... loading ...
(مہمان کالم)
پروفیسر اپورو آنند
دو ہفتے قبل‘ جنترمنتر کے موقع پر نفرت پر مبنی نعرے لگانے اور مسلمانوں کو قتلِ عام کی دھمکی دینے کے الزام میں دہلی پولیس نے 6 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان گرفتاریوں کو دہلی پولیس کی ایک مثالی کارروائی کے طور پر دیکھا گیا۔ کئی لوگ خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے اور صحیح کام انجام دینے پر پولیس کی ستائش کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں تک پولیس کی مداخلت سے متعلق اپنی توقعات ہیں‘ وہ بہت کم ہیں اور خاص طور پر دہلی پولیس کے تعلق سے یہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا کسی بھی طرح غلط نہ ہوگا کہ پولیس نے ملزمین کے ناموں کے اعلان کرنے اور ان کے خلاف کارروائی میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس کی کیونکہ ملزمان حکمران جماعت بی جے پی کے نظریات کے ماننے والے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پولیس گرفتاریوں سے قبل اپنی جبلت سے لڑ رہی تھی کیونکہ دہلی پولیس کے بارے میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ وہ سنگین جرم کے مرتکب ملزمان کا پس منظر بھی دیکھتی ہے‘ اگر ان کا تعلق حکمران جماعت کے نظریات ماننے والوں سے ہو‘ تو پھر انہیں نظرانداز کردیتی ہے۔ ویسے بھی دہلی پولیس اس قدر قابل اور قانون کی پاسداری کرنے والی ہے کہ وہ دہلی فسادات کے دوران ایک مسلم شخص پر حملہ کرنے اور اس کی آنکھ میں گولی مارے جانے کے واقعہ کے ضمن میں ایف آئی آر درج کرنے سے اب تک گریز کررہی ہے، حالانکہ دہلی ہائیکورٹ نے پولیس کو اس کیس میں ایف آئی آر درج کرنے کا واضح حکم دیا ہوا ہے۔ پولیس اعلیٰ عدالت کا حکم ماننے کے بجائے پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے اور دہلی پولیس کا حال یہ ہے کہ وہ اب تک ملزمان کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ وہ گزشتہ سال جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو)میں توڑ پھوڑ کرنے والے عناصر کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے بھی قاصر رہی ہے۔ فسادیوں نے جے این یو پر حملہ کرتے ہوئے کئی طلبہ اور اساتذہ کو زخمی کردیا تھا۔ ان حملوں میں ملوث چہرے جانے پہچانے ہیں، وہ اب بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں لیکن دہلی پولیس یہ ضروری نہیں سمجھتی کہ انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ دہلی پولیس نے اس بی جے پی لیڈر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے بھی انکار کردیا تھا جس نے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار کی موجودگی میں عوام پر تشدد کی دھمکی دی تھی جبکہ زیادہ تر لوگ مسلم شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ دہلی ہائیکورٹ نے اس بی جے پی لیڈر کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے دہلی پولیس کو حکم دیا تھا۔ دہلی پولیس کی خوبی یہ ہے کہ وہ جے این یو سے نجیب احمد نامی ایک طالب علم کے لاپتا ہونے کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کی ضرورت کو بھی اہم نہیں سمجھتی اور نہ ہی اس کی نظر میں یہ معاملہ کوئی سنگین معاملہ ہے۔ چار سال ہوچکے ہیں اور نجیب کا اتا پتا لگانے میں پولیس بْری طرح ناکام رہی ہے اور اس نے اس معاملے کو داخلِ دفتر کررکھا ہے۔
گزشتہ سال چند بی جے پی قائدین‘ بشمول ارکانِ پارلیمنٹ اور مرکزی وزرا‘ نے انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کیں، نعرے لگائے لیکن دہلی پولیس نے اس پر کارروائی کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ شمال مشرقی دہلی میں زبردست خون ریزی ہوئی اور اس میں کم از کم 23 قیمتی جانوں کا اتلاف ہوا۔ مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان فسادات میں 14 مساجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ بے شمار مکانات، دکانیں اور تجارتی اداروں کو نذرِآتش کر دیا گیا اور لوٹ لیا گیا۔ یہ مکانات اور دکانیں‘ سب مسلمانوں کے تھے۔ مسلمانوں نے برسرِعام دہلی پولیس کی جانبداری اور تعصب کے بارے میں شکایت بھی کی۔ دہلی پولیس کے ریکارڈ کا جہاں تک تعلق ہے، شہریوں کو ہمیشہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے باوجود شہریوں نے قانونی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔
میں خاص طور پر مسلمانوں کے بارے میں سوال کررہا ہوں۔ نوجوان تعلیم یافتہ مسلمان اب نفرت پر مبنی تقاریر اور جرائم کا مکمل ریکارڈ مرتب کر رہے ہیں اور اس طرح کے واقعات کی پولیس میں رپورٹ درج کرانے پر بھی زور دے رہے ہیں۔ یہ واقعات چھوٹے ہوں یا بڑے‘ مسلم نوجوان ان واقعات کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں جس کا مقصد عوام کو چوکس کرنا ہے۔ حال ہی میں مسلم خواتین کی آن لائن بولی لگائی گئی اور فحش باتیں اْن سے متعلق پھیلائی گئیں۔ بے شمار مسلم خواتین مختلف سائٹس پر اپنی تصاویر دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ انہیں نشانہ بنائے جانے کا اچانک پتا چلا لیکن اْن مسلم خواتین نے ہار ماننے یا پریشان ہونے کے بجائے پولیس سے رجوع ہوکر ملزموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ پولیس سے شکایت کا نتیجہ برآمد نہیں ہوا لیکن ان مسلم خواتین نے بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کو آن لائن ایکشن کے بارے میں نہ صرف بتایا بلکہ ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔ اسی طرح این سی آر یعنی قومی دارالحکومت کے علاقہ اور ہریانہ میں ایسے اجلاس منعقد ہوئے جن میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی، مسلم نوجوان بشمول صحافی حرکت میں آئے اور فرقہ پرستوں کی اشتعال انگیز اور بکواس کے خلاف شکایت درج کرائی۔ ان لوگوں نے پولیس اور سیاسی جماعتوں کو اس تعلق کو بے نقاب بھی کیا۔ ان قابل مسلم نوجوانوں نے فرقہ پرستوں کی جانب سے کھیلے جانے والے نفرت کے کھیل سے تمام کو روشناس کرایا تاکہ لوگوں کو اس بارے میں علم و اطلاع ہو کہ بھارت میں نفرت کے سوداگر کون ہیں۔ اس مرتبہ 8 اگست کو جنترمنتر کے موقع پر مسلمانوں کے خلاف بکواس کرنے والے اجتماع سے پہلے ہی دہلی کے دوارکا علاقے میں ایک نہیں‘ کئی اجلاس منعقد ہوئے جن میں وہاں نئے حاجی کیمپ کی تعمیر کی شدت سے مخالفت کی گئی۔ دوارکا میں مسلم دشمن عناصر کو متحرک کرنے سے پہلے دہلی کے ہی اتم نگر میں مسلم میوہ فروشوں کیخلاف مہم چلائی گئی۔ ان مسلم صحافیوں اورتعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں نے اس واقعے سے بھی عوام کو واقف کرایا۔
ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اگر مسلمانوں کے یہ گروہ پوری طرح متحرک نہ ہوتے تو جنترمنتر میں نسلی منافرت پھیلانے والے گرفتار نہ کیے جاتے لیکن نوجوان مسلمانوں نے جنترمنتر پر دی جانے والی دھمکیوں اور وہاں کی جانے والی اپنی توہین کو قبول کرنے سے انکار کردیا، ان لوگوں نے ببانگ دہل کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا، انہیں قتل کرنے کی دھمکی دینا مجرمانہ فعل ہے اور یہ کارروائیاں اپنے ا?پ میں تشدد ہیں، ان سے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہے، ان کے احساس وقار اور حرمت ان سے مجروح ہوتے ہیں اور اس طرح کے واقعات سے ایسی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں جہاں مسلمانوں کو جسمانی طور پر زدوکوب کیا جائے یا ذبح کر دیا جائے‘ جیسا کہ جنترمنتر کے نعروں میں مطالبہ کیا گیا تھا۔کیا یہ درست نہیں کہ گزشتہ سال ایک مرکزی وزیر نے مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ’’غداروں‘‘ کو گولی مارنے کا مشورہ دیا تھا؟ اس کے بعد کیا ہوا ؟دہلی میں 53 افراد مارے گئے، تشدد برپا کیا گیا اور جب بھی نفرت پر مبنی مہم چلائی جاتی ہے تو لوگوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس صورتحال کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی یہی چاہتی ہے کہ تشددکا خاتمہ ہوجائے مگر اس کے لیے ملزمان پر کڑا ہاتھ ڈالنا لازمی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔