... loading ...
سڈپرکنز
قدیم گرہن بتاتے ہیں کہ زمین کی محوری حرکت کم ہو رہی ہے۔ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اجرام فلکی گھڑی کی طرح حرکت کرتے ہیں۔ ماہرین فلکیات آسانی سے گرہن کی پیش گوئی کر سکتے ہیں اور وقت سے پہلے یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ سکینڈ کے کس حصے میں چاند کسی دور دراز کے ستارے کے سامنے سے گزرے گا۔ وہ وقت کی سوئیاں موڑ سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ ماضی میں کس وقت اور کہاں گرہن لگا تھا۔ مگر سیکڑوں گرہنوں جن میں بعض 8ویں صدی قبل مسیح کے ہیں، کا نیا تاریخی سروے بتاتا ہے کہ سائنسدانوں کی سوچ کے برعکس اس قسم کی پیش گوئی ممکن نہیں؛ کیونکہ زمین کی محوری حرکت کی رفتار میں معمولی کمی آ چکی ہے۔ علاوہ ازیں سروے میں محوری حرکت کی شرح میں انتہائی مختصر قسم کی رکاوٹوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ معمول کی ماڈل میں ہمیشہ نظرانداز ہوئیں۔ رائل آبزویٹری لندن کے ریٹائرڈ ماہر فلکیات لیزلی مورسن کے مطابق ’’720 قبل مسیح سے اب تک تقریباً دس لاکھ دن بنتے ہیں۔ اتنے طویل وقت میں زمین کی محوری حرکت کی رفتار میں بتدریج کمی واضح ہو جاتی ہے۔
اپنی ریسرچ کے دوران مورسن اور ان کے ساتھیوں نے قدیم یونان، چین، مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں گرہنوں کی مقام اور وقت کا جائزہ لیا۔ ان کے فہرست میں شامل گرہنوں میں 720قبل مسیح کا گرہن بھی شامل ہے جس کا مشاہدہ قدیم بابل کے ماہرین فلکیات نے کیا تھا۔ آج کے ماہرین فلکیات اس گرہن کے مقام کا اندازہ لگائیں تو قدیم بابل (موجودہ عراق) سے بہت دور مغربی بحر اوقیانوس کو اس گرہن کا مقام قرار دیں گے۔ اس فرق کا مطلب ہے کہ زمین کی محوری حرکت کی رفتار 8ویں صدی قبل مسیح سے بتدریج کم ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر گزشتہ 2740 سال کے دوران زمین کی محوری گردش میں چھ گھنٹے کا فرق پڑا ہے۔ رائل سوسائٹی کی ٹیم کے مطابق ایک صدی کے دوران محوری حرکت کے 24 گھنٹوں کا دورانیہ 1.78ملی سکینڈز تک بڑھا ہے۔ سمندری لہروں اور براعظموں کا باہمی تعلق محوری حرکت کے کم ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ خشکی کے ان بڑے ٹکڑوں کے سمندروں سے ٹکرانے سے زمین کی محوری حرکت پر فرق پڑتا ہے۔ وہ ماڈل جن کی بنیاد یہ کیفیت ہے، سے لگتا ہے کہ ہر صدی میں زمین کی محوری حرکت 2.3ملی سکینڈز فی دن کے حساب سے کم ہونی چاہیے۔
محققین نے کچھ دیگر عوامل کی بھی نشاندہی کی ہے، جن میں ایک زمین کی بالائی تہہ جو برفانی دور
میں برف کی بھاری تہوں کے بوجھ تلے دبی رہی، برف پگھلنے کے بعد اس کی بتدریج اصل شکل میں بحالی ہے۔ اگر زمین کی بالائی تہہ بلند عرض بلد تک پھول رہی ہے، تب نچلی تہہ میں زمین سکڑ رہی ہے۔ موریسن کے مطابق جیسے تیزی سے گھومنے کے لیے برف پر سکیٹنگ کرنیوالا اپنے بازوں اندر کی جانب لاتا ہے، اسی طرح زمین کی کمیت میں اضافہ اس کی محوری حرکت کی رفتار میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس طویل المدت رجحان کے علاوہ محوری حرکت کی شرح میں معمولی تغیرات ایک عشرے سے دوسرے عشرے کے درمیان واقع ہوتے ہیں، جو کہ زمین کی بیرونی مائع تہہ اور ٹھوس سطح کے زور حرکت کی وجہ سے واقع ہوتے ہیں۔ کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی کے ماہر فلکیات میتھیوڈومبری کہتے ہیں کہ مقدار رفتار کے تغیرات کو پوری طرح سمجھا نہیں گیا ہے۔ اس کے باوجود ٹیم کے انکشافات حیرت انگیز ثبوت ہیں جو کہ زمین کی گہرائی کے اندر زور حرکت کی سمت اور مقدار کا تعین کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ کیلیفورنیا کے سکریپس انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی کے جیو فزیسٹ ڈنکن اگنیو کہتے ہیں کہ نیا ڈیٹا زمین کی اوپری تہہ میں مائع لوہے کی حرکت کا بہتر ماڈل بنانے میں معاون ہونا چاہیے، جو کہ زمین کا مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ یہ معمولی تبدیلیاں سائنسدانوں کے لیے جیولوجک ٹائم سکیل پر غور کے لیے اہم ہیں، گرہن کی پیش گوئیاں ابھی تک اہمیت رکھتی ہیں۔ اگلے مکمل سورج گرہن میں امریکا کے گرد پھیلی تنگ پٹی پر مکمل تاریکی پھیل جائے گی۔
کیا چین کا تین گھاٹی ڈیم زمین کی محوری حرکت سست کر نے والا ہے؟خیال ہے کہ چین میں تین گھاٹی ڈیم کی جھیل بھرنے سے زمین کی محوری حرکت تبدیل ہو گئی ہے۔ ثبوت چین کے صوبے ہوبئی کے دریائے یانگتسی کا تین گھاٹی ڈیم دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈروالیکٹرک پاور اسٹیشن ہے جس کی استعداد مکمل ہونے کے بعد 22,500 میگاواٹ ہو گی۔ جھیل میں پانی کی سطح زیادہ سے زیادہ 175میٹر بلند ہو گی، جھیل کی لمبائی تقریباً 660کلو میٹر جبکہ اوسط چوڑائی 1.12کلو میٹر ہے۔ اس جھیل کا کل رقبہ 1045 مربع کلو میٹر ہے، اس میں 39.3 مکعب کلومیٹر پانی ذخیر ہ ہو گا۔ اس پانی کا وزن 42ارب ٹن سے زائد ہو گا۔ اس سائز کا دباؤ ایک فطری عمل جسے ’’جمودی معیار اثر‘‘ کہا جاتا ہے، کے باعث زمینی محوری حرکت کو متاثر کر سکتا ہے، یہ جمود سخت محوری جسم کے اپنی محوری حرکت سے تعلق کی وجہ سے ہے۔ کسی جسم کے مقرر محور کا جمودی معیار اثر بتاتا ہے کہ محور کی زاویہ دار حرکت کو تبدیل کرنا کتنا مشکل ہے۔ گھماؤ کے محور اپنی کمیت سے جتنا دور ہو گا، اسی قدر سستی سے موڑ کاٹے گا۔ اس قسم کے مثالیں ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سکیٹنگ کرنیوالا خود کو تیزی سے گھمانے کے لیے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لیتا ہے جس سے جمودی معیار اثر کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح غوطہ خور تیزی سے قلابازی کھانے کے لیے اپنے جسم کو سکیڑ لیتا ہے۔
سمندر کی سطح سے 175میٹر بلند پانی کا وزن 42ارب ٹن بڑھنے سے زمین کا جمودی معیار اثر بڑھ جائے گا، جس سے محوری حرکت سست ہو جائے گی۔ تاہم یہ اثر انتہائی معمولی ہو گا۔ ناسا کے سائنسدانوں کے اعداد و شمار کے مطابق اس سے دن کی طوالت میں صرف 0.06 مائیکرو سکینڈز کا اضافہ ہو گا، زمین درمیان سے زیادہ گول اور اوپر سے چپٹی ہو جائے گی، جس سے قطب کا مقام تقریباً 2 سینٹی میٹر تبدیل ہو جائے گا۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ محور کے گھماؤ کی تناسب سے زمین کی اوپر ی سطح پر مادے کی مقدار میں تبدیلی جمودی معیار اثر بدل دے گی؛ تاہم یہ تبدیلیاں اتنی کم ہیں کہ ناپنا ممکن نہیں۔ البتہ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہاورڈ سٹڈی کے مطابق سطح سمندر میں اضافہ زمین کی محوری حرکت سست کریگا: تحقیق کے مطابق دنیا میں سمندروں میں پانی کی سطح میں اضافہ زمین کی محوری حرکت سست کر رہا ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے محقق جیری مٹروویکا کی ٹیم نے اپنے نتائج ’’سائنس ایڈونسز‘‘ میں شائع کرائے جس میں 20ویں صدی میں سمندروں میں پانی کی سطح میں اضافے کے باعث زمین کی محوری حرکت میں تبدیلیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلی کی باعث برف کی تہوں کے پگھلنے سے سمندروں میں پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے۔ اس کی نتیجے میں زمین کی محوری حرکت میں تبدیلی کی پہلی مرتبہ سکریپس انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی کے والٹر مونک نے نوٹ کی تھی۔ مونک نے عظیم گلیشیرز کے پگھلنے اور زمین کی محوری گردش کی شرح میں تعلق کو کئی مرتبہ نوٹ کیا۔ مونک نے نوٹ کیا کہ زمین کی دونوں قطبین کے گلیشیرز پگھلنے سے زمین پر مادے کی مقدار نئے سرے سے تقسیم ہو جائے گی۔ عظیم گلیشیرز سے پگھلنے سے قطبین نے کل مادہ نکل کر زمین کے خط استوا کی جانب آ جائے گا، جس سے زمین کی محوری حرکت متاثر ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔