... loading ...
تقویٰ وپرہیز گاری پر درس جاری تھا تمام سامعین ہمہ تن گوش تھے خاتم النبین پیارے آقاؐ کی حیاتِ طیبہ کے واقعات سے وضاحت کی جارہی تھی، صحابہ اکرامؓ کے طرزِ زندگی سے بھی حوالے دیے جارہے تھے ، تقویٰ و پرہیز گاری کے بدلے سنائی گئی انعام کی نوید کا بھی تذکرہ ہورہا تھا، سامعین کی کثیر تعداد ایسے خاموش تھی جیسے سکتہ طاری ہو، پیارے آقاؐ اور صحابہ ؓ کے واقعات سُنتے ہوئے اکثر آنکھیں وقفے وقفے سے اشک بارہورہی تھیں۔ یہ سسکیاں ہی سکوت توڑنے کا باعث تھیں۔ کچھ دیر بعد درس وخطاب ختم ہوا توسامعین کو سوال پوچھنے کی عام اجازت دی گئی، میں نے بھی کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ بھیجا کہ حضرت یہ تو بتایئے کہ اگر جاننا ہو کہ اللہ راضی ہے یا ناراض ہے تو یہ کیسے معلوم کر سکتے ہیں؟ ہلکے سے تبسم کے ساتھ جواب ملا کہ یہ تو سب سے آسان ہے ، کسی میں دولت و اختیار سے غروروتکبر آجائے اور اُس کے شر سے لوگ پناہ مانگنے لگیں تو سمجھ جائیں اللہ ناراض ہے اگر کوئی عاجزی و انکساری کا پیکر ہے بھلے غریب ہی کیوں نہ ہو ،ا اللہ کی مخلوق سے اپنائیت روارکھے تو سمجھ جایئے ، اللہ راضی ہے اللہ کی طرف سے رکوع و سجود کی توفیق ہو اور زندگی اللہ اور اُس کے رسولؐ کے بتائے طریقہ کے مطابق گزارتا ہو تویہ متقی و پرہیز گار ہونے کا ثبوت ہوگا قیامت کے روز ایسے لوگ ہی کامیاب اور جنت کے حقدار ہوں گے۔
اہم عہدوں پر فائز شخصیات میں نخوت و تکبر دیکھ کر دل سے استغفارکی صدا بلند ہونے لگتی ہے اللہ تو دولت ،اختیاراورمرتبہ دیکر آزماتا ہے اولاد کوبھی فتنہ قراردیا گیا ہے مخلوق ِ خداسے صلہ رحمی کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت ہے پھر یہ کون لوگ ہیں جو اپنے جیسے انسانوں سے کتراتے ، غریب اور کمزور کو دھتکارتے اور فیصلے لکھتے ہوئے ناانصافی کرتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ سانسیں رُکنے کے بعد قبرمیں جا کر حساب کتا ب دینا ہے جہاں مرتبہ ،دولت ،اولاد اور اختیار سب ساتھ چھوڑ جائیں گے پھر غرور وتکبر کس چیز کا؟میٹھے بول میں جادو ہے تو اخلاق سے بات کی بجائے کِس برتے گرجتے برستے ہیں خاموش رہنے سے پتہ نہیں چلتا کہ کون کیا ہے؟ مگر لب کشائی کرتے ہی تعلیم و تربیت آشکار ہو تی ہے، حسب نسب کیساہے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہتا تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اچھی یادیں چھوڑ کر جائیں تاکہ دنیا سے جانے کے بعد بُرے القابات دینے کی بجائے لوگ اچھے الفاظ میں یاد کریں۔
کمشنر کا منصب معمولی نہیں بڑا بااختیار عہدہ ہے بڑی تعداد میںہٹو بچو کی صدالگانے والے ماتحت ہوتے ہیں کام نہ بھی کیا جائے تو بھی تعریف وخوشامد سُننے کو ملتی ہے مگر یاد رکھیں مرتبے اور اختیار کے دوران ہونے والی تعریف و توصیف میں اخلاص یا حقیقت نہیں ہوتی زیادہ تر لوگ مطلب حاصل کرنے کے لیے تعریفی کلمات کا سہارہ لیتے ہیں ابھی گزشتہ دنوں کمشنر گوجرانوالہ کا ایک قیمتی کتاکیا گم ہواکہ سارے شہر کی شامت آگئی گلی گلی ہرکارے چرایا کتا واپس کرنے وگرنہ برآمدگی کی صورت میں قصوروار ٹھہراکرسخت سزادینے کے اعلانات کر رہے تھے، ہرچھوٹے بڑے سرکاری اہلکارپرکتے کی تلاش کادبائو تھا ،تمام چھوٹے بڑے آفیسر دفتری کام کاج چھوڑ کرصاحب سے شاباش لینے کے لیے کتے کی تلاش میں ہلکان تھے، کمشنر کی طرف سے بھی سخت احکامات تھے کہ کتا تلاش کر و وگرنہ تمھاری خیر نہیں ایک کتے کی تلاش میں سینکڑوں انسان گلیوں ،سڑکوں اور چوراہوں کی خاک چھاننے پر مجبور تھے ۔ یہ متکبرانہ انداز رتبے اور اختیار کی صریحاََ توہین تھی غروروتکبر کا غلیظ مظاہرہ تھامگر عاجزی و انکساری اور اخلاق کے متضادکروفروالا رویہ اپنایا گیا شہریوں کی جان تب چھوٹی جب ایک گلی میں کوڑے کے ڈھیر پر منہ مارتا کتا مل گیا جسے پکڑ کر سرکاری کارندوں نے بڑی عزت و احترام سے کمشنر ہائوس پہنچایا انعام کی آرزو تو پوری نہ ہوئی الٹا سب کوسخت سُست کہتے ہوئے جھڑک کر بھگا دیاگیا ۔کمشنر کی دانست میںتمام ماتحت نکمے اور کام چور ہیں جنھوں نے کتا تلاش کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کی یہ اطوار دیکھ کرمجھے اللہ کے راضی یا ناراض ہونے کے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب یا د آگیا۔
ہواکچھ یوں تھا کہ کتا کسی نے چرایا نہیں تھا بلکہ کمشنر کے گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر بے زبان جانور سڑک پر آگیااور چلتے چلتے گھر سے کافی دور نکل گیا، یہ کاٹنے والا کوئی تند خو گوشت خور کتا تو تھا نہیں جس سے لوگ ڈرتے بلکہ یہ توانسانوں سے مانوس سدھایا ہواکتا تھا جس نے بھی پیار کیا یہ دُم ہلاتے ہوئے اُسی کے پیچھے چلنے لگا جسے آوارہ جان کر کچھ بچوں نے گلے میں رسی ڈال کر کھیلنا شروع کردیا۔ کھلاتے اور ہانکتے شب وروز گزرنے لگے جب شہر میں اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا نیز یہ اعلانات میڈیا کی زینت بھی بننے لگے تو بچے خوفزدہ ہو گئے اور کتے کو سڑک پر کُھلاچھوڑ دیا جسے سرکاری کارندوں نے پہچان کر پکڑلیا اور گمشدہ کتا بازیاب ہونے کی نوید کمشنر کے گھرجاسنائی تاکہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے والے ذوالفقار گھمن کو کچھ راحت ملے ۔یہ واقعہ بیوروکریسی کے بدترین مائنڈ سیٹ کا عکاس ہے کیا اعلیٰ عہدوں پر براجمان ذہنی لحاظ سے اِتنے پست ہیں کہ ایک کتے کی تلاش کو تمام سرکاری کاموں پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ غرورو تکبر کا ایسا مظاہرہ ہے جسے ترک نہ کیا گیا تو سسکتی ،بلکتی اور تڑپتی انسانیت کے ہاتھوں سے مرتبے واختیار کی تذلیل ہو سکتی ہے، یادرہے ظلم و ناانصافی سے ہی انقلاب کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
جاہ و جلال سدابہار نہیں ہوتا، ہر عروج کو زوال بھی آتا ہے، آفیسروں نے ہمیشہ اختیار نہیں رہناملازمت سے سبکدوشی کا مرحلہ بھی آتا ہے جس کے بعد مغرور لوگ انتہائی بے بسی و لاچارگی کی زندگی بسر کرتے ہیں ،کوئی ملنے نہیں آتالوگ نفرت سے دور بھاگتے اور تنہائی مقدر بنتی ہے پھر یادوں پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اولاد بھی اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوجاتی ہے اور بابا جی پنشن لانے اور اپنے جیسے بے مصرف اور غیر اہم لوگوں تک محدود ہوکررہ جاتے ہیں ،تعر یف و توصیف سُننے کو کان تر س جاتے ہیں لیکن ایک آدھ ملازم کے سوا کوئی جی جی کرنے کو موجود نہیں ہوتا ،یہ جو کمشنر کے آس پاس خواتین کے کاروبار سے وابستہ لوگ جی حضوری کے لیے آجکل صبح و شام چکر لگاتے ہیں ،وہ بھی ریٹائر منٹ کے بعد منہ نہیں لگاتے بلکہ ایسے گم ہوتے ہیں کہ تلاش کے باوجود میسر نہیں آتے اور بلاوے کے باوجود ملنے سے کتراتے ہیں۔ ذوالفقار گھمن بھی دو تین ماہ تک عہدہ سے سبکدوش ہونے والے ہیں تو کیا بہتر نہیں کہ عاجزی و انکساری سے ملیں، سائلین کی تضحیک کے بجائے دلجوئی کریں، تقویٰ وپرہیزگاری سے آخرت سنوارنے پر دھیان دیں ۔ زندگی کیسے گزرانی ہے کسی سے کچھ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں، قرآن و حدیث کی صورت میں مکمل ضابطہ حیات موجودہے۔ یہ رشوت ستانی ،ظلم و جبر اور ناانصافی دنیا و آخرت میں رسوائی کا سامان اور خسارے کاڈھیر ہے ۔ دستیاب وقت کو نیک کاموں کے بجائے نفسانی خواہشات کی نذر کرنا اللہ کی ناراضگی ہے ۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے رکوع و سجود کی توفیق سے نوازتا ہے مگر غروروتکبر اللہ کی ناراضگی ہے ۔ فرعون،نمرود اور شداد جیسے لوگ غروروتکبر کی وجہ سے ہی عبرتناک انجام سے دوچارہوئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭