... loading ...
آج ہی کے اخبارات میں چھپی دو خبریں دراصل غربت کی سولی پر لٹکی وہ ان کہی کہانیاں ہیں جنہیں پڑھ کرآپ لرز اٹھیں گے یہ واقعات غریبوں کے حالات کے عکاس بھی ہیں اور ہمارے خوشنما چہروں پروہ نقاب بھی جسے نوچ لیا جائے تو ریاست ِ مدینہ بنانے کا دھنڈورا پیٹنے والوںکے دعوئوں کی قلعی کھل جائے۔ا س لیے آج کا کالم میرے اندر کے دکھ ہیں، اسے حالات کی ستم ظریفی بھی کہاجاسکتاہے شنیدہے ریاست ماں ہوتی ہے تو پھریہ ایک ماںکی آنکھوں میں روتے ہوئے آنسوہیں جو کئی سالوںسے بیکارجارہے ہیں اور کوئی ماںکے آنسوئوںکی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کرتا پہلی خبرکہانی کے مطابق گوجرانوالہ میں پولیس نے ایک ڈاکو کو گرفتارکرلیا اس سے لوٹی ہوئی رقم بھی برآمد کرلی گئی کچھ گھنٹے بعد ایک خاتون پانچ بچوں کے ساتھ تھانے میں داخل ہوئی اہلکار حیرانگی سے اسے تکنے لگے ایک سپاہی نے پوچھا بی بی تمہارا کیا مسئلہ ہے ؟ خاتون کوئی جوا ب دئیے بغیر فرش پر بیٹھ گئی روتے ہوئے کہنے لگی میں اس ڈاکو کی بیوی اور یہ ان کے پانچ بچے ہیں جسے آپ نے پکڑرکھاہے ہم ملزم کو چھڑانے نہیں آئے بلکہ ان کے ساتھ ہمیں بھی جیل بھیج دیں، کم از کم ان پانچ بچوں کو کھانا تو مل جائے گا۔
خاتون نے کہا ان کے گھر میں کئی دن سے فاقے ہیں، تین ماہ کا کرایہ نہ دینے کی وجہ سے اب مالک مکان نے گھرسے نکالنے کی آخری وارننگ دے رکھی ہے، جس کے بعد ہمارے سروں پر چھت بھی نہیں رہے گی جیل میں کم از کم چھت تو ہوگی پتہ چلا کہ ملزم کافی عرصے سے دہی بھلے کی ریڑھی لگا رہا تھا مگر جب سے کورونا وائرس کی وبا ء شروع ہوئی تو پولیس سڑک پر ریڑھی نہیں لگانے دیتی تھی اس طرح اس کا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ملزم نے چھپ کر گلی کوچوں میں ریڑھی لگائی مگر اس سے روزانہ سو، دو سو روپے ہی بچ پاتے تھے، جس سے مکان کا کرایہ اور دیگر اخراجات پورے ہونا مشکل ہو گئے۔ پھر اسے وہ کچھ کرنا پڑا جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا پولیس نے خاتون کو تسلی دے کر گھر بھیج دیا. پھر علاقے کے لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ خاتون کی باتوں میں سچائی ہے۔ پولیس نے ملزم کے گھر والوں کی مدد کا فیصلہ کیا. سول لائنز پولیس کے تمام اہل کاروں اور افسروں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالا۔ چند پولیس والے ملزم کے گھر پہنچے اور جمع ہونے والی رقم اس کی بیوی کو پکڑادی، جس سے تین ماہ کے کرائے کے علاوہ کچھ عرصے کے لیے دوسری ضرورتیں بھی پوری ہوجائیں گی ملزم کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ اس پر اسے شدید حیرت ہوئی اور وہ پولیس کا یہ رویہ دیکھ کر رو پڑی۔ یہ خوشی کے آنسوتھے یہ خبر پڑھ کر پولیس کے رویہ بارے خوشگوار حیرت ہوئی یعنی کہ تبدیلی آرہی ہے۔ دوسری خبر انتہائی دل خراش اور افسوس ناک ہے کاش ایسانہ ہوتا۔۔کاش ہم اپنے ارد گردکے پڑوسیوںکے حالات سے باخبرہو جائیں تو معاشرے میں ایسے واقعات ہی رونما نہ ہوں سوچتاہوں اس واقعہ سے پہلے خدایا یہ زمین پھٹ کیوں نہیں گئی ؟ یقین جا نئے میری آنکھوں میں آنسو تو ہیں لگتا ہے یہ دردناک واقعہ لکھتے ہوئے قلم بھی رورہاہوگا
منڈی فیض آباد ضلع ننکانہ صاحب کے نواحی گاوں سلیم پور کچہ میں فیاض احمد آرائیں اپنی 30 سالہ بیگم سلیم بی بی اور اپنی تین بیٹیوں 5 سالہ رابعہ 3سالہ مسکان اور 1.5 سالہ انم کے ساتھ رہایش پذیر تھا فیاض احمد محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا کبھی کسی زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتا تو کبھی منڈی فیض آباد میں جا کر محنت مزدوری کرتا ا دن رات محنت مشقت کے باوجود اس کے اہل و عیال کا گزر بسر مشکل سے ہوتا تھا کرونا وائرس لاک ڈائو ن کی وجہ سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہوئی ان میں ایک سلیم پورہ کچہ کا رہائشی فیاض احمد بھی تھا گھر میں کبھی فاقہ کبھی کوئی روکھی سوکھی, کبھی کام مل گیا کبھی سارا دن بے کار, پریشان, مستقبل کی سوچوں میں گم , کبھی شہر جاتا تو اپنی ننھی مسکان اور انم کیلے گڑیا خریدنے کا دل کرتا لیکن جیب اجازت نہ دیتی تو منہ لٹکا ئے واپس گھر آجاتا لیکن یہاں تو روٹی کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے اس ماحول میں گذشتہ ایک ہفتے سے فیاض احمد کو کوئی خاص کام نہیں مل رہا تھا اوپر آٹا اور ضروری اشیاء بہت مہنگا ہو گئی تھیں کریانے والے نے اب مزید ادھار دینے سے بھی انکارکردیا تو حالات مزیڈ گھمبیر ہوگئے گھر میں ایک وقت روٹی پکتی تو پھر فاقہ آجاتا فیاض احمد اور اسکی بیوی سے بچوں کے فاقے دیکھے نہیں جا رہے تھے 12 جولائی کی شام کو فیاض احمد خالی ہاتھ گھر آیا تو دیکھا کہ 5 سالہ رابعہ چھوٹی روتی بلکتی انم کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی بیوی نے بتایا کہ بھوک سے بچوں کا برا حال ہے پانی پی پی کر بچوںنے گذارا کیا لیکن ٹھوس خوراک کے بغیر بے حال ہوگئے اسی رات دونوں میاں بیوی نے حالات سے دل برداشتہ ہو کر غربت اور غریب ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا یہ فیصلہ ایک خوفناک منصوبہ تھا جس سے دل دہل جائیں اور کلیجہ منہ کو آجائے اگلے روز انہوںنے بچوں کو سیر کرنے کا بہانہ بنا کرانہیں اچھے کپڑے پہنائے کرائے کی موٹر سائیکل پر دونوں میاں بیوی نے بچوں کو ساتھ لیا اور کیو بی لنک نہر کے کنارے موٹرسائیکل کھڑا کیا ماں نے اپنی ڈیڑھ سالہ انم کو خوب پیار کیا باپ نے حسرت بھری نگاہوں سے آخری بار مسکان اور رابعہ کو دیکھا اور اسی لمحے میاں بیوی نے بچوں سمیت کیو بی لنک نہر میں چھلانگ لگا دی ۔ دو دن گزر نے کے باوجود ابھی تک صرف پانچ سالہ رابعہ کی لاش ملی ہے باقی کی لاشیں نہیں مل سکیں .ریسیکو آپریش جاری ہے۔
سوڈان کے ایک خطیب محمد الباقی نے دنیا کا جمعہ کا مختصر ترین خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ بھوکے اور مسکین کے پیٹ میں ایک لقمہ کھانے کا دینا 1000 مسجد کی تعمیر سے کہیں بہتر ہے صفیں درست کر لیں۔
منڈی فیض آباد میں چاول کی بہت منڈی ہے بے شمار چاول کی ملیں ہیں یہاں لاکھوں بوریاں چاول کی تیار ہوتی ہیں جو پوری دنیا میں ایکسپورٹ کیاجاتاہے لیکن کسی حاجی صاحب کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ننھی انم کے گھر ایک بوری چاول کی بھیج سکتا یقینا روز قیامت انم ،مسکان اور را بعہ ہم سب کا گریبان پکڑ کر اللہ سے عرض کریں گی کہ الہی ہم بھوکی تھیں ہم پیاسی تھیں تیرے ان بندوں نے اپنی مسکانوں کی خوشیوں کیلے لاکھوں اڑا دئیے لیکن ہم تک کھانے کا ایک لقمہ نہ دیا اس لیے روز قیامت ایسے ہی ریا کاروں سے اللہ مخاطب ہو گا کہ میں بھوکا تھا مجھے کھانا کیوں نہ دیا؟ اس روز ہم سب اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے ہمارے پاس کیاجواب ہوگا؟ سوائے شرمندگی کے ہمارے دامن میں کچھ نہ ہوگا اللہ ہمیں معاف کرے اگر ہمارے حکمران ’’ دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکامرجائے تو عمرؓ جوابدہ ہوگا‘‘ کا منشور اپنالیںتو کسی مسلم ریاست میں بھوک سے مجبورہوکرکوئی ڈاکوبننے پر مجبورہوگا نہ کسی کو خودکشی کرنے کا خیال آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔