... loading ...
مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ کا انعام ہے پاکستان اور یہ طے شدہ بات ہے کہ اللہ کے انعام کو زوال نہیں آسکتا۔ وطن عزیز پاکستان جب سے بنا بلکہ بننے سے بھی پہلے جب اس کو بنانے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی جارہی تھی اور اس کے حصول کے لیے قربانیوں کی داستان شروع ہو رہی تھی اس وقت سے لے کر آج تک یہ پوری دنیائے کفر کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ عالم کفر پہلے یہ چاہتا تھا کہ برصغیر کے مسلمان پاکستان کو آزاد اسلامی ریاست کے طورپر حاصل نہ کر سکیں لیکن خدائی امر پورا ہوکر رہا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان آزاد اسلامی فلاحی خود مختار مملکت بن کر ابھرا۔اس کے بعد عالم کفر پھر سر جوڑ کر بیٹھا کہ اس کو باقی نہ رہنے دیا جائے چنانچہ ہر طرح سے اور ہر طرف سے سازشوں کے جال بچھائے گئے تاکہ پاکستان کا وجود ختم ہوجائے۔ ان شیطانی تدبیروں پر خدائی تقدیر غالب رہی اور پاکستان کا وجود نعمت الہٰی کا مظہر بن کر آج تک زندہ و پائندہ ہے۔
جب سازشوں سے کچھ نہ ہو سکا تو دشمن نے طاقت کو آخری حربے کے طورپر استعمال کیا لیکن وہ یہ بھول گیا کہ پاکستان محض حادثاتی طور پر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے صلے میں اللہ نے عطا فرمایا ہے جیسے شہید ؛ حیاتِ جاودانی کا تمغہ اپنے سینے پر سجاتاہے اسی طرح اس کے لہو میں بھی خدا نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ جس کی بنیادوں میں شامل ہو جائے اسے بھی زوال کے زنگ سے آلودہ نہیں ہونے دیتا۔
کسی بھی ملک میں امن ،معیشت اور خوشحالی اس وقت آ سکتی ہے جب اس ملک کی سرحدیں مضبوط ہوں۔ سرحدوں کی مضبوطی مضبوط کڑیل جوانوں کے مضبوط حوصلوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ صد شکر ہے کہ پاکستان کی ترقی، خوشحالی ، مضبوط معیشت اور پرامن ہونے میں افواج پاکستان کا شروع سے مثالی اور قابل تحسین کردار چلا آ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اسلام سے وابستگی ہے جس نے ہماری بہادر افواج کے جانبازوں اور سرفروشوں کو اسلامی ریاست پر قربان ہو جانے جذبہ اور باہم متحد رہنے کا سبق دیا ہے ، یہی وہ مبارک جذبہ تھا جس کی بنیاد پر ہم کل تک ناقابل شکست قوم رہے اور اسی جذبے کی بدولت ہی ہم آئندہ ناقابل شکست قوم باقی رہ سکتے ہیں۔
اسلام سے مضبوط وابستگی کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان کی پالیسی اور سوچ ہے جس کی بنیاد پر ان کے حوصلے بلند ہی رہتے ہیں۔ تاریخ پاکستان کا ہر طالب علم بانی پاکستان کے اس فرمان کو کبھی نہیں بھول سکتا جو انہوں نے ملک کے دفاع کے حوالے سے کیا تھا، 22 جنوری 1948ء دلاور جہاز کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا :’’پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی الگ الگ جگہ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے، اس کے لیے آپ کا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ایمان، تنظیم اور ایثار۔ آپ اپنی تعداد کے کم ہونے پر نہ جائیے، اس کمی کو آپ کی ہمت و استقلال اور بے لوث فرض شناسی سے پورا کرنا پڑے گا کیونکہ اصل چیز زندگی نہیں ہے بلکہ ہمت، صبر و تحمل اور عزم مصمم ہیں جو زندگی کو زندگی بنا دیتے ہیں۔‘‘
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ابھی 18، 19 سال ہوئے تھے ،پڑوسی ملک ہندوستان نے اس پر حملے کی منصوبہ بندی کی اور صبح کا ناشتہ لاہور میں کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے ،’’ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ‘‘ کے مصداق اسلحے اور طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح پاکستان کی مقدس حدود میں داخل ہوئے تو ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ کے مصداق پاکستان کی افواج نے ان کے منصوبے کو خاک میں ملایا اور انہیں خاک چاٹنے پر مجبور کیا۔
اس نازک موقع پر پاکستان کے بہادر عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ وطن عزیز کے دفاع کے لیے سروں پر کفن باندھ کر میدان میں اترے۔ پھر چشم فلک نے وہ نظارہ بھی کیا کہ لاہور میں ناشتہ کرنے والوں کے خون سے لاہور کی پیاسی زمین سیراب ہوئی۔ شیرخدا علی المرتضٰی ، خالد بن ولید ، محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد ، صلاح الدین ایوبی ، ٹیپو سلطان کے وارثوں نے اپنے آباء کی تاریخ دہراتے ہوئے دشمنوں کے نہ صرف دانت کھٹے کیے بلکہ ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ اْن کے دانتوں تک کو پسینہ آ گیا ، کئی گنا زیادہ دشمن بزدلوں کی طرح رات کی تاریکی میں شب خون مارنے کے لیے پاکستان کی سرحدی حدود میں داخل ہوا پاکستان کے جانبار شیر جوانوں نے آن ہی آن میں ان کو خاک و خون میں تڑپا دیا۔
لاہور کے سیکٹر برکی کو میجر عزیز بھٹی شہید جیسے سپوت نے سنبھالا، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔ چونڈہ کے سیکٹر کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستان فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنایا۔ اس کے علاوہ جسٹر سیکٹر قصور،کھیم کرن اور مونا باؤ سیکٹرز کے بھی دشمن کوعبرت ناک شکست اس انداز میں ہوئی کہ اسے پکاہوا کھانا، فوجی ساز و سامان،جیپیں اور جوانوں کی وردیاں چھوڑ کر میدان سے بھاگنا پڑا۔ایک طرف پاکستان کی بحری فوج نے دشمن کی نیندیں حرام کیں تودوسری طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کردیا کہ دفاع وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا بقائے وطن کے لیے وفاء عہد کی تکمیل ہے۔
فضیلت تو وہ ہوتی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے۔ ہندوستان کے سابق لیفٹیننٹ جنرل’’ کول‘‘ کو ہندوستانی سرکار نے اس لیے فارغ کر دیا کہ وہ چینی سرحدی علاقوں سے متصل علاقے کا دفاع تک نہ کرسکا۔ اس کے علاوہ وہ علاقے بھی جو پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت کے خیال میں بھارت کے علاقے تھے، چین نے جن پر قبضہ مخالفانہ کر رکھا تھا،وہ بھی چینیوں سے آزاد نہ کراسکا۔ یہی جنرل کول اپنی کتاب The Untold Story میں بھارتی افواج کے کمانڈر اعلیٰ کو خوب کوسا اور جنگ ستمبر 1965ء میں بھارتی افواج کی کارکردگی پر جنرل چودھری کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ جنرل کول نے صاف لکھا کہ ہم بھارتی لوگ پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھے، اسی طرح فوجی امور میں بھی پھر ہمیں کیا ہوگیا، ہمیں ان جملہ وسائل کے ہوتے ہوئے اور برتر ہونے کے باعث پاکستان کو شکست دینا چاہئے تھی لیکن صاف اور سیدھی بات ہے کہ ہم پاکستان کو شکست نہیں دے سکے۔ (پاکستان حصار اسلام، مصنفہ پروفیسر محمد منور، صفحہ نمبر268-269)
اس تاریخی حقیقت کو کبھی فراموش نہ کیا جائے کہ پاکستان صرف ایشیا کے مسلمانوں کا قلعہ نہیں ہے بلکہ یہ تمام عالم اسلام کا مضبوط قلعہ ہے اگر یہ قلعہ مضبوط و مستحکم ہوگا تو سارے عالم اسلام کے لیے قوت و استحکام کا سبب ہوگا اگر یہ قلعہ کسی لحاظ سے کمزور ہوا تو پورا عالم اسلام متاثر ہوگا۔ اس لیے اسے مضبوط او رمستحکم کرنے اور اس کے دفاع کے لیے جو جذبہ6 سمتبر 1965ء کی جنگ میں تھا اسی جذبے کو زندہ رکھنے سے پاکستانی قوم ہمیشہ زندہ رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔