... loading ...
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
7ستمبرہماری تاریخ کا وہ روشن اور تاریخ ساز دن ہے جب ہزاروں مسلمانوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے طویل جدوجہد کے بعد پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قراردلوانے میں کامیابی حاصل کی۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری، اس کے ایمان کا تقاضا اور آخرت میں شفاعتِ رسول ? کا ذریعہ ہے۔
ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے جس پر پورے دین کا انحصار ہے اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو پورا دین محفوظ ہے اگر یہ عقیدہ محفوظ نہیں تو دین محفوظ نہیں۔ قرآن کریم میں ایک سو سے زائد آیات اور ذخیرہ احادیث میں دوسوسے زائد احادیث نبوی اس عقیدے کا اثبات کر رہی ہیں۔جن میں پوری تفصیل سے ختم نبوت کے ہر پہلو کو اجاگر کیاگیا ہے۔
قرون اولیٰ سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور اکرمﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے بلکہ امام اعظم امام ابو حنیفہ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیاء ﷺکے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جو عظیم قربانی دی وہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ اور صحابہ کرامؓ کی نظر میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جو اہمیت تھی اس کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے جو معرکہ ہوا اس میں بائیس ہزار مرتدین قتل ہوئے اور 1200کے قریب صحابہ کرام ؓنے جام شہادت نوش فرمایا جس میں600 کے قریب تو حفاظ اور قراء تھے حتیٰ کہ اس معرکہ میں بدری صحابہ کرام کی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کردیا مگر اس عقیدہ پر آنچ نہ آنے دی۔
حضورﷺ کی حیات طیبہ میں دین اسلام کے لیے شہید ہونے والے مردوں‘ عورتوں‘ بچوں و بوڑھوں اور نوجوانوں کی تعداد 259 ہے اور اس دوران قتل ہونے والے کفار کی کل تعداد 759 ہے جو کہ کل تعداد 1018 بنتی ہے۔ جبکہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے لڑی جانے والی صرف ایک جنگ میں شہداء و مقتولین کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔انیسویں صدی کے آخر میںبے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک خود ساختہ نبوت قادیانیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔
جس کی تمام تر وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لیے وقف تھیں، انگریز کو بھی ایسے ہی خاردار خود کاشتہ پودے کی ضرورت تھی جس میں الجھ کر مسلمانوں کا دامن اتحاد تار تار ہوجائے اس لیے انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کی خوب ا?بیاری کی۔ اس فرقہ کے مفادات کی حفاظت بھی انگریزی حکومت سے وابستہ تھے۔ اس لیے اس نے تاج برطانیہ کی بھر پور انداز میں حمایت کی، ملکہ برطانیہ کو خوشامدی خطوط لکھے، حکومت برطانیہ کے عوام میں راہ ہموار کرنے کے لیے حرمت جہاد کا فتویٰ دیا، چاپلوسی کے وہ گھٹیا اور پست طریقے اختیار کیے جس سے مرزا غلام احمدقادیانی کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علماء کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلہ میں میدان عمل میں نکلے۔ مرزا قادیانی کے فتنہ سے نمٹنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کوششیں کی گئیں ان میں بڑا اہم کردار علماء دیوبند کا ہے ، بالخصوص حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اور امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری کی خدمات اور مساعی اس سلسلہ میں امت مسلمہ کے ایمان کے تحفظ و بقاء کا سبب ہیں۔
علامہ سیّد انور شاہ کشمیری گویا کہ اس فتنہ کے خاتمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے‘ اس فتنے کے لیے وہ ہمیشہ بے چین و بے قرار رہتے۔ امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کاشمیری نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابین تصنیف کیں بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا‘ جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ‘ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری‘ مولانا مناظر احسن گیلانی‘ مولانا محمد ادریس کاندھلوی ‘ مولانا محمد علی جالندھری‘ مولانا محمد یوسف بنوری‘ ‘ مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے مولانا ظفر علی خان اور علامہ محمد اقبال کو تیار و آمادہ کیا۔امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اپنے شاگردوں سے عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لیے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ’’جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کے دامن شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہے وہ قادیانی درندوں سے ناموس رسالت کو بچائے۔
‘‘حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لیے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علمائ و صلحا موجود تھے‘ ان سب نے حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی،امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے تحریک آزادی کے بعد عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور قید وبند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پورے ملک میں بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کر کے نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ستمبر 1951 ء میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:۔
۔۔۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ، قویٰ میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ میں تو کہتا ہوں کہ اگر حضرت علی ؓ دعویٰ کرتے کے جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبی ﷺ نے دی، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ، سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ بھی دعویٰ کرتے تو کیا بخاری انہیں نبی مان لیتا؟ نہیں ہرگز نہیں، میاں! حضرت محمدﷺ کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت ﷺ جس کے سر پر ناز کرے۔
حضرت مولانا سیّد انور شاہ کشمیری تو ختم نبوت کے کام کو اپنی مغفرت کا سبب بتایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ’’اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا ہم سے بہتر ہے۔‘‘حضرت علامہ شمس الحق افغانی فرماتے ہیں کہ جب حضرت انور شاہ کشمیری کا آخری وقت تھا کمزوری بہت زیادہ تھی ، چلنے کی طاقت بالکل نہ تھی ، فرمایا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچا دیں ، اس وقت کاروں کا زمانہ نہ تھا ایک پالکی لائی گئی ،پالکی میں بٹھا کر حضرت شاہ صاحب کو دارالعلوم کی مسجد میں پہنچا دیا گیا ، محراب میں حضرت کی جگہ بنائی گئی تھی وہاں پر بٹھا دیا گیا تھا ، حضرت کی آواز ضعف کی وجہ سے انتہائی ضعیف اور دھیمی تھی۔
تمام اجل شاگرد حضرت انور شاہ کشمیر ی کے اردگردہماتن گوش بیٹھے تھے آپ نے صرف دو باتیں فرمائیں ، پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تاریخ اسلام کا میں نے جس قدر مطالعہ کیا ہے اسلام میں چودہ سو سال کے اندر جس قدر فتنے پیدا ہوئے ہیں ، قادیانی فتنہ سے بڑا فتنہ اور سنگین فتنہ کوئی بھی پیدا نہیں ہوا۔دوسری بات یہ فرمائی حضورﷺ کو جتنی خوشی اس شخص سے ہو گی جو اس کے استیصال کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے گا تو رسول اکرم ﷺ اس کے دوسرے اعمال کی نسبت اس کے اس عمل سے زیادہ خوش ہوں گے اور پھر آخر میں جوش میں آکر فرمایا ! کہ جو کوئی اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے اپنے آپ کو لگا دے گا ، اس کی جنت کا میں ضامن ہوں۔
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے قیام کا مقصد قادیانی فتنہ کا لندن سمیت پوری دنیا میں تعاقب کرتے ہوئے امت مسلمہ پر ان کے کفر کو بے نقاب اور نسل نو کے ایمان کی حفاظت کرنا ہے، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی منظوری مکہ مکرمہ میں خواجہ خواجگان قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس اللہ سرہ نے دی اس موقعہ پر مسجد الحرام بیت اللہ کے مدرس شیخ حرم فضیل الشیخ مولانا محمد مکی حجازی حفظہ اللہ اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے موجودہ مرکزی امیر فضیل الشیخ مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنائیت اللہ حفظہ اللہ اور میاں فضلِ حق احراری (مرحوم) بھی موجود تھے۔
پھر 10اکتوبر 1985ء کو حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس اللہ سرہ نے کندیاں شریف میں ایک اجلاس بلا کر اس فیصلہ کی توثیق فرمائی اور دعائوں کے ساتھ ساتھ ایک تائیدی خط بھی تحریر فرمادیا۔یہ حضرت خواجہ خان محمد صاحب اور اکابرین کی ہی دعائوں کی برکت ہے کہ انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سابق مرکزی امیر فضیل الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی ،سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی اور مولانا ضیاء القاسمی اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے موجودہ مرکزی امیرفضیل الشیخ ڈاکٹر سعید عنائت اللہ حفظہ اللہ کی کوششوں اور محنتوں سے یہ جماعت قلیل عرصہ میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے فضیل الشیخ مولانا عبدالحفیظ مکی نے پوری دنیا میں مسلسل سفر کیئے اور اسی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں سائوتھ افریقہ کے سفر کے دوران ہی 16 جنوری 2017 حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے 70 سال کی عمر میں انتقال کر گئے یہ عقیدہ ختم نبوت کے مقدس کام کی ہی برکت تھی کہ آپ کی نماز جنازہ مسجد نبوی شریف میں مسجد نبوی کے امام صلاح البدیر حفظہ اللہ نے پڑھائی جس میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے ہزاروں افراد نے شرکت کی اور جنت البقیع میں اپنے شیخ مولانا زکریا کاندھلوی کے نزیک دفن کیئے گئے جہاں صحابہ کرامﷺ ، ازواجِ مطہرات،اوردیگر مقدس شخصیات مدفون ہیں۔
حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی کی وفات کے بعد امام کعبہ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس کی خواہش اور انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کی شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل فضیل الشیخ ڈاکٹر سعید عنائت اللہ کو انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کا مرکزی امیر منتخب کیا گیا جبکہ مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنائیت اللہ نے جماعت کے ذمہ داران سے مشاورت کے بعد مولانا عبدالحفیظ مکی کے بیٹے صاحبزادہ مولانا عبدالرئوف مکی کو مرکزی نائب امیر منتخب کیا گیا۔
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے قائدین کی طرف سے قادیانیت سے تائب ہوکر اسلام قبول کرنے والے نو مسلم حضرات کی کفالت کے لیے ’’ انوار ختم نبوت ٹرسٹ‘‘کے عنوان پر ایک رفاہی ادارہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مرکزی رابطہ سیکرٹری مولانا قاری محمد رفیق وجھوی کی چیئرمینی و زیر نگرانی قائم کیا گیا جس میں 70 کے قریب نو مسلم خاندانوں، بیوگان و مستحقین کی کفالت و امداد کا سلسلہ مخیر حضرات کے تعاون سے مسلسل جاری ہے۔دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت اور قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کرنے کے لیے ہر ایک مسلمان کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔