... loading ...
شاید ہم اس صدی کے آخری لوگ ہیں جن کے بزرگ گرمیوںمیں اپنے اپنے گھروںکے باہر گلی میں سویا کرتے تھے اس کیلئے بڑااہتمام کیا جاتا ، مغرب کے بعد بچے شوق سے دروازوںکے آگے صفائی کرکے پانی کا چھرکائو کرتے ،خال خال کسی کے پاس ٹرانسسٹر (ریڈیو)ہوتاوہ بڑے مزے کے ساتھ خبریں یا گیتوںبھری کہانی یا فرمائشی پروگرام سنتا۔ اکثروبیشترپڑوسی بھی اردگردجمع ہوکرحالات ِ حاضرہ پرسیرحاصل بحث کرتے ۔یہ اس وقت واحدتفریح تھی ان دنوں لوگوںکے مزاج میں شدت نہ تھی، فرقہ پرستی جنون نہیں بنی تھی ذات برادریاں ماحول پر غالب تو تھیں لیکن مروت،احساس اوراخوت کے جذبات وافرتھے لڑکے لڑکیاں مل کر کئی کھیل کھیلتے آج کی طرح لوگ اتنے سفاک اور درندے نہ تھے، اب تو دیدوںکا پانی مرگیاہے ، تب آنکھوں میں اتنی شرم حیا تھی کہ کوئی بچہ پڑوسی کو بھی سوداسلف لانے سے انکارنہیں کرتا تھا ۔ لوگ ایسے ایسے موضوعات پر بلاجھجک تبادلہ ٔ خیال کیاکرتے تھے جو آج ممنوعہ ہوگئیں ہیں کوئی کسی کو کافر قرار دیتا نہ مرنے مارنے پر اتر آتا ،لوگ اعلیٰ ظرف تھے،معاف کرنا جانتے تھے۔ محلے میں لبھی لڑائی ہوجاتی ،بزرگ فریقین کو دودوچار تھپڑ لگاکر معاملہ رفع دفع کردا دیتے تھے۔ اب تو ٹیچر طالب ِ علم کو پیار سے ایک چپت بھی لگادے والدین مزا چکھانے آجاتے ہیں۔ شایداسی لیے معاشرے میں گھٹن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
لوگ فرسٹریشن کا شکارہیں چھوٹے چھوٹے مسائل روگ بن گئے ہیں ۔نفرتیں، عداوتیں اور مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں ،تبھی تو نت نئی نفسیاتی بیماریاں پھل اور پھول رہی ہیںکیادور تھاماحول میں تازگی کااحساس ہوتاتھا اب توآلودگی کے باعث آسمان پر تارے نظرنہیں آتے۔ پھر ٹی وی کی ایجاد نے لوگوںکو کمروںتک محدودکردیا ۔ان دنوںمحلے کے صرف کھاتے پیتے لوگوںکے پاس ٹی وی ہواکرتا تھا ۔کوئی خاص پروگرام یا جب ہفتہ وار فلمیں لگناشروع ہوئیں تو عورتیں ایک دوسرے کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتیں ،ان کے لئے کھانے پینے کی چیزوںکااہتمام کیا جاتا ،پورا محلہ ایک خاندان لگتا تھا ، جیسے جیسے پیسے کی فراوانی ہوتی چلی گئی، گھروںکے دروازے ایک دوسرے پر بندہوتے چلے گئے ۔ ٹی وی کے بعدٹچ موبائل نے تو پورا ماحول ہی بدل ڈالا آج حالات یہ ہیں کہ ایک ہی کمرے میں اگر گھر کے دس افرادبھی موجود ہوں تو لگتاہی نہیں یہ ایک خاندان کے لوگ ہیں سب کے سب جیسے چابی کے کھلونے ، ایک دوسرے سے لاتعلق ،بے پرواہ تمام ہی موبائل کے اسیرہوچکے ہیں، یاد آتی ہے تو آج اپنے رویوں،سماجی تعلقات اور حالات پر حیرانی سی حیرانی ہے ۔
وہ بھی کیا دن تھے جب تفریح کا واحد ذریعہ پی ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ پرانی وضع قطع کے لوگ اسے بھی بے حیائی سے تعبیرکرتے تو بچوں بالخصوص نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بہت برا لگتا۔ وہ دل ہی دل میں منع کرنے والوںکوکوستے اور سر جھٹک کر بڑبڑاتے دقیانوسی کہیں کے۔۔۔ اور پھر جس روز TV پر فلم دکھائی جاتی بچوںاور نوجوان لڑکیوںکا جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا جیسے عید آگئی ہو ان دنوں ٹی وی نشریات بلیک اینڈوائٹ تھیںجبکہ ٹی وی بھی خال خال گھروں میں ہوا کرتا تھا جو ٹی وی پورا خاندان بلکہ اڑوس پڑوس کے لوگ بھی فلم دیکھنے آتے اور ٹی وی کے سامنے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے فلم کے درمیان اشتہارات کی بھرمارسے بے مزہ ہوئے بغیرلوگ انجوائے کرتے کوئی گانا آتا یا ہیرو ،ہیروئن کے درمیان کوئی رومانوی سین کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں آنکھ چراکر ایک دوسرے کو دیکھتے اور ان کے لبوںپر دل آویز مسکراہٹ پھیل جاتی اور لڑکیوںکے رخسار حیا سے گلنار ہوہو جاتے ۔ گھر کے مرد شرمندہ ہوکر کسی بہانے کمرے سے باہر نکل جاتے اور جی ہی جی میں کڑھتے اور بڑبڑاتے ،لیکن اولادپر بس نہ چلتا آج تو گھرگھر کیبل آگئی ہے۔ اس وقت انٹینا ایک لمبے بانس پر باندھ دیا جاتا تھا جس سے وہ عیسا ئیوں کے مذہبی نشان صلیب سے مشابہہ ہوجاتا ۔ ٹی وی نشریات صاف نہ آجاتیں یا ہوا کا رخ موافق نہ ہوتا تو چھت پر جاکر انٹینا گھماتا پڑتا ۔یہ بہت بڑا عذاب تھا پھر رنگین نشریات کا آغازہوا ۔ ٹی وی میں حسن نکھر نکھرکر سامنے آیا۔ پھر بے حجاب ہوتاچلاگیا آج درجنوںنہیں سینکڑوں طرح طرح کے چینل آگئے۔ ریٹنگ کی مقابلے کی دوڑ اور دولت کمانے کی ہوس میں ٹی وی اور آل اولاد بے لگام ہوتی چلی گئی آج ایسے ایسے واہیات ٹی وی ڈرامہ سیریل دکھائے جارہے ہیں کہ الحفیظ و الامان ۔
ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں انسان کو بہت سی سہولیات میسر آئی ہیں وہاں اس کے آڑ میں کچھ عذاب بھی در آئے ہیں اس کے بلا شبہ ذمہ دار خود انسان ہے بیشترکو یادہوگا جبVCR کا دور دورہ ہوا تو اس نے بہت سی قباحتوںکو جنم لیا برصغیر کے لوگ ویسے بھی معاشرتی گھٹن کے باعث فرسٹیشن کا شکار ہیںجس کے باعث انہوں نے VCR پرفحش اور بولڈ فلمیں لگاکر اس کا مداوا کرنے کی کافی حدتک کوشش کی اور اس کوشش میں اکثر اخلاقی حدود سے بھی تجاوزکر جاتے اس وقتVCR کرائے پر ملتا تھا اور یہ بہترین کاروبار شمارہوتاتھا، تنہائی کے ماروں،فرسٹیشن کا شکار اور فلموں کے شوقین خواتین و حضرات کا VCR صحیح معنوںمیں ہمدرد اور غمگسارثابت ہوا لوگ کرائے پروی سی آر لیتے اور زیادہ سے زیادہ فلمیں دیکھنے کے لالچ میں پتھرائی آنکھوں سے حسین مناظر دیکھتے آنکھیں تھک جاتیں لیکن فلمیں ختم نہ ہوتیں ایک کے بعد دوسری پھر تیسری فلم یکے بعد دیگرے فلم چلتی کبھی نیند بھگانے کے لئے کڑک چائے بنائی جاتی اور کبھی فلم کی کوالٹی بہتر بنانے کے لیے وی سی آر کا ہیڈ صاف کیا جاتا اس دور میںوی سی آر مالکان اورٹی وی مکینکوں نے بہت پیسے کمائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کا سارا ماحول یکسر تبدیل ہوگیا جو اسلامی رہا نہ فلاحی ،لیکن کچھ لوگ اس ساری صورت ِ حال کو قیامت سے تعبیر کرتے ہوئے لاحول ولا قوۃ کا ورد کرتے رہتے ۔نقصان یہ ہوا کہ اولاد منہ زور ہوتی چلی گئی ،خلوت کی باتیں سِر عام کی جانے لگیں۔ معاشرے کی اخلاقی قدریں کمزور ہوتی چلی گئیں۔ٹیکنالوجی کا فروغ تو ہمیشہ خوش آئندرہا ہے مگر انسان اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبورہے، اس لیے ہر چیز کا منفی پہلو حاوی ہوجاتاہے اور برصغیر کے باشندوں نے بھی ایسے ہی کیا۔ لہٰذوی سی آر پورے ماحول پر غالب آگیا ۔گھروں،دفاتر اور ملنے جلنے والوںمیں اسی کے چرچے اور تذکرے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اب انسان حسب ِ منشا اپنی پسند کی فلمیں،پروگرام اور ویڈیو دیکھنے پر قادر تھا۔ ورنہ اس سے پہلے جو ٹی وی ڈرامہ سیریل دکھاتا لوگوںکو بادل نخواستہ وہی دیکھناپڑتے۔ وی سی آرکے سائیڈ افیکٹ تو اپنی جگہ پر لیکن اچھا پہلو یہ بھی ہے کہ ذہنوںکو وسعت ملی،دنیا سمٹ گئی اور گھربیٹھے کہیں جائے بغیر لوگ انجوائے کرنے لگے۔کبھی تنہائی میں آپ غورکریں کہ گزشتہ نصف صدی سے پہلے دنیا کیسی تھی ؟ یقینا آپ کہہ اٹھیں کہ بے رنگ ۔بے کیف ٹیکنالوجی نے ہماری دنیا رنگین
کردی ہے آج جو ہمیں سہولیات میسرہیں ،دعوے سے کہاجاسکتاہے کہ یہ عیش و آرام تو بادشاہوںکا بھی نصیب نہیں تھا ،اس کے باوجود ہم بھی کتنے ناشکرے ہیں کہ اپنے خالق ِ حقیقی کے بھی شکر گزارنہیں ۔شاید فطرتاً انسان ناشکرا ہے، یقینا اسی سبب خسارے میں ہے۔ماضی کی بہت سی باتیں یاد آتی ہیں تولگتاہے شاید وہ فسانے تھے یا خواب۔۔ لیکن انہیں یاد کرنے میں مزا بڑا آتاہے آپ کا کیا خیال ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔