وجود

... loading ...

وجود

گول آب۔۔

هفته 02 اکتوبر 2021 گول آب۔۔

دوستو، سمندری طوفان ’’گلاب‘‘ کراچی میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے، جمعرات ،جمعہ اورہفتہ کو زبردست قسم کی بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے۔۔ ان سطور کے لکھے جانے تک ماحول گرم ہوچکا ہے، بادلوں نے فیلڈنگ سیٹ کرلی ہے۔جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو گلاب نے کراچی کو’’گول آب‘‘ بنادیا ہوگا۔۔ بارشوں میں جہاں ایک جانب غریب کی چھت لیک ہوتی ہے وہیں بارشوں کے علاوہ بھی امیروں کی وڈیوز لیک ہوتی ہیں۔۔ کراچی میں بارش اور وڈیوزکے تذکرے جاری ہیں۔۔شہرقائد میں گلاب سے پہلے شدید حبس اور گرمی پائی جاتی تھی۔۔شہرقائد میں گرمی کی شدت کا یہ حال تھا کہ ۔۔ غریب آدمی کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے بھی پسینے کی وجہ سے کڑک کاٹن کے بن جاتے ہیں۔کپڑوں پر بارش پہلے ہوتی ہے ان پر بادل بعد میں نظر آتے ہیں۔جبین نیاز پسینوں سے زمین پر سجدے کے نشان چھوڑ کر بندگی کا حق ادا کرتی ہے۔ مومن ہو یا کافر اس موسم میں ہمہ وقت باوضو رہتا ہے۔کافر نگاہیں ٹھنڈی ٹھنڈی زلفوں کی چھاؤں تلاش کرنے لگتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ عید اور بارشیں صرف بچے ہی انجوائے کرتے ہیں۔۔ بالکل درست بات ہے۔۔ اب تو بڑے ہر عید پر کوشش کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ آرام کرلیں جب کہ بارشوں میں بھی زیادہ تر کی یہی کوشش ہوتی ہے۔۔ سندھ پر حکومت کرنے والی جماعت کے لیڈر نے تو پہلے ہی قوم کو بتادیا تھا کہ۔۔جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے، جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔۔ اس بار حقیقت میں ایسا ہی ہوا، شہر قائد کسی ’’واٹر پارک‘‘ کا منظر پیش کرنے لگا۔۔ کچھ لوگ تو ہمیں واٹس ایپ پر طعنے دینے لگے کہ ۔۔پہلے سمندر دیکھنے سی ویو، ہاکس بے جاتے تھے، اب سمندر خود چل کر آپ کے دروازے پر آگیا ہے۔۔چند روز پہلے جب ایک آدھ گھنٹے کے لئے ہی برکھا برسی تھی تب عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے، جب تھوڑا بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔۔ بارشوں سے گلیا ں تو جل تھل ہو ہی جاتی ہیں ، سڑکیں بھی سیلابی نظر آتی ہیں۔ پیدل، (عقل سے نہیں) چلنے ولا بہ امر مجبوری سڑکوں پر چلے گا کیونکہ فٹ پاتھ تو پہلی ہی بارش میں گدھے کے سرسے سینگ کی طرح غائب ہوجاتی ہیں۔ اب ہوتا یہی ہے کہ ہر پیدل چلنے ولا آنے جانے والے ٹریفک کو بھی راستہ دیتا ہے اور خود بھی زبانی ہارن دے کر پاس کرتا ہے۔ بارش کے موسم میں متوسط طبقہ جلدی جلدی گھر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھیں کمرے کی چھت سے کتنے آبشار بہہ رہے ہیں۔ رہ گئے امراء تو فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ گھر سے نکلے تو کار، دفتر سے نکلے تو کار، اگر خراب ہوگئی تو بے کار، عموماً اس طبقے کے لوگ بارش میں بھیگنے کو ترستے ہیں۔
لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی ’’موسموں کا شہر‘‘ میں فرماتے ہیں۔۔کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیاحت پر اْکسانے میں آب و ہوا کا بڑا دخل ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہر گز نہ نکلتے۔ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے کچھ دن یہاں کی بہار جانفزا دیکھ کر کارپو ریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں ان کا تعلق اس مخلوق سے ہوتا ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ مثلاً مگر مچھ ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ۔۔ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کا بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا ‘‘رش’’ لیتا ہے۔وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی ‘‘روپیہ’’ کی طرح بہا یا جاتا ہے۔۔۔
ایک زمانہ تھا جب کراچی میں بارشیں عام طور سے گرمیوں میں ہی ہوتی تھیں،ہمیں یاد ہے اماں ،ابا اس وقت تک گھر میں آم نہیں لاتے تھے جب تک ایک پر برسات نہ گزرجائے۔۔شاید اماں اباسوچتے ہوں گے کہ بارش کے بعد آنے والے آم زیادہ میٹھے ہوتے ہیں، لیکن یقین کریں ہم نے کئی بار بازار میں بارشوں سے پہلے آم کو ٹھیلوں اور دکانوں میں پڑے دیکھا۔۔گرمیوں کی پہلی برسات کے بعد آموں کے ساتھ کالے جامن بھی کھائے جاتے تھے، آم کے مضراثرات سے بچنے کے لئے کچی لسی پی جاتی تھی۔۔کیوں کہ پھر یہ یقین رہتا تھا کہ اب ’’دانے‘‘ نہیں نکلیں گے۔۔ ہمارے زمانے میں برسات کے گانے بھی عجیب ہی میلوڈی رکھتے تھے۔۔جھولا ڈالو ری، سکھی ساون آیو۔۔ساون کے دن آئے بالم، جھولا کون جھلائے۔۔اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔۔ اور آج کل کے گانے سنیں۔۔ برسات کے موسم میں ،تنہائی کے عالم میں ، میں گھر سے نکل آیا، بوتل بھی اٹھالایا۔۔جب ہم نے باباجی سے ’’بوتل‘‘ کی تشریح چاہی تو فرمانے لگے۔۔بیٹاجی، یہاں گھر سے نکلتے وقت بوتل اس لئے لے کر نکلاگیا ہے کہ گھر میں چلنے والے جنریٹر کا فیول ختم ہوگیا ہے، پٹرول پمپ سے پٹرول بوتل کے بغیر ملنا نہیں۔۔ اور تمہیں تو پتہ ہے ، برسات میں بجلی ہوتی کہاں ہے؟؟دو پاگل چھت پر سو رہے تھے کہ اچانک بارش ہو گئی۔ایک پاگل کہنے لگا۔۔چل اٹھ یار،اندر چل ،آسمان میں سوراخ ہوگیا ہے۔۔ اتنے میں بجلی بھی کڑکدار انداز میں چمکی، دوسرا پاگل کہنے لگا۔۔اوئے سوجا، ویلڈنگ والے بھی آگئے ہیں۔۔برسات کی ایک خوبصورت صبح ہلکی ہلکی سی پھوار میں بھیگتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔۔انّی دیا! ٹکراں تے نہ مار!۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔عورت کی کشش اور زمین کی کشش میں کوئی خاص فرق نہیں،دونوں ہی خاک میں ملادیتی ہیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر