وجود

... loading ...

وجود

ہائے کراچی

جمعه 27 اگست 2021 ہائے کراچی

دوستو،کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے مہنگا شہر اسلام آباد ہے جب کہ سب سے غریب پرور شہر کراچی کو کہاجاتا ہے۔۔ہمارے دوست پپو نے ملک بھر کی سیر کی ہے،تمام بڑے شہروں میں آوارہ گردی کی ہے ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کراچی سے اچھا کوئی شہر نہیں، کراچی میں ایسا کیا ہے کہ اسے غریب پرور شہر کہاجاتا ہے؟
کراچی، دلی کی طرح کئی بار اجڑا، اور بدستور اجاڑا جا رہا ہے۔ گو کہ کراچی کو بجا طور پر منی پاکستان کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ منی پاکستان اس قدر لاوارث ہے کہ اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی کے قدیم باشندوں کی باتیں سنو تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ ہمارا شہر تو پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی سے کمائوپوت رہا ہے، قومی آمدنی میں سب سے زیادہ پیسہ کراچی سے آتا ہے، بقول معاشی تجزیہ کاروں کے کہ، کراچی چلتا ہے تو پاکستان پلتا ہے۔۔اس شہر کی مردم شماری ہی ایمانداری سے نہیں کی گئی تو وسائل کی منصفانہ تقسیم کس طرح ممکن ہے۔ہمارا دعویٰ ہے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے کم نہیں، لیکن 2017کی آخری مردم شماری میں کراچی کی آبادی صرف 14.97ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ظاہر کی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے وفاق سے کراچی کو جو حصہ ملتا ہے وہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے لیے ہی ہوتا ہے، جسے تین کروڑ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ یعنی پانچ افراد اگر ایک وقت کے کھانے میں دس روٹیاں کھاتے ہیں، لیکن روٹیاں صرف پانچ ملیں گی تو ایک فرد کے حصے میں ایک روٹی آئے گی۔ سب ہی بھوکے رہیں گے اور مسائل پیدا ہوں گے۔ اسی لیے کراچی کے شہریوں کو بجلی پوری ملتی ہے، نہ پانی اور نہ گیس۔یہاں کے شہری پینے کا پینے خریدتے ہیں، ویسے ہی جیسے دودھ خریدتے ہیں، سارا سارا دن باہر جان مار کر گھر کو لوٹنے والے طویل راستوں سے ہو کر گزرتے ہیں تو یونہی ان کا سفر اتنا طے ہوجاتا ہے جتنا عموماً ایک سے دوسرے شہر تک کے لیے کوئی کرے۔
یہ وہ شہر ہے جہاں پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں اس غریب پرور شہر میں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہاں کی ہوا مہربان ہے اور یہاں کے مکین کشادہ دل۔ملک میں بڑے خیراتی اداروں کی ابتدا کراچی سے ہوئی۔مولانا ایدھی نے کراچی سے ہی دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا،پھر رمضان چھیپا میدان میں آئے، شہر میں کوئی حادثہ یا واقعہ ہوجائے، دس ایمبولینس موقع پر موجود ہوتی ہیں۔ سیلانی سمیت کئی مخیر اداروں کے دسترخوان روزانہ لاکھوں غریبوں کا پیٹ بھرتے ہیں، تین ٹائم کا کھانا بلاجھجک ان دسترخوانوں پر بغیر کسی روک ٹوک مل جاتا ہے۔رمضان المبارک میں مجال ہے کسی کا روزہ مکروہ ہوجائے، سڑکوں،چوراہوں پر دنیا بھر کی چیزیں افطار میں دستیاب ہوتی ہیںاور نوجوان لڑکے زبردستی افطار کی دعوت دے کر روکتے ہیں۔۔
کراچی میں کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں،جو بسیں،وین یا کوچز چلتی ہیں سب نجی بنیادوں پر۔۔اسی لیے ماضی میں جب بھی کوئی تنظیم ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو سب سے پہلے ٹرانسپورٹرز کو دھمکایاجاتا ہے کہ گاڑیاں سڑکوں پر نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔اعلیٰ عدلیہ نے چنگ چی چلانے کی اجازت بھی دے دی ہے، جس سے جہاں بہت سے لوگوں کو شکایت ہے وہیں یہ سواری اکثریت کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ چنگ چی کے حوالے سے ایک واقعہ بھی سن لیجئے۔۔چنگ چی ایسی سواری ہے جس میں آگے موٹرسائیکل لگی ہوتی ہے پیچھے کیبن نما ڈھانچے میں چھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے، چنگ چی کا ڈرائیور ساتویں سواری کو اپنے پیچھے بٹھالیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوٹ کماسکے۔۔چنگ چی والے گاڑی کو بھگاتے بھی ’’نائٹ رائیڈر‘‘ کی کار کی طرح ہوتے ہیں۔۔اندھادھند تیزرفتاری میں جب وہ کسی کھڈے میں چنگ چی کو مارتے ہیں تو پیچھے بیٹھی سواریوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں، اور کبھی غلطی سے اچانک ڈرائیور بریک ماردے تو پھر ڈرائیور کی ’’چیخ ‘‘ نکل جاتی ہے۔۔کیونکہ ساتویں سواری بالکل اس سے جڑ کے جو بیٹھی ہوتی ہے۔۔
بات ہورہی تھی کراچی کی، یہاں کی لڑکیوں کی بھی اپنی ادائیں اور اپنی وفائیں ہیں۔۔ہر علاقے کی لڑکی کا اپنا الگ لائف اسٹائل ہے، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، بلدیہ، نیوکراچی کی لڑکیوں کے بولنے کے انداز سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کا تعلق کسی مضافاتی علاقے سے ہے، ڈیفنس، کلفٹن، گلشن اقبال وغیرہ کی لڑکیوں کے ہرجملے میں انگریزی کا اتنی کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ اگر اتنی کثرت سے وہ عربی کا استعمال کرلیں تو یقینی طور پر جنت ان پر واجب ہوجائے۔مضافاقی علاقے کی لڑکی ہو یا کسی پوش علاقے کی۔۔محبت تو سب ہی کرتی ہیں۔۔مضافاتی لڑکیوں کی اپنے بوائے فرینڈز سے فرمائشیں بھی بالکل منفرد ہوتی ہیں۔۔ ایک لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ سے کہا۔۔ جانو میکڈونلڈز پر لنچ کرادو ناں۔۔ لڑکے نے کہا ،تم میکڈونلڈز کی اسپیلنگ بتادو تو لنچ پکا بلکہ گھروالوں کے لیے پارسل بھی کرادوں گا۔۔لڑکی تھوڑی سے گھبرائی پھر کہنے لگی ، چلو کے ایف سی پر ہی کچھ کھلادو۔۔لڑکے نے کہا، اگر تم یہ بتادو کہ کے ایف سی کس کا مخفف ہے تو جو بولوگی وہ کھلاؤں گا۔۔ لڑکی تھوڑی مزید پریشان ہوئی، کہنے لگی۔۔چلو پھر اسٹوڈنٹ کی بریانی ہی کھلادو۔۔لڑکے نے کہا، اسٹوڈنٹ کا مطلب بتادو تو جتنی مرضی بریانی کھانا گھر والوں کے لیے بھی لے آنا۔۔لڑکی کے چہرے سے ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔بولی۔۔مزیدار حلیم ہی کھلادو برنس روڈ سے ۔۔ تو لڑکا بولا۔۔اگر برنس روڈ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھوگی تو حلیم لازمی کھلاؤں گا۔۔لڑکی تنگ آکر بولی۔۔چل رہنے دے،پھر گٹکا ہی کھلادے جیب سے نکال کر۔۔لڑکا خوش ہوکر بولا۔۔جانو ایک ہی ہے آدھا آدھا کھالیتے ہیں۔یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کراچی کی لڑکیوں میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھنے لگا ہے، سگریٹ نوشی، شیشہ پینا، پان، گٹکا، ماوا، مین پوری سے یہ لوگ پوری طرح لطف اندوز ہونے لگی ہیں۔۔ کچھ تو چرس اور ہیروئین کی بھی عادی ہوچکی ہیں۔۔ یعنی جس کے پاس جیسا مال اس کا نشہ بھی کرے ویسا ہی دھمال۔۔پوش علاقے کی لڑکیوں مضافاتی لڑکیوں سے کچھ زیادہ ہی تیزطرار ہوتی ہیں، جس کی وجہ تعلیم کا نظام ہے، پوش علاقوںمیں چونکہ مہنگے انگریزی تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جہاں پڑھائی زیادہ اچھے انداز میں ہوتی ہے اسی لیے وہ کچھ زیادہ ذہین ہوتی ہیں، جب کہ مضافاتی علاقوں میں نام نہاد انگریزی اسکولوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ کوئی لڑکی اگر وہاں سے میٹرک کرلے تو پھر اگلے ہی سال وہ اسی اسکول میں میٹرک کے طلبا کی ٹیچر ہوتی ہے۔ پوش علاقوں کے انگریزی اسکولوں کی ٹیچرز کی کم سے تنخواہ دس ہزار ہوتی ہے جب کہ مضافاتی اسکولوں کی ٹیچرزکی کم سے کم تنخواہ ایک ہزار روپے ہوتی ہے، اس سے نظام تعلیم کے بنیادی ’’فرق‘‘ کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بددیانت لوگوں سے کبھی وفا کی اُمید مت رکھو۔۔یہ صرف کراچی والوں کے لیے ہے، سوچنا ضرور۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر