... loading ...
نیوزی لینڈ کی حکومت کی جانب سے پاکستان میں سکیورٹی خدشات کو بنیاد پر بنا کر کیوی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان ختم کرنے کے اعلان کے بعد دنیائے کرکٹ سخت صدمے کی حالت میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کسی بھی کرکٹ ٹیم کا اپنا طے شدہ دورہ ملتوی کرنے کا کوئی انوکھا واقعہ ہواہے ۔ بلاشبہ کرکٹ کی تاریخ میں سیکورٹی کے علاوہ اور بھی بے شمار چھوٹی ،بڑی یا سنگین و رنگین وجوہات کی بنیاد پر کرکٹ بورڈز کا اپنی ٹیموں کے طے شدہ دورے ملتوی کرنا ایک عام سی بات رہی ہے۔خود نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم ،غیر ملکی دورے منسوخ یا ادھورا چھوڑ کر اچانک چلے جانے کی بڑی طویل تاریخ رکھتی ہے۔1987 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم سری لنکا کے دورے پر تھی لیکن پہلے ٹیسٹ کے بعد کولمبو میں ہونے والے بم دھماکے میں 100سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد اس نے یہ دورہ ختم کر دیا تھا۔
نیزسال1992 میں نیوزی لینڈ ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے کولمبو میں ٹیم ہوٹل کے قریب ہونے والے بم دھماکے کے بعد سری لنکا کا دورہ جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا اور وطن واپس چلے گئی تھی۔ اُس کیوی ٹیم میں دنیائے کرکٹ کے بڑے نام، مارک گریٹ بیچ، گیون لارسن، راڈ لیتھم، ولی واٹسن اور کوچ وارن لیز شامل تھے۔2001 میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر روانہ ہوئی اور وہ ابھی سنگاپور تک ہی پہنچی تھی کہ امریکا میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوگیا اور کیوی ٹیم وہیں سے اپنے وطن واپس روانہ ہو گئی۔2002 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ کھیلنے کے لیے اپنے ہوٹل سے سٹیڈیم کے لیے روانہ ہونے والی تھی کہ اس دوران فرانسیسی انجینئرز کی خودکش حملے میں ہلاکت کے واقعے نے اسے دورہ ختم کر کے وطن واپس جانے پر مجبور کر دیا تھا۔مگر ماضی میں نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے اپنے جتنے بھی غیر ملکی دورے منسوخ کیے تھے وہ میزبان ملک کے کرکٹ بورڈ کے حکام سے ساتھ مشاورت اور باہمی رضامندی کے ساتھ کیے گئے تھے۔یا کم ازکم دورہ منسوخی کی وجوہات سے ضرور میزبان کرکٹ بورڈ کو آگاہ کیا تھا۔
لیکن حالیہ دنوں نیوزی لینڈ کی حکومت نے جس عامیانہ انداز میں افتتاحی میچ شروع ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل بغیر کسی وجہ کے اپنے کرکٹ بورڈ کو دورہ پاکستان منسوخ کرنے کے لیے مجبور کیا ہے ۔ یہ ایک ایسا عجیب و غریب اور بدترین واقعہ ہے جس کی کرکٹ کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ شائقین کرکٹ کو سب سے زیادہ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت نے جن نام نہاد سیکورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر اپنی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ،اُن سیکورٹی خدشات کے بار ے میں پاکستان کرکٹ بورڈ ،یا حکومت پاکستان کو بتانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔حد تو یہ ہے کہ نیوزی لینڈ ٹیم کے اپنے وطن واپس پہنچ جانے کے بعد نیوز ی لینڈ کرکٹ کے سربراہ ’’ڈیوڈ وائٹ ‘‘نے پریس کانفرنس میں ایک بار پھر سے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ ’’نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کسی بھی صورت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ سیکورٹی خدشات کی معلومات پر تبادلہ خیال نہیں کرے گا‘‘۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت اور کرکٹ بورڈ نے جس بھونڈے انداز میں اپنی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان ملتوی کیا ہے ،عالمی ذرائع میں اس ’’چھوٹی حرکت‘‘ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے ۔جبکہ نیوزی لینڈ کا مقامی میڈیا بھی اس معاملہ پر اپنے کرکٹ بورڈ اور حکومت کے معاندانہ رویے سے سخت شاکی اور نالاں دکھائی دیتا ہے۔ جس کا اندازہ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی اُس پریس کانفرنس سے بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔ جس میں مقامی صحافیوں کی جانب سے بار بار یہ سوال دہرایا گیا کہ آخرنیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کو ملنے والے سیکورٹی تھریٹ کو حساسیت اور نوعیت کیا تھی ۔ دراصل ہرشخص نیوزی لینڈ حکومت کے اس خود ساختہ ،گھڑے گئے جواز کو ماننے سے یکسر انکاری ہے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کو ملنے والا سیکورٹی الرٹ اتنا حساس، خفیہ اور نازک بھی ہوسکتاہے کہ اسے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ شیئر کرنا تو دور کی بات ہے۔ اس کے بارے میں حکومت ِ پاکستان کو بھی آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔ اَب دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں کہ یا تو نیوزی لینڈ کی حکومت کو اپنے ملک کی ’’جنٹل مین کرکٹ ‘‘کی ساکھ او رمستقبل کی کوئی پرواہ نہیں ہے یاپھر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈرا آرڈرن پرعالمی طاقتوں کا اس قدر سخت سفارتی دباؤ تھا کہ اگر وہ اپنی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان منسوخ نہیں کرتی تو اُن کی ملک کی سالمیت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔
پہلی بات تو اس لیے قرین قیاس نہیں لگتی کہ نیوزی لینڈ کی عوام اور کرکٹر ز جنون کی حد تک کرکٹ کے کھیل سے محبت کرتے ہیں ۔اس لیے وہ مبہم اور نادیدہ سیکورٹی خطرات کی بنیاد پر جاری دورہ پاکستان ملتوی کرکے کبھی بھی اپنے ملک میں ’’جنٹل مین کرکٹ ‘‘ کا نام اور ساکھ خراب کرنا نہیں چاہیں گے۔ اَب یقینا دوسری وجہ فقط یہ ہی ہوسکتی ہے کہ بعض بڑے ممالک نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان منسوخ کرکے ،ریاست پاکستان کو کوئی گہرا ’’سفارتی سبق‘‘ سکھانا چاہتے ہوں۔ بہرکیف نیوزی لینڈ کے وزیراعظم جسینڈاآرڈرن نے جس غیر سفارتی انداز میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے ذاتی طور پر کروائی گئی یقین دہانی کو اہمیت دینا مناسب نہ سمجھا، اُس سے صاف اندازہ ہوتاہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت کو خصوصی طور پر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بطور آلہ کار استعمال کیا گیاہے۔جیسا کہ اس جانب پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف کسی حملے یا دہشت گرد کارروائی کے خطرے کی کوئی اطلاع یا تنبیہ موجود نہیں تھی اور اس دورے کا خاتمہ ’’ایک سازش‘‘ کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ بعض طاقت ور ممالک پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں اور اس مذموم حرکت کا مقصد عالمی سطح پر پاکستان کی شبیہ کو خراب کرنا ہے‘‘۔
دوسری جانب نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کی اچانک منسوخی کے یک طرفہ فیصلے کی وجہ یہ سامنے آ ئی ہے کہ انہیں سیکیورٹی الرٹ دینے میں امریکا و برطانیا سمیت 5 ممالک شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کے اپنے میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 5 ملکی انٹیلی جنس اتحاد ،جسے عرف عام ’’فائیو آئی ‘‘ بھی کہا جاتاہے، نے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان ختم کرنے کے لیے اپنا بھرپور اثرورسوخ استعمال کیا تھا۔نیز اس رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ اور پاکستان کی حکومتوں اور کرکٹ بورڈز کے درمیان 12 گھنٹے گفتگو ہوئی اور جب دونوں حکومتوں اور کرکٹ بورڈز کی 12 گھنٹے کی گفتگو کے بعد بھی کو متفقہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا تو نیوزی لینڈ کی حکومت نے یک طرفہ طو رپر دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔
بعض باوثوق ذرائع تو یہ بھی دعوی کررہے ہیں کہ ،اس دورہ کی منسوخی کے لیے سب سے زیادہ کوشش برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس نے کی تھی ۔ دراصل جیسے ہی عالمی ذرائع ابلاغ پر یہ خبر نشر ہوئی کہ’’ ارجنٹائن کی حکومت نے پاکستان سے جے ایف تھنڈر 17 لڑاکا طیارے کی ایک بڑی تعداد خریدنے کے لیے حتمی معاہدہ پر دستخط کردیے ہیں‘‘۔ تو فوری طور پر برطانوی حکومت نے پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ۔یاد رہے کہ ارجنٹائن اور برطانیا ایک دوسرے کے دیرینہ حریف تصور کیے جاتے ہیں اور برطانیا سمجھتا ہے کہ پاکستان سے خریدے گئے جدید تریںجے ایف تھنڈر 17 جنگی طیارے مستقبل میں اُس کے خلاف ایک موثر جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو ں گے۔
اگر تو یہ بات درست ہے کہ برطانوی حکومت نے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان منسوخ کروانے کے لیے ’’فائیو آئی ‘‘ کو استعمال کیا ہے تو پھر آنے والے ایام میں ریاست پاکستان کو مزید بُری خبروں کے لیے بھی ابھی سے تیار ہوجانا چاہئے ۔مثلاً انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم بھی دورہ پاکستان سے مکمل طور پر دست بردار ہونے کا اعلان کرچکی ہے ۔جبکہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم بھی متوقع دورہ پاکستان سے کسی نہ کسی بہانے کنی کترانے کی کوشش کرنا چاہے گی۔ نیز برطانیا’’ فے ٹیف ‘‘ کے آئندہ ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا،جس میں اسے امریکا کی خاموش حمایت بھی دستیاب ہوگی۔ علاوہ ازیں برطانوی دارلحکومت، لندن میں بیٹھے ہوئے اپنے مہروں ، خاص طور پر میاں محمد نواز شریف اور بانی ایم کیو ایم لندن کو بھی پاکستان میں سیاسی و سماجی عدم استحکام کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ جس کی ایک جھلک نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم دورہ پاکستان کی منسوخی پر مریم نواز کی طنزیہ ٹوئٹ میںبھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
بہرحال ایک بات طے ہے کہ حالیہ واقعہ سے پاکستان کرکٹ کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور بلاشبہ پاکستانی میدانوں میں کرکٹ کی رونقیں بحال کرنے کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں پر برے طریقے سے پانی پھر گیا ہے۔ اچھی بات بس! یہ ہے کہ دنیائے کرکٹ کے ہر بڑے کھلاڑی اور ادارے نے پاکستانی کرکٹ کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پر کھل کر مذمت کی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کا اس بارے میںویسا ہی سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ جس کی کہ رمیز راجہ سے توقع کی جاسکتی تھی ۔ ان کے کیے گئے ٹویٹ کے آخری چند الفاظ نے تو کرکٹ کے ’’بگ تھری‘‘ بالخصوص نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے تن بدن میں گویا آگ لگادی ہے۔رمیزراجہ نے نیوزی لینڈ کو مخاطب کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’’نیوزی لینڈ کس دنیا میں رہ رہا ہے؟ نیوزی لینڈ ہمیں اب آئی سی سی میں سنے گا‘‘۔رمیز راجہ کا یہ تلخ جملہ ’’کرکٹ وار فیئر ‘‘ کی تاریخ میں مدتوںیاد رکھا جائے گا۔ لیکن یہاں پاکستانی کرکٹ شائقین رمیز راجہ سے ٹوئٹر پر شعلہ بیانی کے علاوہ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس معاملہ پر نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے کٹہرے میں مجرموں کی مانند کھڑا کرے اور اگر ممکن ہوسکے تو آئی سی سی کو قائل کیا جائے کہ کرکٹ سیریز کی یک طرفہ منسوخی سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہونے والے مالی نقصان کی تلافی کرنے کے لیے نیوزی لینڈ کرکٹ پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے ،تاکہ آئندہ کسی بھی ملک کی حکومت کو کھیل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی جرات نہ ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔