... loading ...
غورکریں تو دل کو دھچکا سالگتاہے کہ قیامت خیز ترقی کے باوجود ہم کتنے تہی دست ہیں ہمارے دامن میں ماضی کی درخشاں روایات کے علاوہ کچھ بھی تونہیں ہم اپنے حال کے سامنے شرمندہ شرمندہ ہیں ،مستقبل بھی خدا نہ کرے روحانی لحاظ سے بانجھ نہ ہو جائے ہرچیزپر مادیت غالب آجائے تو معاشرے کا یہی حال ہوتاہے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ؐچچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ احاطہ میں تھا سال ہاسال سے مکان کی یہی ترتیب تھی حضورپاک ﷺ کے دور ہی سے اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا جب بھی بارش ہوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے جس سے ان کے کپڑے بھیگ جاتے لیکن حد ِ ادب کے مارے کوئی گلہ شکوہ ہونٹوںپر نہ لاتا ۔ سردی کے موسم میں دوسرے خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر ِ فاروق رضی اللہ عنہ نماز ادا کرنے کے لیے مسجدنبوی ﷺ آئے بارش شروع ہوگئی پرنالے سے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو کچھ سمجھے سوچے بغیر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میںپرنالے کو اکھاڑ پھینکا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ گھرواپس آئے دیکھا ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ہے
انہوں نے کرخت لہجے میں پوچھا یہ کس کا کام ہے ؟
گھروالوںنے جواب دیا پرنالہ ا میر المومنین کے حکم سے پرنالہ اتاردیا گیاہے جن کا کہناتھا اس سے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے ہیں۔یہ سن کرحضورپاک ﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ وقتی طورپرتوخاموش ہوگئے لیکن انہوںنے قاضی کی عدالت میں خلیفہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ان دنوں قاضی القضاء (چیف جسٹس) کا عہدہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا جن کے انصاف اور عدل کاچرچا دور دور مشہورتھا انہوںنے عمر ِ فاروق رضی اللہ عنہ کوعدالت حاضرہونے کا حکم دیدیا مقررہ وقت پرجب امیر المومنین قاضی القضاء ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے تو وہ اس دوران لوگوں کے مقدمات سن رہے تھے ۔قاضی صاحب کی ہدایت کے مطابق عدالتی اہلکار نے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو کہا آپ اپنی باری پرپیش ہوں۔ کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے ابھی انہوں نے تو بات کرنے کاارادہ ہی کیا تھا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھاکر بات کرنے روک دیا اوربڑی متانت سے بھاری لہجے میں کہا
’’بات کرنے کا پہلا حق مدعی کا ہوتاہے کہ وہ اپنا دعویٰ پیش کرے پھرقاضی نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اپنا مدعابیان کرنے کو کہا
مدعی نے بتایا میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی ﷺکی طرف تھا، زمانہ نبوی کے بعد خلیفہ ٔ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی وہ اسی پوزیشن میںیہی رہا لیکن اب عمر ِ فاروقؓ ؓنے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ہے جو انصاف کے منافی ہے ۔
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے گہری نظروں سے فریقین کو دیکھا اورکہا ہمارے پیش ِ نظر شخصیت نہیں آپ بے فکر رہیں بخدا آپ کو انصاف ملے گا۔
قاضی نے کٹہرے میں کھڑے خلیفہ ٔدوئم سیدنا عمر ِ فاروق ؓ سے پوچھا کیا یہ سچ ہے ؟ اگرایسا ہی ہے توآپ نے ان کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارپھینکا؟
بائیس لاکھ مربع میل کے حاکم نے قاضی کے روبرو پیشانی پرکوئی شکن لائے بغیرگہری سانس لیتے ہوئے کہا سیدنا عباسؓ کے مکان کے پرناے کا رخ مسجد نبوی ﷺ کی طرف تھا جب بارش ہوتی ہے پرنالے سے پانی بہتا ہے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ہیں جس سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی اس لیے میں نے اسے اتار دیا میرے پیش ِ نظرصرف نمازیوںکی فلاح مقصود تھی یہ میری انا کا معاملہ ہے نہ کوئی عداوت ۔ مجھے یہی مناس لگا کہ نمازی بارش کے پانی سے محفوظ رہ سکیں۔
قاضی القضاء ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس ؓ کی طرف دیکھ کرکہا تمہارے دعوے کا کوئی گواہ بھی ہے کہ یہ پرنالہ عہد ِ نبوی سے یہاں نصب ہے؟
حضورپاک ﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اثبات میں سرہلایا اور کہا میں اپنے دعوے کی صداقت میں کچھ دیربعد گواہ پیش کرسکتاہوں یہ سن کرقاضی نے کچھ دیرکے لیے عدالتی کاروائی مؤخرکردی کچھ ہی دیربعد سیدنا عباسؓ جلدی سے باہر گئے اور کچھ انصار کو لے کر آئے انہوں نے گواہی دی کہ سیدنا عباسؓ سچ کہہ رہے ہیں پھر انہوں نے ماضی کو کریدتے ہوئے بتایا جس جگہ میرا مکان ہے یہاں رسول پاک ﷺ نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ نے کہا چچا میرے کندھے پر کھڑے ہو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں میں نے ایساکرنے سے انکار کیا مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نے ان کے مبارک کندھے پر کھڑا ہو کر یہاں پرنالہ نصب کیا یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگوایا تھا۔
یہ سنتے ہی سیدنا عمر ِفاروقؓ کی چیخ نکل گئی جیسے ان کے ہوش اڑ گئے ہوں اوروہ زارو قطار رونے لگے، آنسوؤں کی ساون بھادوں کے دوران انہیں پیارے نبی ﷺ کا سراپا یاد آ نے لگا تو ان کی ہچکی بندھ گئی ،عہدِ نبوی کا منظر اور اللہ کے آخری نبی ﷺ قربت کی یادیں نگاہوںمیں گھوم گھوم گئیں ۔انہوں آگے بڑھ کر سیدنا عباسؓ کا بازو تھام لیا اور کہا بخدا مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک ﷺ نے خود لگوایاتھا عمرکی اتنی کیا اوقات کہ وہ نبی پاک کے حکم کی سرتاپی کرسکے آپ ابھی میرے ساتھ آپ چلیے جیسے رسول پاک ﷺ نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ہی آپ لگائیں۔ پھرچشم کائنات نے ایک عجب منظر دیکھا! 22لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ہے، جس کا نام سن کر قیصر و کسری کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا ان کے دونوں ہاتھ مکان کی دیوار پرہیں جس کے ساتھ وہ ٹک کر کھڑا ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے برسوں پہلے رسول پاک ﷺ کھڑے ہوئے تھے، سیدنا عباسؓ امیر المومنین کے اصرارپران کے کندھوں پر کھڑے ہوگئے اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا یعنی ایک سنت زندہ ہوگئی پرنالہ دوبارہ نصب ہوگیا توخلیفہ ٔدوئم نے بھیگی آنکھوں سے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کوکہا جو مجھ سے فروگذاشت ہوگئی ہے معاف کردیں للہ در گذر کریں یہ سن کر نبی پاک ﷺ کے چچا مسکرائے اور انہیں گلے لگا لیا کچھ دنوں بعدسیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا (مسند ‘ الامام احمد بن حنبل ، 1 / 210، الحدیث رقم : 1790 سے مستعار)