... loading ...
ہمیشہ جمہوری اور پارلیمانی نظام میں انتخابات چاہے وہ کسی بھی نوعیت یا چھوٹے ،بڑے درجے کے ہوں، عوامی رائے کو جانچنے اور پرکھنے کا اہم ترین پیمانہ سمجھے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر اگر ضمنی یا بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک ایسے نازک وقت میں ہورہا ہو ،جب قومی انتخابات کی منزل صر ف سال یا ڈیڑھ سال کی دوری پر صاف دکھائی دے رہی ہو تو پھر انتخابات کے اختتام پر حاصل ہونے والے نتائج کی اہمیت اور بھی زیادہ دو چند ہوجاتی ہے۔ حالیہ دنوں ملک بھر میں کنٹونمنٹ اداروں میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ بظاہر کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج کو اگلے قومی انتخابات کی مکمل اور واضح ’’سیاسی تصویر ‘‘ تو نہیں کہا جاسکتالیکن بہرکیف ان انتخابات کے نتائج میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی ایک دھندلی سی جھلک تو ضرور دیکھی ہی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ کنٹونمنٹ اداروں کا حلقہ انتخاب انتہائی محدود سا اور ایک خاص قسم کے طبقہ پر مشتمل ہوتاہے۔ شاید اسی لیے بعض سیاسی تجزیہ کار کنٹونمنٹ اداروں میں ہونے والے انتخابات کو بلدیاتی انتخابات کا نقطہ آغاز بھی قرار دیتے ہیں اور سچ بھی یہ ہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی کنٹونمنٹ اداروں میں جماعتی یا غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے ہیں تو اس کے کچھ عرصہ بعد ہی ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا غلغلہ بھی ضرور مچا ہے۔
اگر یہ ہی انتخابی تسلسل اس بار بھی برقرار رہتا ہے تو پھر یقینا چند ماہ بعد ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا میلہ سجنے کو پوری طرح سے تیار ہوگا۔ بادی النظر میں کنٹونمنٹ اداروں کے حالیہ نتائج میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو معمولی برتری حاصل رہی ۔لیکن یہ ہی برتری اُس وقت انتہائی غیر معمولی اور فیصلہ کن ہوجاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ کنٹونمنٹ انتخابات میں کثیر تعداد میں جیتنے والے آزاد اُمیدواروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہی ہے۔خاص طور پر صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ پنجاب میں آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں آزاد اُمیدواروں کا ’’سیاسی مستقبل ‘‘ سب سے زیادہ روشن ہوگا۔ لیکن دوسری جانب صوبہ سندھ میں آزاد اُمیدوار اپنا خاطر خواہ رنگ جمانے میں کامیاب نہ ہوسکے اور سندھ کی کم و بیش تمام ہی سیاسی جماعتیں کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج پر اپنی اپنی گہری چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہیں۔
یا د رہے کہ سندھ میں کنٹونمنٹ بورڈ کے تمام 53 وارڈزکے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے 14،14 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ ایم کیو ایم 10، آزاد 7، جماعت اسلامی 5 اور (ن) لیگ کے3 امیدوار کامیاب ہوسکے۔کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں کراچی کے تمام 42 وارڈز میں پی ٹی آئی 14نشستیں حاصل کر کے پہلے اور پیپلز پارٹی 11 نشستیں حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہی جبکہ کراچی میں 6 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ رہی کہ بہت عرصہ بعد کراچی کنٹونمنٹ کے انتخابات میں جماعت اسلامی 5 نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی جبکہ حیران کن طور پر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن دونوں صرف 3،3 نشستیں ہی حاصل کرسکیں ۔ مسلم لیگ ن کا 3 نشستیں حاصل کرنا تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے لیکن کراچی میں ایم کیوایم کا صرف 3 نشستوں تک ہی محدود ہوجانا قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ایسی نشانی کہی جاسکتی ہے۔جس کے بارے میں کبھی ایم کیو ایم ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کا ووٹ بنک بڑی تیزی کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ’’سیاسی بنک ‘‘ میں جمع ہوتا جارہا ہے ۔
شاید یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی تیسرے نمبر پر رہی اور اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی شرح فقط اچھی نہیں بلکہ بہت زیادہ اچھی کہی جاسکتی ہے۔ یعنی جماعت اسلامی نے کراچی میں ایم کیو ایم، ن لیگ اور مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ لیے۔ ہماری دانست میں کراچی میں جماعت اسلامی کے ووٹ بنک میں غیر متوقع اور غیرمعمولی اضافہ میں سب سے کلیدی کردار جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم کی جارحانہ عوامی سیاست کا ہے۔ کیونکہ کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں مختلف اہم مواقع پر حافظ نعیم نے جس طرح سے کراچی کے حقوق پر آواز اُٹھانے کی مقدور بھر سیاسی جدوجہد کی ہے۔ اُس سے کراچی میں حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے عوامی و سیاسی قد و کاٹھ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔مسئلہ صرف ایک ہے کہ حافظ نعیم کو اپنی مرکزی قیادت کی جانب سے وہ سیاسی تعاون اور مدد نہیں مل پاتی کہ جسے وہ بروئے کار لا کر کراچی کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اگر جماعت اسلامی کی مرکزی امارت حافظ نعیم یا پھر اس جیسے غیر معمولی سیاسی فہم و فراست رکھنے والے کسی نوجوان رہنما کے ہاتھ میں ہوتی تو یقینا کراچی میں ایم کیو ایم کے بعد پیدا ہونے والا خلا جماعت اسلامی باآسانی پُر کرسکتی تھی ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جو ایم کیوایم پاکستان، کراچی غائب ہوگئی وہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں اپنے پورے ’’سیاسی جوبن ‘‘ پر دکھائی دی ۔ حیدرآباد کنٹونمنٹ کے موصول ہونے والے غیر سرکاری انتخابی نتائج کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے 7 اور پیپلزپارٹی کے 3 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف اور (ن) لیگ کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ واضح رہے کہ حیدرآباد کنٹونمنٹ انتخابات کی تاریخ میں ایم کیو ایم پاکستان کو حاصل ہونے والی اَب تک کی یہ سب سے بڑی اور غیر معمولی کامیابی ہے۔ ان نتائج سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اگلے متوقع بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان واپسی بھی کرسکتی ہے۔ لیکن اس کا تمام تر انحصار ایم کیو ایم قیادت کے سیاسی اور غیر سیاسی رویے پر ہوگا۔ جیسا کہ حیدرآباد میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے کسی نہ کسی صورت اپنے آپ کو عوام سے جوڑ کر رکھا تو اُس کا انعام کنٹونمنٹ انتخابات میں تاریخ ساز جیت کی شکل میں حاصل کرلیا ۔ جبکہ اس کے برعکس ایم کیو ایم پاکستان کراچی کی مقامی قیادت اپنی عوام کی توقعات پر پورا نہ اُتر سکی ، تواس کا نتیجہ بدترین شکست کی صورت میں اُس کے سامنے آگیا۔ قصہ مختصر یہ ہوا کہ سندھ میں کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج زبان ِ حال سے پکار ،پکار کر کہہ رہے ہیں ابھی سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ’’انتخابی گیم ‘‘ پوری طرح سے آن ہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو انتخابات کے اگلے مرحلہ ، یعنی بلدیاتی انتخابات میں’’انتخابی نتائج‘‘ کا منظرنامہ بدل بھی سکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔