وجود

... loading ...

وجود

قانون کا ڈنڈا

بدھ 22 ستمبر 2021 قانون کا ڈنڈا

دوستو،جنوبی کوریا رقبے میں ہمارے پنجاب سے آدھا ہے آبادی پنجاب کی آدھی سے بھی کم ہے۔ افرادی قوت زیرو ہے۔ کوریا میں تیل گیس لوہا سمیت کسی قسم کی معدنیات پیدا نہیں ہوتیں حتی کہ اپنی ضرورت کی سبزی اور پھل بھی باہر سے منگواتاہے اور انتظام ایسا اعلی ہے کہ تیل گیس بجلی پھل سبزی آج تک کبھی ختم ہوئے ہیں نہ کبھی کم ہوئے ہیں نہ کبھی اچانک مہنگے ہوئے ہیں۔ ہر چیز ہر وقت عام دستیاب اور امیر غریب کی پہنچ میں ہوتی ہے۔ کسی قسم کی معدنیات نہ ہونے اور افرادی قوت بھی کم ہونے کے باوجود کوریا دنیا کے دس امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ کوریا کی بیس بڑی پرائیویٹ کمپنیاں اتنی امیر ہیں کہ ہر ایک کا سالانہ بجٹ پاکستان کے مجموعی بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔کوریا میں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کی روزانہ اجرت پاکستانی 15000 روپے کے برابر بنتی ہے۔کورین مزدور ایک دن کی کمائی سے 80 لیٹر پٹرول، یا 55 لیٹر دودھ یا 25 کلو چکن یا 10 کلو مٹن یا 20 کلو سیب خرید سکتاہے۔ گھر میں دن رات AC چلائیں تو بجلی کا بل 7000 روپے سے زیادہ نہیں آتا۔ 2 دن کی کمائی سے ایک فیملی پورے ماہ کی خوراک خریدسکتی ہے۔ ایک ماہ کی کمائی سے چمچ پلیٹ سے لیکر فریج ٹی وی اسے سی تک گھر کی ہر چیز خرید سکتا ہے۔ مزدور پندرہ دن کی کمائی سے کار خرید سکتا ہے۔ کوریا نے ایک بار چند ارب لگا کر سب ادارے کمپیوٹر سے منسلک کر دیئے تھے اب پچھلے تیس سال سے کبھی مردم شماری نہیں ہوئی مگر سالانہ اور ماہانہ کتنی شادیاں اور طلاقیں ہوئیں، کتنے فوت اور کتنے بچے پیدا ہوئے، کتنے BA، MA پاس ہوئے، کتنے بچے اسکول نہیں جارہے یہ سب ہر شہر، ضلع، یونین کونسل تک کا ریکارڈ ہوتا ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ انسان نے جب بھی قانون فطرت سے بغاوت کی ہے اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا ہے نظام کائنات جس ایک نظرے پہ چل رہا ہے وہ ہے‘‘سزا اور جزا’’۔۔دنیا کا کوئی بھی مذہب دیکھ لیں اس میں واضح طور پر سزا اور جزا کا نظریہ موجود ہے۔ یہ سزا اور جزا کا ہی نظریہ ہے جس کے تحت انسان مذہب کی طرف مائل ہوتا ہے اچھے کام اور دوسروں سے بھلائی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور برے کام اور برائی سے اجتناب کی کوشش کرتا ہے۔ایک لمحے کے لیے آپ سوچیں کہ اگر مذہب میں سزا اور جزا کا نظریہ نہ ہوتا تو اس دنیا کا منظر کیا ہوتا؟ حتیٰ کہ وہ لوگ جو کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتے سزا اور جزا کے نظریے پر وہ بھی یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ سزا اور جزا کا نظریہ حقیقت میں اصول کائنات ہے اسی نظریے پہ ہی معاشرے اور ریاستیں قائم ہیں۔
بات ہورہی تھی،سزا اور جزا کی۔۔ہمارے ملک میں اس نام کی کوئی شئے ہمارے خیال میں موجود ہی نہیں۔ یہاں جنگل کا قانون رائج ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔۔بابا جی کہتے ہیں۔۔ایسا شخص جو قانون کو سمجھتا ہو لیکن عمل نہ کرتا ہو، اسے ’’’وکیل‘‘ کہتے ہیں۔۔حکومت عوام سے باربار کہتی ہے کہ ذمہ دار شہری بنیں۔۔ لیکن ہم توپانی پی کر بوتل کوبھر کر فریج میں رکھنے کے بعد کافی دیر تک اپنے آپ کو ملک کا ذمہ دار شہری سمجھتے رہتے ہیں۔۔آپ کے اردگرد بھی کوئی ایسا ذمہ دار شہری موجود ہو جو لوگوں کو کورونا سے بچنے کے نسخے بتاتا رہا ہو، ہمیں اس سے ملوادیں، ہمیں اس سے صرف ایک معصومانہ سوال پوچھنا ہے کہ کیا انہوں نے بھی کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی ہے؟؟۔۔حکومت سندھ کراچی میں تین سو روپے بلدیاتی ٹیکس بجلی کے بلوں میں لگانے کا فیصلہ کرچکی ہے جب کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ بجلی کے بلوں میں انکم ٹیکس بھی نافذ کردیا جائے، یعنی جتنے کی عوام بجلی استعمال نہیں کرتے اس سے دگنی،تگنی رقم تو مختلف اقسام کے ٹیکسوں میں دینے پڑجائیں گے۔۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔ ابا جی نے مجھے بجلی کا بل جمع کروانے کے لیے پیسے دیے، میں نے ان پیسوں سے لاٹری کا ٹکٹ خرید لیا۔گاڑی انعام میں رکھی گئی تھی۔جب گھر پہنج کر ابا جان کو صورتحال بتائی تو خوب مار پڑی، لیکن اگلے ہی دن صبح صبح جب سب سو کر اٹھے تو دروازے پر کھڑی گاڑی دیکھ کر سب کی چیخیں نکل گئیں۔سب سے زیادہ چیخیں میری بلند تھیں۔ کیوں کہ گاڑی کے الیکٹرک والوں کی تھی جو میٹر کاٹنے آئے تھے۔اباجی نے اس موقع پر مجھے ایک بار پھر خوب تسلی اور دل سے ’’چھترول ‘‘ سے نوازا۔۔
باباجی فرماتے ہیں۔۔کچھ رشتے داروں کو اپنے ذاتی معاملات سے ایسے دور رکھنا پڑتا ہے جیسے دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں۔۔آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں اور میڈیا میں ہمیشہ دو طرف کے لوگوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔مشرقی لوگ اور مغربی لوگ۔۔باباجی کاسوال یہ ہے کہ ۔۔کیا شمال اور جنوب میں کوئی نہیں رہتا۔؟؟باباجی باغ و بہار قسم کی شخصیت کے مالک ہیں، ان کے گھر والے اور حلقہ احباب میں شامل تمام ہی دوست ان کے کھانے کی بہت تعریف کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بہت اچھا پکاتے ہیں، بلکہ سب کہتے ہیں کہ ۔۔باباجی بہت ہی کھاتے ہیں۔ہم نے ایک بار باباجی سے پوچھ ہی لیا۔۔اتنا پیٹ نکالا ہوا ہے وزن کم کیوں نہیں کرتے؟باباجی جو کہ کرسی پر نیم دراز کیفیت میں براجمان تھے، لیٹے لیٹے بریانی کی پلیٹ میز سے کِھسکا کر پھیلی ہوئی توند پر رکھی اور مسکرا کر کہنے لگے۔۔تو پھر بریانی کی پلیٹ کہاں رکھا کروں گا؟؟باباجی کی ہی تازہ تحقیق سامنے آئی ہے، اپنی ریسرچ میں باباجی نے دعویٰ کیا ہے کہ ۔۔جسم کا سب سے غیر محفوظ حصہ ناک ہے۔۔!!کیونکہ یہ ذرا ذرا سی بات پر کٹ جاتی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ملک نہ تو معدنیات سے ترقی کرتے ہیں نہ افرادی قوت سے کرتے ہیں نہ باتیں کرنے اور شور مچانے سے ترقی ہوتی ہے۔ ترقی صرف ایماندار اور مخلص قیادت سے بھی نہیں ہوتی۔ انصاف، سخت قانون اور اس پر سختی سے عمل نظر آنا چاہئیے۔ جس ملک میں قانون کا ڈنڈا نہیں چلتا وہاں کبھی ترقی کا پہیہ نہیں چلتا۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر