... loading ...
ہرامریکی صدر اقتدار سنبھالنے کے بعد ایسے دوست ممالک کے سربراہان سے رابطہ کرتا ہے جن سے واشنگٹن کا مفاد وابستہ ہو جوبائیڈن نے بھی بطور صدر کئی ملکوں کے سربراہوں سے رابطہ کیا اور مستقبل کی پالیسیوں کے حوالے سے اعتماد میں لیا مگر پاکستان جسے نان نیٹو اتحادی کا درجہ حاصل ہے کونظر انداز کر رکھا ہے اور ایسا دانستہ طور پر کیا گیا ہے اِس کی وجہ محض طالبان ہیں؟نہیں ایک اور وجہ اسلحہ کی تجارت میں حصہ دار بننا ہے مگر ایک طرف امریکی صدر پاکستانی قیادت سے اگر بات کرنے سے گریزاں ہیںتو روس جیسا ملک جس کی پاکستان نے سرد جنگ کے دوران ڈٹ کر مخالفت کی کے صدر ولادیمرپوٹن ایک ماہ میں دوبار عمران خان سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے افغان و دیگرعلاقائی مسائل پر مشاورت کر چکے ہیں یہ رابطہ گفتگو تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عمران خان اور پوٹن کی ملاقات بھی طے پاگئی ہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے کو دورے کی نہ صرف دعوت دی جا چکی ہے بلکہ دعوت قبول ہونے کے بعد دوروں کی تاریخیں طے کرنے کے لیے سفارتی سطح پر روابط جاری ہیں کیاامریکا کے نزدیک پاکستان غیر اہم ہو گیا ہے یا اسلحہ کی تجارت میں حصہ دار بننا ناپسند اورچین و روس سے تعلقات میں اضافہ ہے؟اِس کا جواب ہاں کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا روس اور امریکا کے خراب تعلقات کا چین کو فائدہ یہ ہوا ہے کہ معاشی اور دفاعی دونوں حوالے سے دوستوں کے انتخاب میں سہولت ملی ہے مگر سرد جنگ کا نیامیدان ایشیا میں لگنے کا امکان بڑھ گیا ہے ۔
امریکی قیادت نے افغانستان سے انخلا اسی بنا پر سرعت سے کیا ہے کہ دیگر سرگرمیوں میں اُلجھنے کی بجائے چین کے بڑھتے عالمی کردار کو محدود کرنے پر توجہ دے سکے اسی بناپر برطانیا بھارت ،آسٹریلیا ،جاپان اور تائیوان کو ساتھ ملا کرنیا معاشی اور دفاعی اتحاد بنایا جارہا ہے امریکی مدد سے تائیوان کا دفاع پراضافی چودہ کھرب روپے خرچ کرنے جبکہ جاپان کابھی دفاعی اخرجات بڑھانے کا پروگرام ہے مگر فرانس اور نیوزی لینڈ کی طر ف سے نئے اتحاد کی سخت مخالفت ہورہی ہے انڈویسفک ڈیفنس پارٹنر شپ کوفرانس نے پیٹھ میں چھراگھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ نئے معاہدے کے بعد آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ ڈیزل الیکٹرک آبدوزیں بنانے کا معاہدہ ختم کر دیا ہے اور نیوزی لینڈ نے جوہری آبدوزیں اپنے پانی سے گزرنے سے روکنے کا عندیہ دیا ہے جس سے عالمی سطح پرکشیدگی کاجنم لینا خارج ازامکان نہیں امریکا آسٹریلیا کو جو ہری آبدوز ٹیکنالوجی دے کر مضبوط بنائے گااسی طرح مودی اور جو بائیڈن کی ملاقات چوبیس ستمبر کو طے ہے تاکہ بھارت کو دفاعی حوالے سے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارکیا جا سکے جس سے خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہو نے کا خطرہ ہے۔
کواڈ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ گروپ کے رکن ممالک امریکا ،جاپان،آسٹریلیا اور بھارت اگلے ہفتے واشنگٹن میں براہ راست بھی ملاقات کرنے والے ہیں امریکا کو چین پر سبقت حاصل ہے کہ اُسے نیٹو کی صورت میں مغربی ممالک کی نہ صرف تائیدحاصل ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی طاقت سے ہراس کا شکار مسلم ممالک بھی مجبوراََ ہی سہی اُس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیںمگر پاکستان ،ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک چین و امریکا چوائس کی صورت میں چین کوذیادہ قابلِ بھروسہ تصور کرتے ہیں وجہ وعدہ خلافیوں کے ساتھ اکثر ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندیاں لگاکر دوست ممالک پر دبائو ڈالنا اور کڑی شرائط منوانا ہیںلیکن اب ہتھیاروں کے حصول کے مواقع بڑھنے سے پابندیاں غیر موثررہتی ہیں چینی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے اور کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کے ساتھ یورپی یونین کو بھی چینی مصنوعات کی خریداری کم کرنے پر آمادہ کیا جارہا ہے مگر اٹلی جیسے معاشی دبائو کا شکار ممالک امریکی ہدایات پر عملدرآمد کی بجائے الگ روش پر گامزن ہیں جبکہ نیٹو کا رُکن ترکی بھی امریکی دھمکیوں کے باوجود روس سے جدید ترین دفاعی نظام خرید چکا ہے فرانس نے دفاعی مصنوعات متاثر ہونے کی وجہ سے سخت رِد عمل دیتے ہوئے امریکا کے ساتھ کئی سفارتی تقریبات منسوخ کر دی ہیں جس کی بنا پر یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بھارت جیسا تزویراتی اتحادی حاصل ہونے کے باوجود امریکی دوست کم ہو رہے ہیں جس سے ایشیا میں لگنے والا میدان امریکا کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا۔
پاکستان کی امریکا کے ساتھ تجارت کا حجم تین ارب ڈالر سے زائد ہے علاوہ ازیں اسلحہ بھی زیادہ تر امریکی ساختہ ہے اِس لیے یہ سمجھنا کہ پاک امریکا روابط میں دَر آنے والی سردمہری کا نقصان صرف امریکا کو ہوگا درست نہیں بلکہ پاکستان بھی اپنے تجارتی سامان کے بڑے خریدار سے محروم ہوجائے گا اور یہ اچانک محرومی کمزور معیشت پر مزید دبائو بڑھا دے گی پاکستانی کرنسی گزشتہ کئی ہفتوں سے ڈالر کے مقابلے میں قدر کھو رہی ہے اور اسٹیٹ بینک کی مداخلت کے باوجود کمی نہیں آئی دونوں ہی کئی عشروں سے ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اورگفت و شنید سے بہتر حل نکال سکتے ہیں مگر پاکستان کا چین کی طرف جھکائو امریکا کے نزدیک ناقابلِ معافی جرم ہے اسی لیے بگاڑ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے دوستوں کو ہانکنے کی بجائے برابری اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات اُستوار کرنے سے ہی بہتری آ سکتی ہے اگر واحد سُپر طاقت کے زعم سے نکلانہیں جاتاتو کمزور معیشتوں والے ممالک چینی سرمایہ کاری کی طرف لپکتے رہیں گے نتیجہ ایشیا ئی میدان میں چینی پلڑابھاری ہو سکتا ہے ۔
سفارتی حلقے کئی ماہ سے خدشات کا اظہار کررہے تھے کہ کئی ممالک کے روابط میں سردمہری وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے اب تونئے اتحاد کے خدو خال واضح ہونے لگے ہیں نئے تشکیل پاتے اتحاد میں پاکستان کا کردار چین کے لیے اہم جبکہ امریکا کے لیے دردِ ہو سکتا ہے پاک چین روابط سے امریکا جھلایاہواہے ایوانِ نمائندگان کی اُمورخارجہ کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی تصدیق کی ہے کہ امریکا آنے والے ہفتوں میں پاکستان سے تعلقات کا جائزہ لے گا انھوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں جن میں سے بعض امریکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے مثلاََ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بھرپور تعاون کیا مگر طالبان کے ارکان بشمول حقانی نیٹ ورک کے افراد کو پناہ بھی دی۔ جس سے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ایشیا کے میدان میں پاکستان اب امریکا کا حریف ہو سکتا ہے امریکا کے لیے پاکستانی عسکری اور سویلین قیادت سے الگ الگ اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں رہاکیونکہ سویلین اور عسکری قیادت کی سوچ امریکا کے حوالے سے اب ایک ہے اِس لیے امریکی قیادت ماضی کی طرح پاکستان کواستعمال نہیں کر سکتی بلکہ قوی امکان ہے کہ دبائو بڑھنے کی صورت میں پاکستان ذیادہ تیزی سے چین کی طرف ہو جائے اِس طرح پاک امریکا روابط میں دَر آنے والی سرد مہری تلخی میں ڈھل کر پاکستان کو مستقل چینی کیمپ کا مستقل حصہ بنادے گی روس سے بہتر ہوتے تعلقات سے واضح اِشارے ملتے ہیں کہ پاکستان کو روابط میں بڑھتی سرد مہری اور ایشیا کے میدان کا مکمل ادراک ہے اسی بنا پر عمران خان کا لہجہ تبدیل اور امریکی بھی تلخ ہونے لگے ہیں مگر ایشیا کو میدان چُن کا چینی رسوخ کم نہیں ہو سکتا کیونکہ چین دفاع کے ساتھ معاشی وتجارتی روابط میں اضافہ کر رہا ہے اسی بنا پر عالمی منظر نامے میں کئی اہم ممالک روس ،فرانس ،اٹلی ،ترکی،نیوزی لینڈ،سعودی عرب اُس کے ہمنوا ہیں مگر ایشیا میں لگنے والا میدان نسل انسانی کی بقا کے لیے سخت مُضر ہو سکتا ہے جس سے غربت و بے روزگاری کم ہونے کی بجائے وسائل ہتھیاروں کے لیے وقف ہو کر رہ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔