... loading ...
(مہمان کالم)
معصوم مرادآبادی
معاف کیجئے ، یہ واردات کابل یا قندھار کی نہیں ہے۔ نہ ہی اسے انجام دینے والے وہ طالبان ہیں جنھیں شیطان ثابت کرنے کے لیے گودی میڈیا نے آسمان سر پہ اٹھارکھا ہے۔یہ واردات خود ہمارے ہی ملک کے ایک صوبے آسام میں ہوئی ہے، جہاں پولیس نے غریب اور لاچار مسلمانوں پر’ سرکاری زمین‘ خالی کرانے کے نام پر وہ ستم ڈھایا ہے کہ انسانیت لرز اٹھی ہے۔پولیس کارروائی یوں تو گھنٹوں جاری رہی، مگر اس کا ایک چھوٹا سا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سبھی کو یہ اندازہ ہوگیا کہ آسام کے نئے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اپنی ریاست سے مسلمانوں کو’ کھدیڑنے ‘کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اس لرزہ خیزویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پہلے پولیس معین الحق نام کے ایک مقامی باشندے کو گولی مار تی ہے اور پھر اس کی لاش کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ بات یہاں پرختم نہیں ہوتی۔پولیس کاروائی کو اپنے کیمرے میں قید کرنے والا ایک فوٹو گرافرمعین الحق کی لاش کے اوپر جو وحشیانہ رقص کرتا ہے ، وہ انسانیت کو شرمسار کردینے والا ہے۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اب کس انتہا کو پہنچا دی گئی ہے۔ اس ویڈیو کے وسیع پیمانے پروائرل ہونے کے بعد فوٹو گرافر کو حراست میں لے لیا گیا ہے مگر اس وحشیانہ کارروائی کے ذمہ دار پولیس والوں سے بازپرس کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی ہے اور’ سرکاری زمینوں‘ کو ناجائز مکینوں سے ا?زاد کرانے کا ’ ابھیان ‘ جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔یہ نظارہ ایک ایسی ریاست کا ہے جو ا?ج کل ہندتو کی لیباریٹری بنی ہوئی ہے اور جہاں مسلمانوں کو سبق سکھانے کے نت نئے تجربے کئے جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرمانے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی ریاست میںمسلم ا?بادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ’ پاپولیشن ا?رمی‘ تشکیل دے رہے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے کا کام اب ایک نئی فوج کرے گی۔
سبھی جانتے ہیں کہ آسام کے نئے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرمامسلمانوں کے بارے میں انتہا پسندانہ سوچ رکھتے ہیں۔ وہ ہائی کمانڈ کوخوش رکھنے کے لیے ہر وہ کام کرتے ہیں جو ان کی ریاست میں مسلمانوں کو سبق سکھانے والا ہو۔آسام کی پچھلی بی جے پی سرکار میں جب سرماوزیرتعلیم تھے تو انھوں نے سرکاری امداد یافتہ مدرسوں کو ختم کرکے انھیں عصری تعلیم کے اسکولوں میں تبدیل کیا۔ اگر آپ آسام میں این آر سی کے دوران سرما کے بیانوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ انھیںکس حد تک مسلمانوں سے بیر ہے۔بی جے پی ہائی کمانڈ نے ان کی اسی ’خوبی ‘ کی بنیاد پر پچھلے وزیراعلیٰ کو ہٹاکر انھیں ریاست کی باگ ڈور سونپی ہے۔ کیونکہ بی جے پی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ ہیمنت بسواسرما ہی اس کا ایجنڈا پوراکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آسام کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ ملک میں مسلم آبادی کی سب سے بڑی ریاست ہے ، جہاں ان کی آبادی34 فیصد ہے۔بی جے پی ایک عرصہ سے آسامی مسلمانوں کو ’بنگلہ دیشی درانداز‘ قرار دے کرانھیںبے دخل کرنے کی مہم چلارہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہ ریاست کے اصل باشندے نہیں ہیں بلکہ پڑوسی ملک سے ’ گھس پیٹھ ‘ کرکے یہاں آئے ہیںاور انھیں فوری طورپر بے دخل کیا جانا چاہئے۔اب جبکہ بی جے پی نے دوسری بار آسام کی باگ ڈور سنبھالی ہے تواس نے اپنی اس مہم کو تیز تر کردیا ہے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پچھلی سرکار میں این آرسی کو نافذکیا گیا، مگرجب اس کے تحت آسام کے اصل باشندوں کی شناخت کی گئی تو الٹا نتیجہ نکلا۔ این آرسی کی زد میں مسلمانوں سے زیادہ تعداد ہندوآبادی آئی۔این آرسی کے ذریعہ مسلمانوں کو آسام سے بے دخل کرنے میں ہاتھ لگی ناکامی کے بعد اب سرکار نے غریب مسلم آبادیوں پر دھاوا بول دیا ہے۔ گزشتہ23 ستمبر کو دارنگ ضلع میں ہوئی انسانیت سوز واردات اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جس میں حیوانیت کی سبھی حدیں پار کرلی گئی ہیں۔
23ستمبر کی کارروائی میں 28سالہ معین الحق اور13 سالہ شیخ فرید پولیس فائرنگ میںہلاک ہوئے ہیں۔ ناجائز قبضوں کے خلاف کارروائی کے دوران جن 800 مکانوں کو مسمار کیا گیا ہے ، ان میں تین مسجدیں اور ایک مدرسہ بھی شامل ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پولیس نے رات کو یہاں کے باشندوں کو نوٹس دیا اور صبح ہوتے ہی ان کے مکانوں پر دھاوا بول دیا گیا۔ انھیں اپنا سامان نکالنے کی بھی مہلت نہیں دی گئی۔1500 کی تعداد میں پولیس اور نیم فوجی مسلح فورس کے جوانوں نے یہ کارروائی انجام دی۔ جن لوگوں نے پولیس کی انہدامی کارروائی کی مخالفت کی ، ان پر بے دریغ گولیاں چلائی گئیں۔ پولیس کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے سینوں پر گولیاں چلائی گئیں۔قاعدے سے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ٹانگوں میں گولیاں ماری جاتی ہیں تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو، لیکن ایسا نہ کرکے براہ راست مظاہرین کے سینوں پر گولیاں داغی گئیں۔اس ظالمانہ کارروائی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ غریب اور مزدور پیشہ لوگوں کو اپنے اپنے گھروں سے سامان بھی نہیں نکالنے دیا گیا بلکہ پولیس نے غریبوں کے زندہ رہنے کے وسائل نذرآتش کردیئے۔
بی بی سی کے نمائندے دلیپ کمار شرما نے متاثرہ علاقہ کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ’’ دھول پور گائوں کے اندرجانے پر پورے گاو?ں میں لوگوں کے مسمارشدہ اور جلائے ہوئے مکان نظر آتے ہیں۔تقریباً چار کلومیٹردور سوتا ندی تک یہ نظارہ ایک جیسا ہی ہے۔کہیں لوگوں کی جلی ہوئی موٹر سائیکلیں تو کہیں ٹوٹے ہوئے مکانوں کے باہر برتن اور فرنیچر بکھرے پڑے ہیں۔اپنے اجڑے آشیانوں کے باہرکچھ خواتین اپنا بچا کھچا سامان تلاشم کررہی ہیں۔اس بستی میں سب سے زیادہ بری حالت معین الحق کی ماںکی ہے جو روروکر کہتی ہے کہ ’’ مجھے اپنا بیٹا چاہئے۔ ان لوگوں نے میرے بیٹے کے پیٹ میں گولی مارنے کے بعداسے لاتوں سے بھی مارا۔ لوگ اس کے سینے پر کود رہے تھے۔ ایک ماں اپنے بیٹے کا یہ حال کیسے دیکھ سکتی ہے۔میں نے وہ ویڈیو نہیں دیکھا لیکن گائوں کے لوگ مجھے آکر بتاتے رہتے ہیں کہ مارنے کے بعد وہ لوگ اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔‘‘معین الحق کے تین کمسن بچوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے66 سال کی مومنہ کہتی ہے’’ معین الحق یومیہ مزدوری کرکے ہم سب کا پیٹ پالتا تھا۔ اس کے تین چھوٹے بچے ہیں، اب ان کا خیال کون رکھے گا۔ہمارا خاندان اب کیسے زندہ رہے گا۔جب سے معین گیا ہے تب سے کسی نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ ان لوگوں نے ہمارا گھر توڑ دیا اور میرے بیٹے کو بھی مارڈالا۔ ہم اسی دیش کے باشندے ہیں۔ یہیں ہماری زمین اور گھر تھا۔ کہیں اور ہمارا گھر نہیں ہے۔ سب کچھ یہیں ہے۔ میرا جنم اسی دیش میں ہوا ہے۔ہم سبھی کانام این آرسی میں آیا ہے۔ پھر ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟‘‘ایسی ہی دردناک داستان معین کی بیوہ ممتا بیگم بھی سناتی ہے۔وہ روتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’میرے شوہر کی دردناک موت کا نظارہ اب لوگ موبائل پر دیکھ رہے ہیں۔‘‘
معین الحق کی موت کے وائرل ہونے والے ویڈیو کو دیکھ کر گاو?ں کے لوگ خاصے خوفزدہ ہیں اور ہر کسی کو اس میں اپنا چہرہ نظر آرہا ہے۔اس گائوں کے ہی ایک 18سالہ طالب علم قربان علی جو اس وقت بارہویں کلاس میں پڑھ رہاہے، وائرل ویڈیو کے بارے میںکہتا ہے کہ’’میں نے جب سے یہ ویڈیو دیکھا ہے، تب سے کافی اداس اور پریشان ہوں، کوئی انسان ایک مرے ہوئے شخص پر اس طرح کیسے کود سکتا ہے۔یہ بہت ظالمانہ ہے۔‘‘مگر سبھی کو معلوم ہے کہ قربان علی کی اس اداسی اور پریشانی کا علاج اس ملک میں کسی کے پاس نہیں ہے، کیونکہ سبھی اپنی اپنی کھال بچانے میں مصروف ہیں اور انھوں نے انسانیت کو یونہی تڑپنے اور رسوا ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔