... loading ...
(مہمان کالم)
ڈاکٹرعظیم ابراہیم
2011ء میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے بعد سے بے لگام خانہ جنگی کا شکار لیبیا عملی طور پر ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔ قذافی سے متعلق کچھ بھی کہا جائے، کم از کم یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ اس نے نسلی، قبائلی اور نظریاتی بنیادپر منقسم لیبیا کو متحد رکھا ہوا تھا۔ اس کے ہتھکنڈے بہیمانہ ہو سکتے ہیں، پھر بھی وہ ملک کو جوڑنے والی ایک قوت تھے۔ لیبیا میں جاری خانہ جنگی کی تفصیل میں جایا جائے تو مستحکم و خوشحال لیبیا سے متعلق ناامیدی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ لیبیا میں اس وقت طاقت کے کئی مراکز ہیں، ہر مرکز کی اپنی ملیشیا ہے؛ داعش اور القاعدہ کے جنگجو بھی ملک میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔
لیبیا کے اس وقت بظاہر 2 علیحدہ اور نیم قابل عمل حکومتی ڈھانچے ایک دوسرے کے متوازی چل رہے ہیں دونوں پورے ملک پر حکمرانی کے دعویدار ہیں، ان کے اپنے اپنے مرکزی بینک اور کرنسی ہے۔ روس اور مغربی دنیا اپنے اپنے پراکسیوں کے ذریعے کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں، عرب ریاستیں بھی مختلف پراکسیوں کی حمایت کر رہی ہیں۔ ان حالات میں خانہ جنگی کے کبھی نہ ختم ہونے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس شورش کا قابل ذکر پہلو چند امور ہیں جن کے خلاف اہل لیبیا ایک دکھائی دیتے ہیں؛ جیسے کہ تمام مقامی تنظیموں کی داعش کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کرنا۔ 2014ئ میں داعش نے سرت شہر اور چند قصبوں پر قبضہ کر لیا تھا اور شام کی طرح وہاں بھی اپنی اتھارٹی قائم کی مگر جلد ہی لیبیا کے تمام گروپ داعش کے خلاف متحد ہو گئے اور کئی علاقے اس سے خالی کرا لئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لیبیا میں اتحاد کا امکان پہلی بار داعش کی وجہ سے دیکھنے میں آیا تھا۔
لیبیا کے انتہائی شورش زدہ ماحول کا دوسرا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ 2011ء کے بعد محض چند گروپوں نے ہی ایک دوسرے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ ہر گروپ، ملیشیا اور حکومتی ادارے کی کوشش ہے کہ اپنے اثر و رسوخ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے، اس کے لیے متعدد مواقع پر بعض گروپوں نے دیگر فریقین سے کبھی نہ کبھی تعاون ضرور کیا اور آئندہ بھی کریں گے۔ صرف چند گروپوں کے درمیان مفاہمت کا امکان کم ہے، جس کی وجہ ذاتی مفادات، نجی جھگڑے، عزائم اور نظریاتی اختلافات ہیں۔ لیبیا میں اس وقت ایسے فریق کی کمی ہے جو کہ قذافی کی طرح ملک میں طاقت کے استعمال پر مکمل اجارہ داری رکھتا ہو۔ تاہم لیبیا میں ایسے حلقوں کی کمی نہیں جو کہ لیبیا ایک اکائی کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں جس میں سب مل کر چلیں، تمام اختلافات بھلے برقرار رہیں مگر تشدد کا وجود نہ ہو، بلکہ اختلافات کا مثبت انداز میں فائدہ اٹھایا جائے۔
اس مقصد کیلئے لیبیا میں اس وقت واحد ممتاز رہنما ڈاکٹر عارف علی نیاد ہیں، جو کہ کینیڈا کے تعلیم یافتہ انجینئر، فلاسفر، اسلامی سکالر اور یو اے ای میں لیبیا کے سفیر رہے ہیں۔ شاندار تعلیمی پس منظر کے علاوہ ڈاکٹر نیاد ایک بڑے تاجر اور فلاحی سرگرمیوں میں کھل کر حصہ لیتے ہیں؛ سب سے بڑھ کر لیبیا سے متعلق ایک واضح ویڑن رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علی نیاد کو لیبیا کے دیہی اور شہری رہن و سہن اور تمدن، مختلف علاقوں کے منفرد ثقافتی اور تاریخی ورثے کا اچھی طرح ادراک ہے، مرکزی حکومت کو ان تمام حلقوں کے مابین باہمی مفاد پر مبنی پْرامن روابط کا ایسا ماحول پروان چڑھانا ہے کہ وہ ایک دوسرے کیخلاف ہتھیار اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔
لیبیا جیسا ملک جو کہ اپنی روایات اور ماضی پر فخر کرنیوالے مختلف آزاد خیال قبائل اور اکائیوں میں بٹا ہوا ہے، ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے ایک ٹھوس ویڑن کی ضرورت ہے۔ اس ویڑن کا مشکل حصہ وسائل کی تقسیم سے متعلق ہو گا، کیونکہ مختلف گروپوں کی قیادت کی بظاہر ہٹ دھرمی کی وجہ ذاتی انا نہیں بلکہ مخصوص معاشی مفادات ہیں جس کی وجہ سے لوگ ان کیلئے لڑنے اور جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔ اگر انہیں بہتر مواقع کی یقینی دہانی اور ضمانت دی جائے تو صورتحال میں خاطر خواہ تبدیلی لائی سکتی ہے۔ امن و استحکام کے اس ویڑن کو ڈاکٹر علی نیاد لیبیا میں غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔