... loading ...
کسی بھی دوسرے ملک کی سرزمین پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے تاریخ میں فقط دو طریقے ہی رائج رہے ہیں ۔ اول یہ کہ جنگ اور جارحیت سے کسی دوسری سرزمین کو اپنا زیرنگین کر لیا جائے ۔ دوم یہ کہ کسی ملک کی قیادت اور عوام کے ساتھ سفارتی انداز میں رشتہ دوستی استوار کر اُسے اپنا دفاعی حلیف بنا لیا جائے۔ یاد رہے کہ اکثرطاقت ور ممالک اول الذکر ’’حربی راہ‘‘ اختیار کر کے ہی دوسرے ممالک کی سرزمین پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ شاید اسی لیے 70 کی دہائی میں حالیہ روس اور سابقہ سویت یونین نے افغانستان کو اپنی بھرپور عسکری طاقت سے فتح کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ چونکہ سویت یونین اُس وقت کی عالمی طاقت ہونے کے باوجود’’گرم پانی‘‘سے محروم تھا ،اس لیے سویت یونین کو دنیا بھر میں اپنا جغرافیائی پھیلاؤ، سیاسی اثرو رسوخ اور معاشی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ پاکستان سے متصل وسیع و عریض سمندر یعنی’’ گرم پانی‘‘ پر اپنی حاکمیت قائم کرلے ۔ یعنی سویت یونین کا افغانستان پر جنگ مسلط کرنا صرف ابتدائی مرحلہ تھا ، جبکہ اُس کا اصل ہدف اور نشانہ پاکستان اور اُس کی سالمیت کو کو تاراج کرنا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت کی پاکستانی قیادت سوویت یونین کے ’’جارحانہ عزائم ‘‘ کو بروقت بھانپ لینے میں کامیاب رہی اور یوں افغان سرزمین پرروسی افواج کے خلاف پاکستان بھی میدان عمل میں اُتر آیا۔ پرانے واقعات کو دہرانا کارِ عبث ہوگا، کیونکہ افغانستان میں لڑی جانے والی سرد جنگ کے حتمی نتائج تمام قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ سوویت یونین اپنی بھرپور کوشش کے باوجود بھی ’’گرم پانی‘‘ تک رسائی حاصل کرنے کا خواب ،شرمندہ تعبیر نہ کر سکا۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ روسی قیادت ایک دہائی تک مسلسل جنگ کر کے بھی جن’’ گرم پانیوں‘‘ تک رسائی نہ پاسکی تھی آج وہی روسی ریاست، پاکستان کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کرنے کے بعد’’گرم پانی ‘‘کے ساحل پر کھڑی نظر آتی ہے۔ جبکہ افغانستان میں امریکی شکست اور طالبان کے فقید المثال فتح نے گویا ، روس کو عالمی سیاست میں بھی ایک اہم ترین فریق بنادیا ہے۔ ایسے میں اگر روسی صدر ولادمیر پوٹن ، چین ،روس ،ایران اور طالبان کے ساتھ مل کر ایک بار پھر سے عالمی سپر پاور بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو اس میں آخر مضائقہ ہی کیا ہے۔
بلاشبہ افغانستان میں طالبان کی فتح اور امریکا کی شکست کے غیر معمولی اور انہونے واقعہ نے ماسکو کے لیے بارِ دگر عالمی سیاست میں اُمید اور امکانات کئی نئے جہاں تخلیق کردیئے ہیں ۔لیکن اگر خدانخواستہ طالبان کی اتنی بڑی فتح کے باوجود بھی افغانستان میں امن اور استحکام برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو پاتا تو پھر روسی قیادت کی اُمیدوں کے روشن ہونے والے یہ چراغ آن کی آن میں بجھ بھی سکتے ہیں۔ یعنی معاشی ابتری، عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار افغانستان روسی قیادت کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بھی ثابت ہوسکتاہے۔ اس لیے طالبان حکومت کا کامیاب ہونا جہاں افغان عوام اور طالبان کے لیے بے حد ضروری ہے ،وہیں ماسکو کو بھی مستقبل قریب میں کابل میں طالبان کی مضبوط حکومت کی سخت ضرورت درپیش ہوگی۔ ماضی میں طالبان کے ساتھ روس کے تعلقات کتنے بھی کشیدہ اور تلخ رہے ہوں ۔لیکن سرِ دست طالبان اور روس ایک دوسرے کے فطری حلیف بن چکے ہیں ۔ طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد روسی قیادت نے جس طرح سے طالبان کے متعلق گرم جوشی کا مظاہر ہ کیا ۔ اُس سے آپ باآسانی آنے والے دنوں میں روس اور طالبان کے دوستانہ سفارتی تعلقات کے متعلق پیش گوئی کرسکتے ہیں ۔
حیران کن طور پر طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر ہی روسی سفیر دمتری زیرنوف نے طالبان کے ایک نمائندے سے خصوصی ملاقات کی جس کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا کہ’’ انھیں افغانستان میں طالبان کی جانب سے جوابی کارروائی یا تشدد کے کوئی شواہد نہیں ملے‘‘۔نیز اقوام متحدہ میں روس کے نمائندہ خصوصی واسیلی نیبنزیا نے کہا کہ’’ میں طالبان کی شکل و صورت میں افغانستان میں مفاہمت کی ’’نئی امید‘‘ دیکھ رہاہوں اور مجھے قوی یقین ہے کہ افغانستان میںطالبان کے آنے سے رفتہ رفتہ قانون کی حکمرانی واپس آ جائے گی اور افغان سرزمین پر برسوں سے جاری خانہ جنگی اور خون ریزی کا خاتمہ اَب تھوڑے دنوں کی ہی بات ہے‘‘۔علاوہ ازیںافغانستان کے لیے صدر پوتن کے خصوصی ایلچی ضمیر قابلوف نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ’’ روس کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا خود ساختہ جلاوطن صدر اشرف غنی کی’ ’کٹھ پتلی حکومت‘‘ کے مقابلے میں زیادہ آسان اور مفید ہوگا‘‘۔واضح رہے کہ اشرف غنی نے طالبان کے کابل پر قبضے سے کچھ دیر قبل چار گاڑیوں اور ایک ہیلی کاپٹر میں نقدی لے کر ملک چھوڑ دیا ہے۔ یہ خبر بھی عالمی ذرائع ابلاغ کو سب سے پہلے روسی حکام نے ہی فراہم کی تھی ۔
دوسری جانب روسی صدر ولادمیرپوتن نے افغانستان میں طالبان کا انتظام سنبھالنے کے معاملہ پر تبصرہ کرے ہوئے کہا تھا کہ’’ انھیں پوری امید ہے کہ طالبان خطے میں امن بحال کرنے کے اپنے تمام وعدے پورے کریں گے‘‘۔یعنی آپ سادہ ترین الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ میں طالبان کی سب سے زیادہ وکالت اور حمایت روسی حکام ہی کررہے ہیں ۔ بات اگر صرف طالبان کی زبانی کلامی حمایت تک ہی محدود ہوتی تو شاید اسے معمول کی سفارتی معاونت کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا۔ مگر بعض ذرائع دعوے کررہے ہیں کہ روس نے طالبان کو کابل تک بحفاظت پہنچانے کے لیے بھی اپنا خصوصی اثرورسوخ استعمال کیا ہے۔ خاص طور پر شمالی اتحاد کے درجنوں کمانڈروں اور طالبان مخالف مختلف گورنروں جن میں عبدالرشید دوستم اور شیر ہرات محمد اسماعیل خان جیسے جنگجو لیڈرشامل ہیں۔ان سب کا طالبان کے سامنے بغیر ایک گولی چلائے سرنڈر کردینے جیسے انہونے واقعات کے پیچھے بھی روس کا بھرپور اور موثر کردار شامل ہے۔ کیونکہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے متعلق تو دنیا کسی حد تک یہ دعوی کرسکتی ہے کہ ان کی قیادت پر پاکستان اپنا اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ لیکن شمالی اتحاد کے جتنی ملیشیا ہیں ۔اُن سب پر اگر کسی ایک ملک کا سب سے زیادہ کنٹرول ہے تو وہ صرف روس ہے۔
اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ شمالی اتحاد ،روسی حکام کے اشارہ ابرو کے بغیر طالبان کے حق میں بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال دیں ۔ تازہ ترین مثال پنج شیر وادی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والے شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود کے صاحب زادے احمد مسعود اور سابق نائب افغان صدر امر اللہ صالح کی دی جاسکتی ہے۔ جنہوں نے اس بار روس کی آشیر باد کے بغیر بھارت اور امریکا کے سہارے پر طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔چونکہ اس مرتبہ ماسکو طالبان کے خلاف ہونے والی کسی بھی مسلح جدوجہد کے حق میں نہیں ہے ۔ اس لیے پنج شیر وادی احمد مسعود اور امراللہ صالح کے لیے ایک پنجرہ ثابت ہوئی ۔جہاں بیٹھ کر وہ دنیا بھر سے طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے مدد کی اپیلیں کرتے رہے ۔لیکن افسوس ! پنج شیر وادی میں بھارت کی اعلانیہ اور امریکا کی زبانی کلامی مد د و اعانت کے سوا کسی بھی مغربی یا یورپی ملک نے اُن کی آواز پر لبیک نہ کہا۔ بظاہر بعض حلقوں کی جانب سے اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ ،تاجکستان ضرور ،رات کی تاریکی میں فضائی ذرائع سے شمالی اتحاد کے جنگجوؤں کو طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے بھاری اسلحہ و بارودپہنچانے کی کوشش کرے گا۔ مگر روس نے تاجکستان کو بھی پنج شیر کے معاملہ میں طالبان کے خلاف فریق بننے سے سختی سے روک دیا۔ جس کی وجہ سے پنج شیر کیاوہ علاقہ غیر جہاں آج تک پنج شیریوں کے علاوہ کسی نے قدم نہ رکھا تھا، وہ بھی پکے ہوئے آم کی مانند طالبان کی جھولی میں آگرا۔
تادمِ تحریر طالبان پنچ شیر کے کم و بیش تمام علاقے پر نہ صرف پوری طرح سے اپنا کنٹرول مستحکم بناچکے ہیں بلکہ انہوں نے شمالی اتحاد کے کئی نامی گرامی جنگجو رہنماؤں کو موت کے گھاٹ بھی اُتار دیا ہے۔ اَب تو امراللہ صالح نے بھی اپنے ایک شکست خوردہ ٹوئٹ میں لکھ دیا ہے کہ ’’اگر مغربی ممالک نے انہیں بچانے کی سنجیدہ کوشش نہ کی تو طالبان اُنہیں کسی بھی وقت جان سے مار سکتے ہیں ‘‘۔بظاہر لگ بھی ایسا ہی رہا ہے کہ طالبان امراللہ صالح کو افغان سرزمین پر مزید فتنہ و فساد پھیلانے کے لیے زندہ چھوڑنا چاہتے بھی نہیں ہیں۔ ویسے بھی طالبان نے عالمی سپرپاور، امریکا کے خلاف جتنی بڑی تاریخ فتح حاصل کی ہے ۔ اُس کی ایک یاد گار ٹرافی بھی ضرور ہونی چاہیے اور اگر امراللہ صالح کے جسد خاکی کو طالبان اپنے لیے جیت کی ٹرافی بنالیں تو اس طرح طالبان کے خلاف سازش کرنے والے ممالک اور گروہوں کو ایک طاقت ور پیغام پہنچ سکتاہے۔ بہرحال روس وسط ایشیا میں اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے طالبان پر مکمل طور پر بھروسہ کر چکا ہے اور کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد اَب ماسکو مستقبل میں اپنے پڑوسی ملک افغانستان سے زیادہ سے زیادہ تعلقات کو فروغ دے کر اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہتاہے۔
خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے پاکستان، چین، روس اور دیگر ممالک کو اپنی حکومت سازی کی تقریب میں شرکت کی باقاعدہ دعوت دی گئی ہے، یہ دعوت ایک ایسے دن دی گئی ہے جب طالبان نے افغانستان کے آخری جنگی محاذ پنج شیر کو بھی فتح کرنے کا اعلان کیا۔طالبان کی جانب سے ٹوئٹر پر کہا گیا کہ اسلامی امارات افغانستان نے پاکستان، ترکی، قطر، روس، چین اور ایران کو نئی حکومت سازی کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ سب سے حیران کن اور خوش آئند بات یہ ہے کہ روسی سفارت کاروں نے سب سے پہلے طالبان کی حکومت سازی کی تقریب میں شرکت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اَب اسے ہم روس کی جانب سے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا نہ سمجھیں تو ،آخر کیا سمجھیں؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔