... loading ...
(مہمان کالم)
جرمی سوری
اپنی پوری تاریخ میں امریکا چھوٹی سی امن فوج کے ساتھ ایک عظیم ملک رہا ہے مگر دوسری جنگ عظیم نے یہ سب کچھ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ امریکی لیڈروں نے سوچا کہ نئی عالمی ذمہ داریوں سے نبرد ا?زما ہونے کے لیے انہیں ایک بڑی امن فوج کی ضرورت ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہوں اور دنیا بھر میں اس کے فوجی اڈوں کا نیٹ ورک بھی ہونا چاہئے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک بڑی عسکری قوت کے ساتھ مزید عالمی جنگوں سے بچا جا سکتا ہے، دشمنوں کو ڈرایا جا سکتا ہے اور دوسرے ممالک کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے کہ وہ ہماری خواہشات کا احترام کریں۔ مگر اس عسکری برتری سے شاید ہی کبھی مطلوبہ فوائد مل سکے ہوں۔ 20 سال کی انتھک کوششوں اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکی سرپرستی میں چلنے والی افغان حکومت کا خاتمہ وہ تازہ ترین جھٹکا ہے جو ہمیں اپنے طویل بیانیے کی ناکامی کی صورت میں لگا ہے۔ افغان جنگ محض ایک ناکام مداخلت ہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا کھلا ثبوت بھی ہے کہ ہماری عالمی عسکری بالادستی امریکی مفادات کے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ اس عسکری بالادستی سے ہمیں فتح کم اور شکست کا سامنا زیادہ کرنا پڑا ہے بلکہ یہ اندرونی اور بیرونی طور پر ہماری جمہوری اقدار کے لیے بھی نہایت مضر ثابت ہوئی ہے۔
تاریخ تو بڑی واضح ہے۔ طے شدہ اور محدود عسکری اور تزویراتی اہداف امریکا کے لیے زیادہ مفید ہوں گے۔ اب امریکی رائے عامہ بھی اس سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ اپنی عسکری بالادستی کی خواہش کا ایک بار نئے سرے سے جائزہ لے۔ عسکری بالادستی کی پالیسی کی وجہ سے امریکا بار بار دور افتادہ، طویل اور مہنگے تنازعات میں الجھتا رہا ہے جس کے نتائج ہمیشہ شکست کی صورت میں ہی برا?مد ہوئے ہیں۔ ویتنام کی جنگ ہو یا لبنان، عراق، افغانستان یا کسی اور ملک کی جنگ‘ امریکی قیادت اکثر یہ مفروضہ قائم کر لیتی ہے کہ سیاسی اور سفارتی پابندیوں کا ازالہ عسکری بالادستی سے ہی ممکن ہے۔ محاذِ جنگ کی کامیابیوں کے باوجود امریکی فوج اکثر اپنے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
اپنی عسکری قوت کے غلط تخمینوں کی وجہ سے ہی صدر ہیری ٹرومین کو یہ شہ ملی تھی کہ وہ اپنی فوج کو کورین جنگ میں شمالی کوریا کی سرحد عبور کر کے چین کی سرحد تک جانے کا حکم دیں۔ انہیں امید تھی کہ امریکی فوجی ایک مرتبہ پھر جزیرہ نما کوریا کو متحد کر سکتے ہیں مگر یہ مداخلت چین کے ساتھ ایک بڑی جنگ اور تنازع میں تبدیل ہو گئی۔ امریکا کے جزیرہ نما کوریا میں فوج متعین کرنے کے 70 سال بعد صورتحال یہ ہے کہ شمالی کوریا کی کمیونسٹ حکومت پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ہے۔ ویتنام کی جنگ میں صدر لنڈن بی جانسن کے اردگرد موجود بہترین اور روشن دماغ مشیروں نے مشورہ دیا تھا کہ امریکا کی بے تحاشا قوت بغاوت کو کچل دے گی اور کمیونزم مخالف حکومت کا دفاع مضبوط ہو گا مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔ امریکی عسکری مداخلت نے بغاوت کی چنگاری کو ہوا دی اور جنوبی ویتنام کا امریکا پر انحصار مزید بڑھ گیا۔ 1975ئ میں شمالی ویتنام کے حملے کے بعد امریکا کی تربیت یافتہ حلیف فوج کو بھی اسی طرح ہزیمت اٹھانا پڑی جس طرح اس موسم گرما میں افغانستان میں امریکی فوج کو شکست ہوئی ہے۔ اس میں فوجیوں کا کوئی قصور نہیں تھا۔ مشن میں خرابی تھی۔ موثر سرکاری اداروں اور نمائندوں کے قیام کے لیے جو محنت درکار ہوتی ہے‘ عسکری قوت اس کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ مستحکم معاشرے کو ہمیشہ پْرامن تجارت، تعلیم اور شہریوں کی شرکت جیسی مضبوط بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر فوج کی موجودگی سیاسی پیش رفت کو نقصان پہنچاتی ہے، سماجی ترقی کے بجائے اس کا رخ عسکری اور پولیس کی طاقت کی طرف موڑ دیتی ہے۔
فوجی مداخلت کے ہمیشہ وہاں بہتر نتائج ملے ہیں جہاں سرکاری ادارے موجود ہوں‘ جیسا کہ جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں دیکھنے میں ا?یا۔ امریکی لیڈرز نے مسلح افواج پر بہت زیادہ انحصار کیا کیونکہ ایک تو اس کا حجم بہت زیادہ ہے‘ دوسرا یہ کہ اسے کسی جگہ بھی تعینات کرنا نہایت ا?سان ہے۔ اتنی بڑی فوج بنانے کا یہی مسئلہ ہوتا ہے۔ امریکی فوج کا سالانہ بجٹ 700 ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ ہم اسے کسی بہتر متبادل کے بجائے فوج پر ہی خرچ کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بیرونِ ملک مقامی حکومتوں کے ایڈمنسٹریٹرز کی تربیت کا مسئلہ ہو تو امریکی فوج ہی سامنے آتی ہے۔ دیگر ایجنسیوں کے پاس اتنی صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہوتی۔ ہمیں جہاں سویلینز کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہم وہاں فوجی بھیج دیتے ہیں کیونکہ فوجیوں کو وسائل مل جاتے ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت اور بھی بدتر صورت اختیار کر جاتا ہے جب فوج کانگرس سے مزید رقم کے حصول کے لیے لابنگ پر بھاری اخراجات کرتی ہے۔
ملک کے اندر فوج کی طاقت اور تعداد بڑھانے کا مطب یہ ہے کہ امریکی معاشرہ اور زیادہ عسکریت زدہ ہو چکا ہے۔ پولیس کے شعبوں کو ا?ج کل فوجی ہتھیاروں سے لیس کیا جا رہا ہے، کئی دفعہ تو پولیس کے پاس فوج سے بھی زیادہ ہتھیار ہوتے ہیں۔ سابق فوجی متشدد انتہاپسند گروپوں کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں‘ گزشتہ عشرے کے دوران ایسے کیسز میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ 10 فیصد سے بھی کم امریکی شہریوں نے فوج میں سروس کی ہے مگر جن مظاہرین نے 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر حملہ کیا تھا‘ ان میں سے 12 فیصد سابق امریکی فوجی تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی فوج ہمارے معاشرے کے محب وطن اور بہترین پیشہ ور لوگوں پر مشتمل ہے۔ مشکل اس وقت ہوتی ہے کہ اس کا حجم کتنا بڑھ چکا ہے اور اس کا کس قدر غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکی شہریوں کو اس کے بارے میں دیانتدارانہ رائے رکھنی چاہئے کہ امریکی فوج کیا کچھ نہیں کر سکتی۔ ہمیں اپنے وسائل ان اداروں اور ایجنسیوں پر صرف کرنے چاہئیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک مزید خوشحال اور محفوظ بن جائے۔ ہمیں اسی وقت بہت زیادہ فائدہ ہو گا جب ہم ایک چھوٹی سی امن فوج رکھنے والے ایک عظیم ملک کی طرح تاریخ سے دوبارہ رجوع کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔