... loading ...
دوستو، رواں ہفتے کے پہلے ورکنگ ڈے کی شب اچانک فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔۔چند گھنٹے کے اس بلیک آؤٹ سے کہاجارہا ہے کہ فیس بک کو اس سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اگلے روز طرح طرح کی سازشی تھیوریاں جنم لینے لگیں۔۔ایک تحریر میں دعویٰ کیاگیاکہ۔۔ا انٹرنیٹ بلیک آؤٹ پہلے سے پلان تھا!تحریر کے مطابق ،آج سے دس ماہ قبل ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی ویب سائٹ پر ایک وڈیو ڈالی اور وڈیو میں وارننگ دی گئی تھی کہ۔۔کیا ہوگا اگر دنیا میں فزیکل لاک ڈاؤن کے بجائے انٹرنیٹ لاک ڈاؤن لگ جائے۔۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے بل گیٹس نے کووڈ پینڈیمک سے پانچ سال قبل ایک سیمینار کیا تھا کہ ۔۔کیا ہم پینڈیمک کے لیے تیار ہیں؟۔۔۔یہ بلیک آوٹ جو کہ صرف سوشل میڈیا جیسے فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر مشتمل تھا، اس نئے آنے والے انٹرنیٹ پینڈیمک یا لاک ڈاؤن کی صرف ایک جھلک تھا۔ اور صرف اس جھلک میں ہی لاکھوں لوگوں کو کروڑوں کا کاروباری نقصان ہوا۔ سوچیں۔۔ کیا ہوگا جب ورلڈ اکنامک فورم کی وارننگ بلکہ (پیشن گوئی) بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ان کی پہلے سے کی گئی پلاننگ کے مطابق پورے انٹرنیٹ کا بلیک آوٹ ہوگا اور لاکھوں لوگ جن کی کمائی صرف اور صرف انٹرنیٹ سے وابستہ ہے وہ گھٹنوں کے بل گر جائیں گے۔ سوچیں آپ بینک سے پیسے نہیں نکال سکتے، آپ کسی کو ای میل ، میسج یا کال نہیں کرسکتے۔ یہ تو چھوٹے نقصان ہیں۔ لوگ واقعتاً ایسے بلیک آوٹ میں خودکشیوں پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ہم خوابی بات نہیں کررہا۔۔۔’’یہ طبقہ‘‘ اپنے کام پوری پلاننگ سے کررہا ہے اور جیسے انہوں نے باقاعدہ بتا کر وائرس والا سلسلہ کیا اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ویسے ہی باقاعدہ بتا کر انٹرنیٹ بلیک آوٹ کیا جائے گا اور شاید اس وقت بھی لوگ آپس میں ہی بحث کرتے رہیں اور کانسپیریسی تھیوری پیش کرنے والوں کو ملامت کریں لیکن عقل کا استعمال نہیں کریں گے۔ وقت اب یہ ہے کہ فوراً سے پیشتر اپنے آن لائن کاموں کو فزیکل کاموں سے تبدیل کیا جائے، اگر آپ کی کمائی 100 فیصد آن لائن کام سے ہے تو آپ زیادہ بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں لہذا فزیکل کاروبار یا کام کو اپنی اگلی انکم اسٹریم بنائیں۔
فیس بک اور وٹس ایپ نے کام چھوڑ دیا توپاکستانیوں کی اکثریت بار بار موبائل ریفریش کر رہی تھی۔۔ پھر بھی ٹھیک نہیں ہوا ۔۔وائی فائی بھی ری اسٹارٹ کردیا۔۔ مگر پھر بھی کام نہیں کر رہے تھے ،انسٹا گرام پرگئے وہ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔۔قوم سمجھی کہ ہمارا انٹرنیٹ کام نہیں کر رہا یوٹیوب اور کروم کھولے تو کام کر رہے تھے پھر ٹویٹر کھولا تو پتہ چلا کہ معاملا کچھ اور ہیں نیٹ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہیں مگر یہ تینوں ہی کام چھوڑ گئے ہیں ٹویٹر پر چند منٹوں کے اندر اندر وٹس ایپ کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ٹویٹر پر بریکنگ نیوز چل رہے تھے یوں فیس بک، انسٹا گرام اور وٹس ایپ کی چند منٹوں کی بندش نے پوری دنیا ہلا کر رکھ دی۔ٹویٹر پر مختلف تبصرے شروع ہو گئے ہر کوئی اپنی پسند کا مذاق اڑا رہا تھا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں پر کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہو چکی ہے کہ ان کے بغیر رہنا بھی ہم تصور نہیں کر سکتے ۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایپس کی بندش نے یہ ثابت کر دیا کہ لوگوں کیلیے تقریباً 80 فیصد انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے استعمال کا مطلب یہی ایپس ہیں، بعض لوگ تو اپنے انٹرنیٹ اور فون کو کئی کئی مرتبہ ری اسٹارٹ کرتے رہے۔ اس جال کی وسعت کا اندازہ لگائیں۔
باباجی فرماتے ہیں۔۔نشہ بیچنے والا پہلے فری میں یا سستا نشہ دے کر پھر نشہ دینا روک کر یہ ضرور چیک کرتا ہے کہ لوگ اس کے نشے کے عادی بھی ہو رہے ہیں یا نہیں۔۔ کچھ گھنٹے سوشل میڈیا کی بندش سے پریشان نہیں ہونا ابھی ہم لوگ سوشل میڈیا کے اتنے زیادہ عادی نہیں ہوئے ابھی ہم پر ٹیسٹ اپلائی کیے جا رہے ہیں، ابھی تو ہم نے مکمل طور پر اس نشے کا عادی ہونا ہے، پھر کنٹرول کرنے والوں (دجال، یہود و نصاریٰ) نے کنٹرول بھی کرنا ہے اور اپنی مرضی کے ہم سے کام بھی کروانے ہیں کچھ گھنٹوں کے لیے فیس بک ،واٹس ایپ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ہم سب پریشان ہوگئے تھوڑا سوچو اگر اس طرح کئی دن یا مہینے سوشل میڈیا بند ہوا تو ہمارا کیا حال ہوگا؟؟
دورِ حاضر میں جب چاہے لاک ڈاؤن لگا کر آپ پر مختلف پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ کبھی پابندیاں بہت سخت ہوتی ہیں تو کبھی لاک ڈاؤن لمبا ہوتا ہے۔ آپ اپنی مرضی سے تجارت نہیں کرسکتے۔ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز بند ہوں تو آزادانہ کہیں آ جا نہیں سکتے۔ خوراک آپکو سبزی کے ٹھیلوں یا سپر اسٹورز سے ملتی ہے۔ آپ کے پاس اتنی جگہ اور وسائل نہیں کہ ازخود اپنی خوراک اگا سکیں۔ بجلی نہ ہو توآپ موٹر چلا کر پانی بھر سکتے ہیں، نہ کوئی آن لائن جاب کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ بند تو آپکی سافٹ اسکلز کی چُھٹی۔ دیکھا جائے توآپ اپنی خوراک، صحت، تجارت، بزنس، آمد و رفت میں آہستہ آہستہ محتاج ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ آپ کی ذہن سازی ہو رہی ہے۔آپ کو پیٹرول پمپ سے فیول نہ ملے تو کہیں جا سکیں گے؟ بجلی گیس نہ ہو تو گھر کیسے چلے گا؟ حتی کہ پانی اور کھانا کیسے بنے گا؟ ہائبرڈ بیج مارکیٹ سے ملنا بند ہو جائے تو کیا اگائیں گے؟ تعلیم کا حال تو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ معیشت تو عرصے سے IMF کے ہاتھ میں ہے۔ اپنا گھر تعمیر کرنا تو ویسے ہی جوئے شیر لانا ہے۔یہ ہے وہ غیر محسوس جال جو آپکے گرد بُنا جا چکا ہے۔ اس کا ہلکا سا معائنہ وہ دیکھ چکے جن کا کاروبار اور چولہا ان دو سالوں میں ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ ممکن ہے آپ کو شاید اس کی سنگینی کا احساس اب نہ ہو، آپ کوئی جگاڑ نکال لیتے ہوں یا اتنے امیر ہوں کہ ان چیزوں سے فرق نہ پڑے۔ ممکن ہے آپ ان باتوں پر ہنس رہے ہوں کہ یہ سب کیا بکواس لگارکھی ہے۔۔ لیکن جلد ہی آنے والے وقت میں سب کو واضح ہوجائے گا کہ کوئی بھی آزاد نہیں ہے۔ یہودی میگزین دی اکانومسٹ تو پچھلے سال کرونا کے آغاز پر ہی کہہ چکا ہے کہ ۔۔ایوری تھنگ از انڈر کنٹرول۔۔ جب پوری دنیا یونہی جکڑ دی جائے گی، کلائمیٹ چینج سے فصلیں نہیں اگیں گی، خوراک کا مسئلہ سب سے بڑا اور شدید ہوگا، آپ کو پالنے والا آپ کا آنلائن بزنس اب انٹرنیٹ کی بندش سے ٹھپ ہوگا، تو پھر دنیا کسی ۔۔’’مسیحا‘‘ کی منتظر ہوگی کہ وہ آئے اور ان بحرانوں سے نجات دلائے۔ اور وہ مسیحا دجال اکبر ہوگا جو کہے گا ہر مشکل دور کردوں گا بس مجھے مان لو۔ یہی وہ فتنہ دجال ہے جس سے نبی ﷺ نے بھی پناہ مانگی اور یہ خوفناک ترین فتنہ ہے۔ حالات اسی جانب جا رہے ہیں۔
چلتے چلتے آخری بات۔۔ خدارا حالات کو سمجھیں، ایمان بچائیں اور بڑھائیں، اللہ والوں کی صحبت اختیار کریں، میڈیا کے زیر اثر نہ رہیں، اپنی خوراک و معیشت میں خود مختاری قائم کریں۔ اپنا سورس آف انکم یوں سیٹ کریں کہ آپ حقیقتاً خود مختار ہوں، پابندیوں سے متاثر نہ ہوں، اپنا سرمایہ کاغذی پیسے کی شکل میں نہ رکھیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔