... loading ...
(مہمان کالم)
مشیل گولڈ برگ
2019ء میں اتحادی افواج اور افغان فضائیہ نے افغانستان میں حملوں میں 700 سے زائد سویلین کو ہلاک کیا تھا۔ نائن الیون حملوں کے بعد انسانی جانوں کے ضیاع پر کام کرنے والے Costs of War Project گروپ کے مطابق‘ جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے، یہ ایک سال میں مرنے والے سویلین لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔2020 ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امریکی فوج کے انخلا کا معاہدہ کیا تو امریکی اور اتحادی فضائی حملوں میں کمی ا? گئی مگر افغان فضائیہ کے حملوں میں اضافہ ہو گیا۔
بوسٹن یونیورسٹی کی شعبہ پولیٹکل سائنس کی سربراہ نیٹا کرافورڈ کے مطابق ’’چنانچہ افغان فضائیہ نے افغان سول آبادی کوجتنا نقصان پہنچایا‘ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی‘‘۔ میں مرنے والے ان سویلین لوگوں کے پس منظرکے بارے میں تو اتنا کچھ نہیں جانتی مگر 17 سالہ ذکی انوری کو اچھی طرح جانتی ہوں جو افغانستان کی قومی یوتھ ٹیم کا رکن تھا۔ وہ کابل سے امریکی فوجیوں کو نکالنے والے فوجی ہوائی جہاز کے ساتھ لٹکا ہوا تھا اور گر کر موت کے منہ میں چلا گیا۔ ان ہلاکتوں کے جتنے مرنے والے افغان نوجوان خود ذمہ دار ہیں‘ اتنا ہی امریکا بھی ذمہ دار ہے جس نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر اپنی فوج افغانستان سے نکالنا شروع کر دی تھیں۔ اس جنگ کے دلخراش مناظر پر مبنی انجام کو فراموش کرنا بہت آسان ہے جبکہ تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہوں کہ یہ جنگ جو صدر بائیڈن کو ورثے میں ملی تھی‘ اسے تھوڑی بہت قیمت دے کر جاری رکھا جا سکتا تھا۔ صدر بائیڈن کی افغان پالیسی پر دو طرح کی تنقید ہو رہی ہے۔ پہلی تنقید‘ جو مناسب بھی لگتی ہے وہ یہ الزام ہے کہ امریکی حکومت نے ان سرکاری رکاوٹوں کو دور نہیں کیا تھا جو افغان اتحادیوں کو ویزا جاری کرنے کی راہ میں حائل رہیں۔ ایسے ہزاروں افغان شہری مارے مارے پھرتے رہے جو فوری انخلا کے مستحق تھے۔ دوسری تنقید یہ بھونڈا الزام ہے کہ صدر جو بائیڈن کو افغان جنگ میں شکست ہوئی ہے حالانکہ ہم یہ جنگ کئی سال پہلے ہی ہار چکے تھے۔
صدر بارک اوباما کے دور میں افغانستان میں امریکی سفیر ریان کراکر نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے ’’تزویراتی صبر کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے تھا۔ صدر بائیڈن کے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے فیصلے نے ایک قابل قبول ’’سٹیٹس کو‘‘ کو تباہ کر دیا ہے جسے کم سے کم جانی اور مالی نقصان کے بدلے میں طویل عرصے تک جاری رکھا جا سکتا تھا‘‘۔ سابق وزیر خارجہ کنڈو لیزا رائس نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے ’’طالبان کے ساتویں صدی کے طرز حکمرانی اور تیس سالہ خانہ جنگی سے ایک مستحکم حکومت تک کے سفر کی تکمیل کے لیے 20 سال کافی نہیں تھے۔ ہمیں مزید وقت درکار تھا‘‘۔ صبر اور مزید وقت کی دلیل سے ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں امریکی موجودگی سے نقصان کے بجائے فائدہ زیادہ ہو رہا تھا۔ کئی افغانوں‘ کے لیے یہ بات بلاشبہ درست ہو گی۔ شاید امریکی فوج کا ایک دستہ افغانستان میں رکھ کر ان لوگوں کی بخوبی حفاظت کی جا سکتی تھی جنہیں طالبان سے نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔
افغانستان میں مزید رکنے کے لیے صدر جو بائیڈن کو طالبان کے ساتھ انخلا کے لیے ہونے والے معاہدے سے دستبردار ہونا پڑتا۔ مزید امریکی فوجی وہاں بھیجنا پڑتے۔ امریکی فضائی حملوں سمیت وہاں لڑائی میں اضافہ ہو جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ مزید سویلین لوگ مرتے اور مشکلات کا شکار ہوتے۔ کرافورڈ نے مجھے بتایا تھا کہ افغانستان میں یو این اسسٹینس مشن نے سویلین ہلاکتوں کے بارے میں ڈیٹا 2008ء میں جاری کرنا شروع کیا تھا۔ زیادہ تر سویلین اموات کے ذمہ دار داعش اور عسکری گروہوں کے جنگجو تھے مگر ہر سال نہیں۔ اس نے مزید بتایا ’’ہم نے مجموعی طور پر یہ دیکھا تھا کہ ان سویلین لوگوں کی تعداد بڑھی تھی جنہیں 2008ء کے بعد قتل کیا گیا تھا‘‘۔2020 میں 3000 سویلین لوگ مارے گئے تھے اور طالبان کے افغانستان پر قبضے سے پہلے بھی صورتحال ابتری کی طرف رواں تھی۔ اب چونکہ اقتدار کی باگ ڈور طالبان کے ہاتھ میں ہے‘ اس لیے ان ہلاکتوں میں کمی آ گئی ہے۔ افغان نیشنل فورسزکی مکمل تباہی یا انخلا کے بعد میں سوچتی ہوں کہ ہم جس راہ پر گامزن تھے‘ اس کی منزل تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ ان میں سے بعض علاقوں کے لوگ محض زمین کے کسی ٹکڑے کے لیے نہیں لڑنا چاہیں گے؛ چنانچہ فضائی حملے نہیں ہوں گے جن میں زیادہ تر لوگ مرتے ہیں۔
جیسا کہ صحافی عظمت خان نے اپنے ٹویٹر پر لکھا ہے ’’دیہاتی محاذ جنگ پر کئی نوجوانوں نے اپنی زندگی میں امریکی بمباری، طالبان حملوں، رات کو افغان فورسز کے چھاپوں اور اغوا کے بغیر کوئی جنگ دیکھی ہی نہیں‘‘۔ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ اب کئی نوجوان محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں ایک مرتبہ خود بھی اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر کسی افغان کی اوسط زندگی میں کوئی بہتری آئی ہوتی تو شاید افغانستان میں امریکی غارت گری کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا تھا۔ مگر ہمیں تو اکثر یہی احساس ہوتا ہے کہ عام افغان شہری کی زندگی پہلے سے بھی اجیرن ہوگئی ہے۔ ا سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن کی ایک تازہ رپورٹ میں افغانستان میں امریکی کوششوں کی ایک گمبھیر تصویر پیش کی گئی ہے۔ ’’امریکی حکام اکثر اختیارات اْن پاور بروکرز کو دے دیتے ہیں جو عام افغانوں پر ظلم و ستم روا رکھتے ہیں یا امریکی امداد کا رخ حقیقی مستحقین کے بجائے اپنے یا اپنے اتحادیوں کی طرف موڑ دیتے ہیں تاکہ دولت بھی جمع ہو جائے اور حکومت کے مزے بھی لوٹ لیں‘‘۔
معلومات کے فقدان کی وجہ سے مقامی سطح پر جن پروجیکٹس لگانے کا مقصد جنگ کی شدت کو کم کرنا تھا‘ وہ جنگ کی شدت میں اضافے کا باعث بن گئے۔ بعض دفعہ تو نادانستہ دہشت گردوں کو بھی فنڈز مل گئے۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا طویل عرصے تک افغانستان میں رہ کر ایسی شکست کھانے سے بچ سکتا تھا‘ ان کے بارے میں کرافورڈ کا کہنا ہے ’’یہاں زیادہ تر گفتگو میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سویلین لوگوں کی حالت زار کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ کابل کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ یقینا کابل پر طالبان کے قبضے سے سویلین کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور بعض نوجوان یہ سمجھیں گے کہ وہ ایک اچھے مستقبل سے محروم ہو گئے ہیں۔ افغانستان سے نکلنے کا کوئی بھی طریقہ اتنا موزوں اور شائستہ نہیں تھا اسی لیے ہم 20 سال تک ایک بے مقصد جنگ لڑنے میں مصروف رہے مگر وہاں رکنے کے لیے بھی کوئی شائستہ طریقہ اور جواز نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔