وجود

... loading ...

وجود

سیاسی پناہ کی متلاشی افغان اشرافیہ

جمعه 03 ستمبر 2021 سیاسی پناہ کی متلاشی افغان اشرافیہ

افتخارگیلانی
ایک دہائی قبل مغربی ملک کے ایک نشریاتی ادارے کی طرف سے صحافیوں کے لیے ایک تربیتی کورس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ پہلے ہی دن دیکھا کہ وسیع و عریض بلڈنگ کے استقبالیہ کائونٹر سے متصل ایک عارضی اسٹوڈیو میں ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک پاکستانی خاتون انٹرویو دے رہی ہے۔ معلوم ہو اکہ اس خاتون نے سیاسی پناہ حاصل کی ہے، کیونکہ اس کے ساتھ بقول اس کے پاکستان میں بہت ظلم ہو رہا تھا۔ اس خاتون کا استدلال تھا کہ پاکستان میں اسکو اسکے پسند کا کھانا یعنی پورک (خنزیرکا گوشت) کھانے نہیں دیا جا رہا تھا۔ اس لیے اسکو مغربی ملک میں پناہ لینی پڑی۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور دیگر ممالک کی ٹی وی و صحافیوں کی ٹیمیں آکر اسکا انٹرویو کرکے دانتوں میں انگلیاں دباتے تھے ، کہ اس قدر ظالم حکومت و معاشرہ، جو کسی کو اسکی پسند کا کھانا بھی کھانے نہیں دیتا ہے۔ او و مائی گارڈ۔ چند روز بعد ہمارے تربیتی پروگرام میں نشریاتی ادارہ کے ایشیا ڈویڑن کے سربراہ لیکچر دینے کے لیے آئے تو چائے کے وقفہ کے دوران میں نے ان سے کہا کہ میں بھی پناہ کی درخواست دینا چاہتا ہوں، کیونکہ بھارت میں بیف یعنی گائے کے گوشت پر پابندی عائد ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ بھارت تو ایک جمہوری ملک ہے اور اسکا پاکستان کے ساتھ کیا موازنہ، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا کہ کشمیر جو میری جنم بھومی ہے ، میںگائے کو ذبح کرنے پر ہی نہیں بلکہ اسکا گوشت رکھنے پر ہی عمر قید کی سزا ہے اور دہلی جو میری کرم بھومی ہے، جہاں میں کام کر رہا ہوں، پانچ سال کی قید کی سزا ہے۔ 1824میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کشمیر کے گورنر دیوان کرپا رام نے بیف رکھنے پر موت کی سزا تجویز کی تھی اور اس کو عملی جامہ پہنا کر اس دور میںکئی درجن کشمیریوں کو بیف رکھنے کے پاداش میں موت کی نیند سلا یا گیا۔ بعد میں ڈوگرہ حکمرانوں نے رحم دلی کا مظاہر ہ کرکے اس کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ شمالی مشرقی صوبوں اورجنوبی صوبہ کیرالا کو چھوڑ کر باقی پورے بھارت میں بیف پر پابندی عائد ہے اور سخت سزائیں قوانین میں شامل ہیں۔ وہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، مگر جب ہمارے ساتھ آئے ایک مسیحی صحافی نے تصدیق کی، تو ان کو یقین کرنا ہی پڑا۔
اس پوری گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ شام تک استقبالیہ کے پاس عارضی اسٹوڈیو مسمار کیا گیا تھا اور خاتون کے انٹرویو ز کے سلسلہ کو بند کر دیا گیا۔ جب میں دہلی کی تہاڑ جیل میں سرکاری مہمان تھا، تو ایک دن کئی درجن نوجوان سکھ وارڈ میں لائے گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ لوگ روس میں غیر قانونی طور پر مزدوری کا کام کر رہے تھے اورروسی حکومت نے ان کو پکڑ کر بھارت ڈیپورٹ کر کے جہاز میں بٹھایا دیا تھا۔جہاز کا ٹرانزٹ چونکہ ائیرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں تھا، اس لیے ماسکو سے پرواز کرنے کے بعد کسی ساتھی نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ ڈبلن میں سیاسی پناہ کی درخواست دینگے۔ بس کیا تھا کہ جہاز میں ہی جمہوریہ کپورتھلہ کی جلا وطن حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ صدر، وزیر اعظم، وزراء اور کئی کم پایہ کے افراد اراکین پارلیمان مقررہوئے۔ ڈبلن میں جب امیگریشن کائونٹر پر جاکر انہوں نے اعلان کیا کہ جمہوریہ کپورتھلہ کی جلا وطن حکومت سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے آئی ہے، تو وہاں تہلکہ مچ گیا۔ ان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ گیسٹ ہاوس لیجایا گیا او ر مزید کارروائی اور تفتیش کے لیے کیس فارن آفس کے حوالے کردیا گیا۔ 23دن بعد بھارتی حکومت اور ائیر لینڈ کے اپنے سفارت خانہ کا جواب موصول ہوا کہ یہ افراد بھارت میں مطلوبہ ہیں ،نہ انکے خلاف کوئی کیس درج ہے۔ آخر ڈبلن حکومت نے ان کو دوبارہ جہاز پر سوار کرکے بھارت بھیج دیا، جہاں دہلی کے بین الاقوامی ایر پورٹ پر دہلی پولیس ان کے گارڈ آف آنر کے لیے تیار کھڑی تھی۔ پہلے ان کی خوب ٹھکائی کی گئی، بعد میں ان کو عدالت میں پیش کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
اسی طرح پاکستان کے سندھ صوبہ سے تعلق رکھنے والے ایک میاں بیوی نے پریس کلب آف انڈیا میں ایک بار پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے نیپال میں ان کو پکڑ کر ان کے جسم میں کوئی چپ نصب کی ہے، جس کی وجہ سے ان کو اکثر گھوں گھوں کی آوازیں آتی ہیں۔ وہ بھارت میں سیاسی پناہ کے خواستگار تھے۔ پریس کانفرنس کو کور کرنے کے بعد جب میں آفس پہنچ کر اسٹوری لسٹ کروا رہا تھا، میرے سینیئر رفیق کار شاستری راما چندرن نے کہا کہ ان کے ڈاکٹر سے بھی رابطہ کیا جائے، تاکہ اس چپ کے بارے میں کچھ معلومات مل جائیں۔ میں نے اس جوڑے سے دوبارہ رابطہ کرکے ان سے ڈاکٹر کا فون نمبر لے لیا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹراپالو اسپتال میں نیورفزیشن ہیں۔ رابطہ ہونے پر اور اس جوڑے سے متعلق اور چپ کے بارے میں جونہی ان سے استفسار کیا ، تو وہ خوب برس پڑے اور سبھی صحافیوں کو گالیوں سے نوازا کہ دماغی مریض سے ہمدردی جتانے کے بجائے اسکی پریس کانفرنس کرواکے اسکا بھارت اور پاکستان کے درمیان تماشہ بنوا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ، جو بھی صحافی اس پریس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں، ان کو خود کا دماغی علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ مختصراً کہ یہ دونوں میاں بیوی بعد میں صحت یاب ہوگئے اور واپس پاکستان چلے گئے، جہاں وہ اب خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر