... loading ...
حیدرآباد ،صوبہ سندھ کا صرف دوسرا بڑا شہر ہی نہیں بلکہ1947 سے لے کر 1955 تک صوبائی دارالحکومت ہونے کا اعزاز بھی اس شہر کو حاصل رہا ہے۔یہ ہی کوئی 40 یا 45 برس پرانی بات ہوگی کہ حیدرآباد شہر اپنے حسن انتظام،مربوط اور منظم سرکاری اداروں ، کھلی و کشادہ گلیوں اور صاف ستھری ، صحت افزا آب و ہواکے باعث صوبہ سندھ کے تمام شہروں پر خصوصی امتیاز و برتری رکھتا تھا۔حیران کن بات یہ ہے کہ حیدرآباد کی ٹھنڈی سڑک کی خنکی، ریشم گلی کا ملکوتی حسن وجمال ،بمبئی بیکری کے کیک، چوڑی باز ار کی کھنکھناتی چوڑیوں اور یہاں سرِ شام چلنے والے خمار آور بادِ شمیم کے قصے سارے پاکستان میں زبان زدِ عام ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ سنہری دور تھا جب کراچی کے اکثر متوسط اورمتمول کارباری افراد کراچی کی تیز رفتار و ہنگامہ خیز زندگی کی یکسانیت سے گھبر ا کر دبئی ، نیویارک یا لندن کا رُخ کرنے کے بجائے ،اپنا جی بہلانے کے لیے حیدرآباد کی جانب عازمِ سفر ہونا زیادہ پسند فرماتے تھے۔ بلاشبہ ماضی کا حیدرآباد ایک بہترین شہر کی تعریف پر پورا اُترتا تھا۔ لیکن پھر اس شہرِ پری تمثال کو ’’سیاست ‘‘ کے ایسی بُری نظر لگی ،کہ صرف حیدرآباد شہر ہی نہیں بلکہ اس شہر کی تعمیر ،تہذیب اور ترقی کے ذمہ دار ادارے بھی یکے بعد دیگرے تباہ و برباد ہوتے گئے ۔ گزشتہ 40 برسوں میں تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہونے والے بے شمار انتظامی اداروں میں ایک اہم ترین ادارہ حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی ہے۔ جسے مختصر الفاظ میں ’’ایچ ڈی اے ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتاہے۔
کہنے کو ’’ایچ ڈی اے ‘‘ کا قیام1976 میں حیدرآباد کے تاریخی حسن و دلکشی کو محفوظ رکھنے اور جدید شہری اُصولوں کی روشنی کے عین مطابق شہر کو ترقی دے کر جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے لایا گیا تھااور سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے قیام کے ابتدائی ایّام میں اس سرکاری ادارے نے اپنی بساط سے بڑھ کر حیدرآباد شہر کی تعمیر نو ،اور دیکھ بھال کرنے میں اپنا حصہ بھرپور انداز میں ڈالا بھی ۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا اور چار، پانچ سال بعد ہی حکمرانوں نے اس ادارہ کو ’’سرکاری ‘‘ سے مکمل طور پر ’’سیاسی ادارے ‘‘ میں تبدیل کر دیا ۔ یاد رہے کہ ہر وسعت پذیر ہوتے شہر میں ،ہر تھوڑی مدت بعد نئی آبادیوں اور صنعتی علاقوں کے قیام انتہائی ناگزیر ہوجاتاہے ۔لہٰذا،آج سے ،بیس ،پچیس سال قبل حیدرآباد شہر میں بھی نئے ماسٹر پلان کے ساتھ ازسرِ نو تعمیر و ترقی کا مسئلہ سر اُٹھانے لگا تھا۔اس مرحلے پر ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ صاحبِ اقتدار ’’ایچ ڈی اے‘‘ کو پرانے حیدرآباد کے اطراف و مضافات میں جدید رہائشی و صنعتی سہولیات سے مرصع نئے نئے شہر آباد کرنے کے لیے بروئے کار لاتے ۔
مگر افسوس صد افسوس! کہ اربابِ اختیار نے ’’ایچ ڈی اے ‘‘کو حیدرآباد شہر کے اندر ہی سیمنٹ اور سریے کا جنگل اُگانے پر مجبور کر کے کروڑوں ، اربوں روپے بنانے کی ٹکسال میں ڈھال دیا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھے صرف چند برسوں میںتاریخی شہر، حیدرآباد ،نام نہاد نئے حیدرآباد کی دھول ،مٹی اور کچرے تلے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوکر رہ گیا ۔ اس وقت شہر کی حالتِ زار یہ ہے کہ شہریوں کے لیے پینے کا صاف پانی تو، نایاب ہے ، لیکن شہر کے اہم محلے اور شاہرائیں گٹر کے گندے پانی سے سال کے 365 دن، اُبلتی رہتی ہیں ۔ شہر میں ٹریفک کے نظم و ضبط کے لیے کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ،اس لیے حیدرآباد میں ٹریفک جام اور ٹریفک حادثات معمول کی بات ہے۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ شہر کے رہائشی علاقوں میں صنعتیں قائم ہیں جبکہ شہر میں صنعتوں کے لیے مختص کیے گئے علاقے میں ’’چائنا کٹنگ مافیا ‘‘بنگلے اور پلازے بنانے میں مصروف ہے۔ مانا کہ حیدر آباد ،گنجان آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا شہر ہے ،اس لیے اس کی تعمیرو ترقی کی ساری ذمہ داری فقط ایک سرکاری ادارے ’’ایچ ڈی اے ‘‘ کے سر تھوپنا زیادتی ہوگی ۔
مگر مصیبت یہ ہے کہ ’’ایچ ڈی اے‘‘حیدرآباد شہر کے لیے کچھ بھی تو نہیں کررہا، سوائے حیدرآباد کی زمین ،اونے ،پونے داموں بیچنے کے ۔ واضح رہے کہ آج سے 12 برس پہلے حیدرآباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے گلستان سرمست ہاؤسنگ اسکیم کے نام سے حیدرآباد کے مضافات میں بننے والاایک ایسا عظیم الشان منصوبہ شروع کیا تھا ،اگر ’’ایچ ڈی اے ‘‘گلستان سرمست میں تما م جدید شہری سہولیات سے مزین واقعی ایک ’’نیا حیدرآباد ‘‘ بسانے میں کامیاب ہوجاتا تو اس ادارے کے ماضی میں کیے گئے تما م گناہ، بیک جنبش قلم آسانی سے معاف کیے جاسکتے تھے۔ لیکن ’’ایچ ڈی اے ‘‘نے اس منصوبہ کو بھی صرف اللہ توکل یا پھر انویسٹروں کے بھروسے پر چھوڑا ہوا ہے، یعنی صرف پلاٹوں کی فائلیں بک رہی ہیں اورترقیاتی کام ندارد۔حیرانگی تو یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ فائلیں بیچنے کا کاروبار جب ذرا مندی کا شکار ہونے لگتا ہے تو ہر ایک ،دو سال بعد نیا فیز بنا دیا جاتاہے اور پلاٹوں کی فائلیں پھر سے بکنا شروع ہوجاتی ہیں ۔جبکہ پلاٹوں کی خریداری اور منتقلی کے لیے ہرروز ،رشوت کا جو بازار لگایا جاتاہے ، اُس کا تو ذکر کرنے سے بہتر ہے کہ آدمی اپنے کانوں کو ہاتھ لگالے۔علاوہ ازیں 1997 سے ’’ایچ ڈی اے‘‘ میں ریگولرائزیشن کے قانون کا ناطقہ بند ہے۔ جس کی وجہ سے عام شہری سخت پریشان ہیں۔
کچھ عرصہ قبل غلام محمد قائم خانی ’’ایچ ڈی اے ‘‘ میں بطور ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوئے ہیں ، موصوف کی شہرت صاف اور پورا کیرئیر بدعنوانی کے داغ سے یکسر پاک بتایا جاتاہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اِن کے آجانے سے ’’ایچ ڈی اے ‘‘میںتھوڑی بہت زندگی کی رمق اور ہلچل بھی محسوس ہورہی ہے ۔ لیکن کیا غلام محمد قائم خانی ’’ایچ ڈی اے ‘‘میں اپنی من مانیاں کرنے والے منیجنگ ڈائریکٹر اور دیگر عملے کو یاد کروا پائیں گے کہ اس ادارہ میں اُن کا اصل وظیفہ اور ذمہ داری کیا ہے؟۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔بہرحال اَب حیدرآباد کی عوام یہ اُمید نہیں رکھتے کہ ’’ایچ ڈی اے ‘‘حیدرآباد شہر کی گم شدہ رونقیں واپس لوٹادے بلکہ اَب تو لوگوں کی اکثریت صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح غلام محمد قائم خانی اپنے ادارے ’’ایچ ڈی اے ‘‘کو ترقی کی شاہ راہ پر ڈال دیں تو معجزہ سمجھاجائے گا ۔ لطیفہ ملاحظہ ہو کہ سال 2021 کے ڈیجیٹل زمانے میں ’’ایچ ڈی اے ‘‘ کی نہ تو کوئی فعال ویب سائٹ ہے او رنہ ہی کوئی معلومات یا رابطے کے لیے موبائل ایپلی کیشن ۔ حد تو یہ ہے کہ ’’ایچ ڈی اے ‘‘ کا فیس بک پر ایک آفیشل پیچ بنا ہو اہے ، جو آخری بار 20 مارچ 2014 کو اَپ ڈیٹ ہوا تھا، یعنی 7 برس ہونے کو آئے ہیں ’’ایچ ڈی اے ‘‘ کسی اہلکار نے فیس بک پیچ پر اپنے ادارے کی ایک پوسٹ بھی ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔کم ازکم ’’ایچ ڈی اے ‘‘ میں عوامی شکایات کی شنوائی اور اُن کے ازالے کے لیے تو کوئی نظام ہونا چاہئے ۔تاکہ ’’ایچ ڈی اے‘‘ کے ڈی جی کو یہ تو اندازہ ہو سکے کہ اُن کی سرکاری قلمرو کے نیچے کیا کیا گل بوٹے کھلائے جارہے ہیں ۔بقول شاعر
کالم کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں ، خلاصے میں نہیں آئیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔