری شکست کا مزہ چکھنے کے لیے نیا میدان جنگ سجانے کا پختہ ارادہ کرچکے ہیں ۔ اُصولی طور پر امریکیوں کی یہ بات اس لحاظ سے کچھ درست بھی لگتی ہے کہ اگر بے کراں سمندر سے چند چھوٹی بڑی نہریں کسی نے نکال ہی لی ہیں تو بھلا اس سے سمندر کی وسعت پر کیا فرق پڑنے والاہے۔ بالکل اسی مثال کے مصداق امریکا کو بھی کم ازکم ایک ایسی شکست کی ضرورت ہے ،جو اُس کے معیار ،مقام اور حیثیت کے مطابق ہو اور جس جنگ کی تپش ،تلخی اور تکلیف کابل اور بغداد کے بجائے واشنگٹن کی گلیوں میں چلتی پھرتی امریکی عوام کو بھی براہ راست محسوس ہو۔
امریکی قیادت کو ایک جنگ ختم کرنے کے بعد دوسری جنگ کرنے کا کتنا اشتیاق ہے ،اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیں کہ ابھی کابل سے انخلاء کرنے والی امریکی سپاہیوں کی تھکن بھی ٹھیک طرح سے نہیں اُتری ہوگی کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ایشیا انڈو پیسیفک میں، جسے جنوب مشرقی ایشیا بھی کہا جاتا ہے، امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک نیا سیکوریٹی معاہدہ طے پانے کا باضابطہ اعلان فرمادیا ہے۔واضح رہے کہ اس سیکورٹی معاہدہ کو عالمی ذرائع میں ’’آکوس معاہدہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور جو آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا کے ناموں کے حروف تہجّی، اے، یو کے، یو ایس پر مشتمل ہے۔ اِس معاہدے کے تحت امریکا اور برطانیہ، آسٹریلیا کو ایٹمی ایندھن سے لیس کم از کم 12 جدید دیوہیکل آب دوزیں بنانے اور اُنہیں سمندر میں تعیّنات کرنے کی صلاحیت کی ٹیکنالوجی فراہم کریں گے۔
’’آکوس معاہدہ‘‘ کی سب سے اہم بات ایٹمی آب دوزیں ہیں، جو آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں تیار کی جائیں گی، جب کہ تربیت، معلومات اور ٹیکنالوجی امریکا اور برطانیہ فراہم کریں گے کہ اُن دونوں کے پاس ایٹمی فیول سے چلنے والی اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس آب دوزیں موجود ہیں۔ معاہدے میں کروز میزائل کی فراہمی بھی شامل ہے۔نیز ان ممالک کے درمیان کوانٹم ٹیکنالوجی، انٹیلی جینس اور دیگر شعبوں میں معلومات کا بھی تبادلہ ہوگا۔ماہرین کے مطابق ایٹمی آب دوز، کسی عام آب دوز کے مقابلے میں سمندری دفاع کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔اِس وقت دنیا کے صرف چھے ممالک کے پاس ایٹمی آب دوزیں ہیں، گو کہ اُن میں ایٹمی ہتھیار نصب نہیں، مگر اس کے باوجود ان آب دوزوں نے اُنھیں غیر معمولی بحری قوّت دی ہے۔اگر روایتی اور ایٹمی آب دوزوں کی صلاحیت کا موازنہ کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ایٹمی آب دوز بہت زیادہ فوجی طاقت اور صلاحیت کی حامل ہوتی ہے، اس کی کھوج لگانا بہت مشکل ہوتا ہے، یہ آسانی سے حرکت کرسکتی ہے اور خاموشی سے اپنے اہداف پورے کر لیتی ہے۔ یہ عام آب دوز کی نسبت زیادہ عرصے تک سمندر میں رہ سکتی ہے، اِس لیے اس سے زیادہ مؤثر طور پر میزائل داغے جا سکتے ہیں۔
چونکہ’’آکوس معاہدہ ‘‘کو مستقبل میں تائیوان کی پہلی دفاعی لکیر بھی قرار دیا جارہا ہے ۔اس لیے چین نے اس معاہدہ پر سخت ردعمل دیتے ہوئے تائیوان کا فوجی گھیراؤ کرنا شروع کردیا ہے اور رواں ہفتہ 38 چینی فوجی طیاروں نے تائیوان کے دفاعی زون میں کئی گھنٹوں تک پروازیں بھی کی ہیں۔جسے تائیوان نے بیجنگ کی طرف سے اپنے اُوپر ہونے والا اب تک کا ’’سب سے بڑا حملہ‘‘ قرار دیا جارہاہے۔تائیوان کی وزارت دفاع کے مطابق چینی فضائیہ کے طیارے، جن میں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے مہلک بمبار طیارے بھی شامل تھے، دو مرحلوں میں تائیوان کی فضائی دفاعی شناختی زون (ADIZ) میں داخل ہوئے۔واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے جبکہ تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست قرار دیتا ہے۔نیز چینی شی زی پنگ کئی بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ’’چونکہ تائیوان چین کا اٹوٹ انگ ہے ،اس لیے وہ کسی بھی تائیوان کو مکمل طور پر اپنے زیر انتظام لے سکتے ہیں ‘‘۔عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ ’’آکوس معاہدہ ‘‘ کے بعد بیجنگ کے لیے ضرور ی ہوگیا ہے کہ وہ جلد ازجلد تائیوان پر لشکرکشی کر کے اُس پر قابض ہوجائے ۔ کیونکہ اگر ’’آکوس معاہدہ ‘‘ کی بدولت امریکا ایشیا انڈو پیسیفک میں چین کا گھیراؤ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر بیجنگ کا تائیوان پر حکومت کرنے کا خواب چکنا چور ہوکر رہ جائے گا۔
دوسری جانب ساؤتھ چائنا سی میں غیر محسوس انداز میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے بحری بیٹرے پہنچنے کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہونے کے بعد چین نے بھی امریکا کے خلاف دفاعی پالیسی کو ترک کرکے جارحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ۔امریکا کے ایک بڑے اتحادی بھارت کی سرحد پر بڑی تیزی کے ساتھ پیش قدمی شروع کردی ہے۔شاید اسی لیے عسکری ماہرین کو خدشہ حالیہ موسم خزاں کا آغاز ہوتے ہی چین، بھارت یا تائیوان میں سے کسی ایک ملک کے خلاف بھرپور عسکری کارروائی ضرور کرے گا۔ کیونکہ چینی قیادت سمجھتی ہے کہ اُن کے صبر ،برداشت ،رواداری اور تنازعات میں نہ اُلجھنے کی دفاعی پالیسی کو امریکا اور اس کی اتحادی دنیا بھر میں ’’کمزور چین ‘‘ کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ اَب چین کمزور یا طاقت ور اسے دنیا پر ثابت کرنے کا سرِ دست سب سے سہل طریقہ یہ ہی ہے کہ یا تو تائیوان کو بذور طاقت چین میں شامل ہونے پر مجبور کردیا جائے یا پھر بھارتی قیادت کے پاؤں تلے سے تبت کی سرزمین کھینچ لی جائے گا۔ دوسری چین کی متوقع اتحادی بھی اَب چین کی عسکری طاقت کا کوئی عملی مظاہر ہ ضرور دیکھنا چاہیں گے۔ تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ وہ امریکا کے خلاف جنگ میں جس چین کا ساتھ دینا چاہتے ہیں ۔ اُس کا ’’عسکری اسٹیمنا ‘‘کتنا ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔