وجود

... loading ...

وجود

پتلی اورکٹھ پتلی

اتوار 05 ستمبر 2021 پتلی اورکٹھ پتلی

ماضی میں ایک بات تواتر سے کہی جاتی رہی ہے کہ انسان ہی انسانوںکا دشمن ہے حالانکہ دنیا میں بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے گراںقدرکام ہواہے جس کے نتیجہ میں بہت سی مفید ایجادات ہوئیں ،بیماریوںکی ویکسین بنائی گئی، طبی سہولیات میں بیش بہااضافہ ہوا،سماجی بھلائی اور آرام وسکون کے لیے بے انتہا آسائشیں مہیاکی گئیں یہ سلسلہ آج تلک دراز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانوںنے انسانوںکی بربادی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی انسانی حقوق کے عالمی چمپئن امریکہ نے جاپانی شہروں ناگاساکی اور ہیرو شیما پر ایٹم بم برساکر لاکھوںافرادکو موت کے گھاٹ اتاردیا صرف اسی پر اکتفانہیں ہوا بلکہ نت نئے ہتھیار بنائے گئے ان میں ایک خوفناک ہتھیار نکلسٹر بم بھی شامل ہے اکثرلوگ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ آخر یہ نکلسٹر بم کسے کہتے ہیں؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟
جرمنی کے شہر ڈبلن میں 2008 میں منظور ہونے والے کنونشن کے تحت کلسٹر بموں کی تیاری، ذخیرہ کرنے، منتقلی اور استعمال پر پابندی عائد ہے اور دنیا کے 100 سے زائد ممالک اس کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔کلسٹر بم، بموں کی ایک ایسی قسم ہے جس کے اندر چھوٹے چھوٹے مزید بم ہوتے ہیں، اس بم کے استعمال سے اس سے نکلنے والے مزید چھوٹے بم وسیع علاقے میں جانی و مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ ایک کلسٹر بم کے اندر 2000 ہزار تک چھوٹے بم موجود ہو سکتے ہیں اس لیے یہ انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں محض ایک کلسٹر بم میلوں پھیلے شہرکو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے اگر اس میں آکسیجن کو ساکت کردینے والا عنصربھی شامل کردیا جائے تو جہاں جہاں ہوا پہنچے کی اس کے تابکاری اثرات موت پھیلاتے چلے جائیں گے اس لحاظ سے کلسٹر بم کا شمارکیمیائی ہتھیاروںمیں بھی کیاجاسکتاہے تاریخ بتاتی ہے کہ کلسٹر بموں کا استعمال 1940 ء کی دہائی میں شروع ہوا اور عام شہری آبادی نے اس مہلک بارود کے استعمال کی قیمت چکائی اور ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے حالانکہ یہ کلسٹر بم ابتدائی شکل میں کم طاقتور تھے جس سے اس کی خوفناک تباہی کا اندزہ لگایا جاسکتاہے جس پرانٹرنیشنل ریڈ کراس نے بے گناہوں کے اس بھاری جانی نقصان پر بارہا تشویش کا اظہار کیا اور 2000 میں اقوام عالم سے یہ سفاکی روکنے اور اس سلسلے میں بات چیت کی اپیل کی۔ تقریباً 7 سال بعد ناروے نے کلسٹر بموں کا استعمال روکنے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اسے ‘اوسلو پراسس’ کا نام دیا گیا۔ اس کوشش کا مقصد مہلک ہتھیار کی تیاری، منتقلی اور استعمال روکنے کے لیے بین الاقوامی معاہدہ کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے لیما، ویانا، ویلنگٹن اور مختلف براعظموں میں علاقائی اجلاسوں کے بعد 3 مئی 2008 ء کو جرمنی کے شہر ڈبلن میں ‘کنونشن آن کلسٹر امیونیشنز’ منظور ہوا۔ اس کانفرنس میں 100 سے زائد ممالک نے شرکت کی تھی مگریقین سے کہاجاسکتاہے کہ انسانیت کو صرف کلسٹر بم سے ہی خطرہ نہیں بلکہ ہر مہلک ہتھیار بھی خطرناک ہے اس لیے پوری دنیاکو مہلک ہتھیاروں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ا قوام ِ متحدہ فوری طور پر نئے نئے ہتھیار بنانے پر پابندی لگانے کااعلان کرے انسانوںکے امن وسکون کے لیے دنیا کو ہتھیارفری قرار دینا ہی مسئلہ کااصل حل ہے لیکن کہاجاتاہے کہ یہ بڑی عالمی طاقتوں کی مرضی ہے کہ وہ کب اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کرگذرے اس لیے عالمی طاقتوںکی بدمعاشی سے (جیسے جارحیت کا نام بھی دیا جاسکتاہے) انسانیت کو انتہائی خطرہ ہے خوفناک بات یہ ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں کسی معاہدے کااحترام نہیں کرتیں اور اس سے ھی بڑی خوفناک بات یہ ہے کہ اقوام ِ متحدہ ان عالمی طاقتوںکے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے جب عراق میں صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹاگیاتو امریکہ نے الزام لگایا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیارہیں حالانکہ صدر صدام حسین نے اس سے کئی بارانکارکیالیکن اتحادی ممالک نے ایک نہ سنی جب انہوںنے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بم برسا برساکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجاکر اسے کھنڈر بنادیا تو پینٹاگون نے ایک پھسپھسا سابیان دیا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیارنہیں ملے ایک بے بنیاد الزام لگاکر ایک کروڑ سے زائد عراقی شہریوںکو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا ان میں سے جو زندہ ہیں وہ روزانہ موت کی آرزو کرتے ہیں۔ شام،عراق، افغانستان،فلسطین،مقبوضہ کشمیر،بوسینیا،برما،چیچنیا ،بھارت،چین کی مسلم آبادی میں ظلم و بربریت کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے گئے ایک کلسٹر بم پر ہی موقوف نہیں عام ہتھیاروںکو مہلک بناکرجو ستم روا رکھا گیاہے اس کی نظیرنہیں ملتی حقیقت یہ ہے کہ مہلک ہتھیاروں کی ایجادات، پھیلائو اور پابندی عالمی طاقتوںکی خواہشات پرمشتمل ایجنڈے کا نام ہے للتاہے مسلمان حکمران پتلی تماشا دیکھتے دیکھتے سوگئے ہیں اس صورت ِ حال کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلم ممالک میں اتحاد انتہائی ضروری بلکہ ناگزیرہے اسلامک بلاک ہی انپے مفادات کا تحفظ کرسکتاہے ورنہ اسلامی دنیا یونہی یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی رہے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر