وجود

... loading ...

وجود

مالشی عوام۔۔

اتوار 12 ستمبر 2021 مالشی عوام۔۔

دوستو، ونس اپان اے ٹائم کی بات ہے،حاجی صاحب مالش کرنے والے سے مالش کرا رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا۔۔ کیا حال ہے حاجی صاحب،آپ نظر نہیں آتے آج کل؟ ۔حاجی صاحب نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔۔وہ بندہ کہنے لگا۔۔ حاجی صاحب،میں آپ کی سائیکل لے کے جا رہا ہوں۔۔وہ سائیکل مالیشئے کی تھی، کافی دیر ہوگئی تو مالشی کہنے لگا۔۔ حاجی صاحب،آپ کا دوست آیا نہیں ابھی تک واپس میری سائیکل لے کر؟ ۔۔حاجی صاحب بولے،وہ میر ادوست نہیںتھا۔۔مالشی کہنے لگا۔مگر وہ تو آپ سے باتیں کررہا تھا۔ حاجی صاحب بولے۔میں تو اسے جانتا تک نہیں، میں تو سمجھا تھا وہ تمہارا دوست ہے۔۔مالشی بولا۔۔ حاجی صاحب،میں غریب آدمی ہوں،میں تو لٹ گیا۔۔حاجی صاحب نے اسے تسلی دی، اچھا تو رو مت،میں تجھے نئی سائیکل لے دیتا ہوں، تم سائیکل والی دکان پر جاکے پسند کرلو۔۔مالشی نے ایک سائیکل پسند کی اور چکر لگا کے دیکھا۔واپسی پر آکر کہنے لگا کہ حاجی صاب یہ سائیکل ذرا ٹیڑھی چل رہی ہے۔حاجی صاحب بولے۔۔جایار یہ تو نئی سائیکل ہے، اچھا ٹھہر ذرا،دکھاؤ میں چیک کرکے آتا ہوں۔۔حاجی صاحب سائیکل پر چکر لگانے گئے اور واپس آئے ہی نہیں۔مالشی کو اس سائیکل کے پیسے بھی دینے پڑ گئے ۔۔نوٹ:آج ایسا ہی حال پاکستانی قوم کے ساتھ ہو رہا ہے،ہر نیا آنے والا حکمران حاجی ہے اور عوام مالشی۔۔
کہتے ہیں کہ مصطفی کھر کی گورنری کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ملکوال کے ایک کسان نے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے بٹیرے پکڑ لیے، اس نے سوچا خود اُس نے اِن بٹیروں کا کیا کرنا ہے کیوں نہ یہ سب سے بڑے اور با اثر افسر کو تحفے میں دئے جائیں۔۔اب بھلا ایک کسان کے لیے پٹواری سے بڑا افسر کون ہوسکتا تھا اور پھر کسان کو پٹواری سے کام بھی پڑتا تھا تو وہ چل پڑا کہ چل کے پٹواری صاحب کو خوش کرتے ہیں۔ پٹواری کے گھر کے باہر پہنچ کر سادہ لوح دیہاتی کسان نے باہر سے ہی آواز دی ۔۔ پٹواری صاحب جی۔۔اندر سے پٹواری دھاڑا۔۔۔ ہاں اوئے رحمیاں، کی آ۔۔کسان نے دروازے سے منہ لگا کر زوردار آواز میں پوچھا۔۔ جی چودھری جی بٹیرے کھا لیندے او؟۔۔ اسی دوران ایک ستم ظریف جو پاس سے گزر رہا تھا، اس نے آہستہ سے کسان کے کان میں بتا دیا کہ پٹواری کا تبادلہ ہو گیا ہے۔۔پٹواری قدرے خوشی سے بولا۔۔ آہو کھا لینے آں۔۔کسان برجستہ بولا۔۔چنگا فیر پھڑیا کرو تے کھایا کرو۔۔
باباجی کی یادداشت بڑی ظالم ہے، ان کے سامنے کوئی بھی موضوع چھیڑدیں، اس پر پتہ نہیں کہاں کہاں سے پرانے قصے نکال کر سناناشروع کردیں گے، لیکن مجال ہے کہ آپ ایک سیکنڈ کے لیے بور ہوجائیں۔ اسی طرح ایک روز شاعر،ان کی محبوبہ کے گرد شاعری موضوع سخن تھا۔۔ باباجی کہنے لگے۔۔ایک بار مرزا مسکین کی محبوبہ نے مرزا سے کہا۔۔ دوسرے عشّاق کے برعکس جو محض اپنی محبوباؤں سے یہ کہتے ہیں کہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائیں گے یا فرطِ جذبات میں آ کر آسمان سے چاند اتارنے کا وعدہ کرتے ہیں، آپ میرے لیے کچھ ایسا کر سکتے ہو جو حقیقی بھی ہو اور ان سے بڑھ کر بھی ہو؟اس پر مرزا بڑے اطمینان سے بولے۔۔میں آپ کے قدموں تلے جنت لا سکتا ہوں۔۔یعنی کہ یہ تو وہی بات ہوگئی کہ۔۔غریب اتنا ہوں کہ اک گدھا بھی نہ خرید سکوں ،اور امیر اتنا ہوں کہ ہر رات گھوڑے بیچ کے سوتا ہوں۔۔باباجی نے ایک روز محفل میں سوال کیا ، وہ کون سا بادشاہ ہے جس سے سب بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔۔ محفل میں موجود ہر شخص نے کافی مغزماری کی لیکن کسی کو جواب نہ آیا۔۔ جب تمام حاضرین محفل نے ہار مان لی تو باباجی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ آم وہ بادشاہ ہے جس کے ساتھ سب ہی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔۔باباجی بتاتے ہیں کہ۔۔ایک بار ایک میراثی کا ڈیڑھ لاکھ کا پرائز بانڈ لگ گیا وہ ایک لاکھ کا گوشت لے آیا اور پچاس ہزار کے کریلے اور پھر تندور سے روٹیاں ادھار لینے چلا گیا۔۔باباجی نے انکشاف کیا ہے کہ چارچیزوں کو قدرت نے غائب ہونے کی صلاحیت دی ہے۔۔ نمبرایک ٹی وی کا ریموٹ، دوسرا چابیاں، نمبرتین پر نیل کٹر اور نمبر چار پر وڈا شاپر۔۔ لیکن ۔۔باباجی کی بات شاید ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔۔کہنے لگے، پانچویں نمبر پر ہماری زوجہ ماجدہ کی قریب کی عینک بھی ہے۔۔
پرانے زمانے کی بات ہے یک دیہاتی میلہ دیکھنے گیا ‘ میلے کی رنگینیوں میں گم اس دیہاتی کو خبر ہی نہ ہوسکی اورجیب کترے ہاتھ دکھا گئے ‘خبر تو اس وقت ملی جب ’’گولہ ‘‘ کھانے کے لیے اس نے جیب سے پیسے نکالناچاہے ‘ وہ بیچارا بہت چیخا چلایا لیکن کسی کو کیا پرواہ ہوناتھی۔ خیر جی وہ دیہاتی شام کو تھکاہارا پنڈ پہنچ گیا‘ آس پاس کے مردوخواتین اکٹھے ہوگئے کہ اس سے میلے کی رنگینیوں کے بارے میں پوچھتے ہیں‘وہ بیچارا سیدھا سادھا دیہاتی کہنے لگاکہ ’’اصل میں میلہ لگایا ہی اس لیے گیا تھا تاکہ میرا بٹوہ چرایاجاسکے‘‘ اب کسی سیدھے سادھے پاکستانیوں سے پوچھا جائے تو وہ یہی جواب دینگے کہ ہرتین چار یا پھر اخیر پانچ سال بعد ہونیوالے انتخابات محض انکا ’’بٹوہ‘‘ چوری کرنے کا بہانہ ہوتے ہیں ‘سوچئے تو سہی ایک عام پاکستانی شہری کے بٹوے میں ہے کیا ’’دال روٹی‘ چائے ‘ کپڑے لتے‘‘ لیکن بھلا ہو ’’میلہ ‘‘ کرانے والوں کاکہ پاکستانی قوم ’’بٹوؤں‘‘ سے محروم ہورہی ہے اورکوئی سوچنے سمجھنے والا نہیں۔
ہمیں بچپن ہی سے چونکہ سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں تھی،اس لیے ہم صرف پاکستان میں دو ’’شریفوں‘‘ کو جانتے تھے، ایک عمرشریف اور دوسری بابرہ شریف۔۔پھر جب کالج اوریونیورسٹی لائف میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ایک اور شریف بھی ہیں وہ ’’نوازشریف‘‘ تھے۔۔ایک زمانہ تھا کہا جاتا تھا ،شرفا میں تو اب بھی یہی مانا چاہتا ہے کہ سیاست ’’شریفوں‘‘ کا کام نہیں ہے۔۔ لیکن اب سیاست بھی ’’شریف ‘‘ ہوچکی ہے۔۔ انسانوں کی طرح بعض سبزیاں اور پھل بھی ’’شریف ‘‘پائے گئے ہیں۔ مثلاً بند گوبھی کو لے لیجئے اتنی باحیا اور شریف ہے کہ تہہ در تہہ پردوں میں رہتی ہے۔پردے ہٹاتے جائیے ہٹاتے جائیے لیکن آپ محترمہ کی زیارت سے مشرف نہیں ہو سکتے۔ مکئی کا بھٹہ اتنا شریف ہے کہ سامنے آنے سے گھبراتے ہوئے جلدی میں چھپنا چاہا تو بال باہر ہی رہ گئے۔ایک پھل نے تو شرافت کی حد پار کرتے ہوئے اپنا نام ہی ’’شریفہ ‘‘ رکھ لیا۔پیازبھی باحجاب اور شرافت کی پیکر ہے، آپ اسے پردے سے آزاد کرانا چاہیں گے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے۔۔بات ہورہی تھی شریفوں کی، ہمارے ملک کے لیجنڈ کامیڈین عمر شریف ان دنوں شدید علالت کا شکار ہیں۔۔ آپ سب احباب سے ان کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔یہ جو بھوک کی وجہ سے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوتے ہیں،ان میں سے کوئی فرسٹ بھی آتا ہے یا بس ایویں ہی دوڑ لگارہے ہوتے ہیں؟؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر