... loading ...
(مہمان کالم)
مشیل گولڈ برگ
مجھے یہ بات ہمیشہ یا درہے گی کہ نائن الیون حملے شام کے وقت ہوئے تھے۔اس دن میں شمالی بھارت کے ایک قصبے میں تھی کہ میں نے ٹی وی پر ٹوئن ٹاورز کو گرتے ہوئے دیکھا۔چونکہ میں وطن سے کوسوں دور تھی اس لیے نہیں جانتی کہ اس دن نیویارک اور واشنگٹن کے باسیوں کا خوف اور دہشت سے کیا حال تھا۔ان پر مزید حملوں کا خو ف طاری تھا۔یوں لگ رہا تھا کہ 1990ء کی دہائی کی ہولناک موویز حقیقت کا روپ دھار کر آگئی ہوں مگر مجھے پورا یقین ہے کہ ان تباہ کن لمحات کے دوران عوام کی اکثریت نے امریکا کے تحمل اور برداشت پربھرپور اعتماد محسوس کیا ہوگا۔ہاں القاعدہ نے ایک بہت بڑے ٹریڈ سنٹر کو گرا دیا تھا۔اس حملے نے القاعدہ کوہمارے لیے توقع سے کہیں بڑا خطرہ بنا دیا۔اکثر لوگوں نے سمجھا کہ جنگ عظیم دوم جیسی کوئی خوفناک تہذیبی جنگ شروع ہو گئی ہے۔بااثرشخصیات کی اکثریت نے شاید سرد جنگ کے بعد کی بیزاری کو اتار پھینکا تھا تاکہ قوم ایک مرتبہ پھر سے ایک نئے مقصد سے سرشار نظر آئے۔
مصنف کرسٹوفر ہچنز نے 2003ء میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا ’’ نیویارک کے ٹاورز کو گرتے ہوئے دیکھنا جبکہ جہازوں اور عمارتوں میں لوگ بھی موجود تھے‘ پہلے تومجھے بالکل نہ سمجھ ا?یا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔مجھے ا?پ کو یہ بتاتے ہوئے پریشانی ہو رہی ہے کہ مجھے ایک خوشگوار سااحساس ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب ہم یہ جنگ اس کے انجام تک لڑیں گے۔ سن لو! یہ جنگ صرف ہم جیتیں گے اور وہ یقینا ہاریں گے ‘‘۔مگر ہم یہ جنگ نہ جیت سکے۔ ہمارے دشمنون نے ہمارے ملک پر جو خطرہ مسلط کیا تھا‘ وہ کبھی اتنا حقیقی وجود نہیں رکھتا تھا۔اپنی سب سے بڑی فتح کے بعد القاعدہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے؛ تاہم نائن الیون حملوں نے امریکا کو جو نقصان پہنچا یا تھا وہ بہت سے قنوطیت پسندوں کی توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ان حملوں اور ہمارے جوابی ردعمل نے ہمارے زوال کی رفتار کو تیز کردیا اور آج ہماری حالت ایک زوال پذیر سپر پاور کی سی ہے۔امریکا نے اسلامی ممالک میں جمہوریت کا بیج بونے کے لیے جو جنگ شروع کی تھی اس نے انجامِ کار ہماری اپنی ہی جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ القاعدہ نے تو وہ کنواں کھودا ہی نہیں تھا جس میں ہم گر گئے۔ہم نے اپنے لیے یہ کنواں خود کھوداہے۔۔نائن الیون حملوں نے امریکا کوجتنا نقصان پہنچایا‘ یہ اتنا نہیں تھا جتنا وہ چاہتے تھے۔
نیو امیریکن انٹر نیشنل سکیورٹی پروگرام کی سینئر فیلو، نیلی لاہوڈ نے اسامہ بن لادن کی ان ہزاروں دستاویزات کا تجزیہ کیا ہے جو 2011ء میں آپریشن کے بعد ہمارے فوجیوں نے اپنے قبضے میں لی تھیں۔ اس نے حال ہی میں ’’فارن افیئرز‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یہ سب کچھ مبالغہ آمیز مفروضات،بدنظمی اور خود فریبی کے ایک سلسلے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لاہوڈ لکھتی ہیں ’’اسامہ بن لادن نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ان حملوں کے بعد امریکا جنگ شروع کردے گا۔اس کا خیال تھا کہ ایک بڑی جنگ مخالف تحریک شروع ہو جائے گی جو مطالبہ کرے گی کہ امریکا مسلم ممالک سے اپنی فوجیں باہر نکالے۔وہ امریکا سے شدید نفرت کرتا تھا مگر اسے ا س حوالے سے کچھ زیادہ سمجھ بوجھ نہیں تھی۔نائن الیون حملے القاعدہ کے لیے ایک عظیم فتح بن گئے تھے مگر جونہی طالبان کی حکومت ختم ہوئی‘ فوراً بعد القاعدہ بھی منتشر ہو گئی۔اس کی اعلیٰ قیادت ماری گئی تھی یا گرفتار ہو گئی ‘‘۔جو بچ بھی گئے تھے وہ جانیں بچانے کے لیے چھپتے پھرتے تھے اور ان کی کوئی بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت ملیامیٹ ہو چکی تھی۔2001ئ کے ا?خر میں امریکا بجا طور پر خود کو اس جنگ کا فاتح قرار دے سکتا تھا اور اس طرح ہزاروں زندگیاں، کھربوں ڈالرز اور ہمارا قومی وقار‘ سب کچھ بچ جاتا مگر ہم نہ صرف افغانستان میں موجود رہے بلکہ عراق پربھی حملہ کر دیاجہا ں ہم نے بدامنی کے ایسے بیج بوئے جس نے داعش جیسے خطرے ابھرنے کا موقع فراہم کر دیا۔داعش‘ جو القاعدہ ہی کی ذیلی شاخ تھی‘ ایک وقت ایسابھی آیا کہ القاعدہ چندھیانے لگی اور داعش نے دوسری تمام شدت پسند تنظیموں کو خوفزدہ کر دیا۔القاعدہ کے اصل لیڈر عمررسیدہ ہونے یا داعش کی زیادتیوں کی وجہ سے منظر عام سے غائب ہو گئے تھے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ القاعدہ ناکام ہو گئی۔آج القاعدہ نے خود کو پھرسے منظم کر لیا ہے جوآج سے دو عشرے قبل والی القاعدہ سے کہیں بڑی اور طاقتور بن چکی ہے۔ اور امریکا ستمبر 2021ء میں‘ پہلے سے کہیں خوفناک حالات سے دوچار نظر آتا ہے۔ 20 سال پہلے ہم سیدھے سادے اور غلطیوں کا ارتکاب کر رہے تھے مگر آج ہم تلخی اور شکوک میں مبتلا اور اپنے آئیڈیلز سے محروم ہیں۔
صدر جارج بش نے 2003ء میں کہا تھا کہ ’’وقت کی پکار ہے کہ ہم اپنی آزادی کے لیے آگے بڑھیں،یہ ہمارے وطن کی صدا ہے‘‘۔ مگر ہماری یہ جنونی قوم پرستی،نسلی تعصب اور بڑھتا ہوا خوف ایک ایسے دور میں ڈھل چکا ہے جس میں تشدد،خفیہ عقوبت خانے،معذور فوجی جوان اور مردہ سویلینز ہی نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے استعماری خوابوں نے ہماری آزادی کو ملکی اور عالمی سطح پر ذلت آمیز پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ صدر بش کی اپنی سیاسی جماعت جمہوریت کے خلاف صف آرا ہو چکی ہے۔ انسانی آزادی پر ایمان اور یقین اب اَنا پرستی کی آڑ میں ویکسین کی مخالفت کا روپ دھار چکا ہے۔نائن الیون کے بعد انتہا پسندوں سے زیادہ ہمارے اپنے دائیں بازو کے دہشت گردوں نے امریکی شہریوں کا خون بہایا ہے۔
نائن الیون حملوں کی بیسویں برسی عین اس وقت آئی ہے جب طالبان ایک بار پھر افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں اور امریکا کو اپنی شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے فوری خاتمے سے بہت سے افغانوں کی زندگی بچ گئی ہے۔ہمارے انٹیلی جنس تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ طالبان کی فتح یقینی اور ناگزیر ہے‘ یہ اچھا ہو ا کہ انہیں یہ فتح کابل کا طویل محاصر ہ کیے بغیر ہی مل گئی مگر امریکا کے انخلا اور طالبان کے افغانستان پرقبضے کے درمیان کوئی مناسب وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے امریکا کی اس طویل ترین جنگ کا اختتام انتہائی فضول اور بدترین انداز میں ہوا ہے۔ہم نے طالبان سے صر ف ذلت آمیز شکست ہی نہیں کھائی بلکہ ہم انہیں پہلے سے کہیں مضبوط اور طاقتور حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ہم نے اپنے دشمن کا قد کاٹھ اتنا اونچا کردیا ہے کہ اس پرہم یقینا سزا کے مستحق ہیں۔ہم تو سمجھتے تھے کہ ہمیں اس بات کا مکمل احساس ہے کہ ہم نے نائن الیون کو کیا کھویا تھا۔مگر ہم تو کچھ بھی نہیں جانتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔