... loading ...
مولانا ندیم احمد انصاری
امام غزالی رحمہ اللہ(1058 تا 1111ء)ایک عظیم فلسفی اور مشہور عالمِ اسلام ہیں، جن کی متعدد کتابیں بشمول احیاء العلوم الدین وغیرہ عربی و اردوکے علاوہ متعدد زبانوں میں دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ہم یہاں موصوف کا مختصر تعارف اور ان کی تصنیفات کے مطالعے سے متعلق چند باتیں عرض کریں، اس لیے کہ فی زمانہ غلط سلط اور بے بنیاد باتوں کو عمدہ باتوں کے ساتھ جوڑ کر چلانا عام ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سی غلط باتیں معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔ صدیوں پہلے کسی عالمِ دین نے کوئی عمدہ تصنیف پیش کی، لیکن آج مترجمین نے اس کے ساتھ ایسی ایسی کارستانیاں کیں کہ اللہ کی پناہ! ہاں بعض غیر محتاط باتیں قدما سے بھی ان کی تصنیفات میں در آئی ہیں۔محقق علماےمتقدمین کی قدر کی جانی چاہیے، لیکن ان کی تصنیفات کا مطالعہ محقَق علما کی نگرانی ہی میں کرنا چاہیے۔
تعارف اور تعلیم
امام غزالی رحمہ اللہ کا نام محمد، کنیت ابو حامد، والد کا نام بھی محمد تھا۔ طوس کے ضلع میں ۴۵۰ھ میں طاہران میں پیدا ہوئے۔ والد کی وصیت کے مطابق جو ایک مخلص علم دوست اور غریب مسلمان تھے، اُن کے ایک صوفی دوست نے تعلیم کا انتظام کرنے سے معذرت کی اور کسی مدرسے میں داخل ہو جانے کا مشورہ دیا، چناں چہ وہ ایک مدرسے میں داخل ہو کر تعلیم میں مشغول ہو گئے۔
امام غزالیؒ کے اساتذہ
امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنے وطن میں شیخ احمد الراذکانی سے فقہِ شافعی کی تعلیم حاصل کی، پھر جرجان میں امام ابو نصر اسماعیلی سے پڑھا۔ اس کے بعد نیشاپور جا کر امام الحرمین کے حلقۂ درس میں شامل ہوئے اور تھوڑی ہی مدت میں اپنے رفقا میں جو ۴۰۰/ کی تعداد میں تھے، ممتاز ہو گئے اور اپنے نامور استاد کے نائب بن گئے۔ امام الحرمین ان کی تعریف میں فرماتے تھے کہ غزالی رحمہ اللہ بحرِ زخار ہے۔امام الحرمین کے انتقال کے بعد نیشاپور سے نکلے، اس وقت ان کی عمر ۲۸/ سال تھی، لیکن وہ بڑے بڑے کبیر السّن علما سے زیادہ ممتاز اور باکمال سمجھے جاتے تھے۔
مدرسۂ نظامیہ کی صدارت
درس و تدریس سے فارغ ہونے کے بعد امام غزالی رحمہ اللہ نظام الملک کے دربار میں پہنچے۔ نظام الملک نے ان کی شہرت اور ممتاز قابلیت کی بنا پر انھیں بڑے اعزاز و اکرام سے دربار میں رکھا۔ یہاں اہلِ کمال کا مجمع تھا، علمی مباحثے اور دینی مناظرے، درباروں اور مجلسوں یہاں تک کہ تقریباتِ شادی و غمی کا ایک ضروری عنصر تھے۔امام غزالیؒان مباحثوں میں سب پر غالب رہتے تھے۔ ان کی نمایاں قابلیت دیکھ کر نظام الملک نے ان کو مدرسۂ نظامیہ کی صدارت کے لیے منتخب کیا، جو اس وقت ایک عالم کے لیے سب سے بڑا اعزاز اور منتہائے ترقی تھا۔ اس وقت ان کی عمر ۳۴/ سال سے زیادہ نہ تھی۔
بغداد میں امام غزالیؒ کی دھوم
۴۸۴ھ میں وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئے اور نظامیہ میں درس شروع کیا۔ تھوڑے ہی دن میں ان کے درس، حسنِ تقریر اور تبحرِ علمی کی بغداد میں دھوم مچ گئی۔ طلبہ و علمانے استفادہ کے لیے ہر طرف سے ہجوم کیا۔ ان کی مجلسِ درس مرجعِ خلائق بن گئی۔ تین، تین سو منتہی طالبِ علم اور سو سو امرا و رُؤسا اس میں شرکت کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنی عالی دماغی، علمی فضیلت اور طاقت ور شخصیت سے بغداد میں ایسا اثر و رسوخ پیدا کر لیا کہ ارکانِ سلطنت کے ہم سربن گئے اور بقول ایک معاصر (شیخ عبد الغافر فارسی) کے ان کے جاہ و جلال کے سامنے امرا اور وزرا اور خود بارگاہِ خلافت کی شان و شوکت بھی ماند پڑ گئی۔
امام غزالیؒ کا تجدیدی کارنامہ
امام غزالی رحمہ اللہ نےجو مجددانہ کام انجام دیا، اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛۱ فلفسہ اور باطنیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مقابلہ اور اسلام کی طرف سے ان کی بنیادوں پر حملہ۲ زندگی و معاشرت کا اسلامی و اخلاقی جائزہ اور ان کی تنقید و اصلاح۔امام غزالیؒ ’تہافت الفلاسفہ ‘کی تمہید میں لکھتے ہیں : ہمارے زمانے میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جن کو یہ زعم ہے کہ ان کا دل و دماغ عام آدمیوں سے ممتاز ہے ، یہ لوگ مذہبی احکام و قیود کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے سقراط و بقراط ، افلاطون و ارسطو کے پُر ہیبت نام سنے ، اور ان کی شان میں ان کے مقلدوں کی مبالغہ آرائیاں اور قصیدہ خوانی سنی ، ان کو معلوم ہوا کہ ریاضیات ، منطقیات ، طبیعیات و الٰہیات میں انھوں نے بڑی موشگافیاں کی ہیں ، اور ان کا عقل و ذہن میں کوئی ہم سر نہ تھا۔ اس عالی دماغی اور ذہانت کے ساتھ وہ مذاہب اور ان کی تفصیلات کے منکر تھے اور ان کے نزدیک ان کے اصول و قواعد فرضی و مصنوعی ہیں ، بس انھوں نے بھی تقلید ’ انکارِ مذہب کو اپنا شعار بنا لیا اور تعلیم یافتہ اور روشن خیال کہلانے کے شوق میں مذاہب کا انکار کرنے لگے ، تاکہ ان کی سطح عوام سے بلند سمجھی جائے اور وہ بھی عقلا و حکما کے زمرے میں شمار ہونے لگیں ، اس بنا پر میں نے ارادہ کیا کہ ان حکما نے الٰہیات پر جو کچھ لکھا ہے ، اس کی غلطیاں دکھاؤں اور ثابت کروں کہ ان کے مسائل اور اصول بازیچہ ٔ اطفال اور ان کے بہت سے اقوال و نظریات حد درجے مضحکہ خیز بلکہ عبرت انگیز ہیں۔
امام غزالی کی دو ممتاز خصوصیتیں
امام غزالیؒ کی دو خصوصیتیں بڑی ممتاز ہیں؛ اخلاص، علوِّ ہمت۔ ان کے اخلاص کا اعتراف موافق و مخالف سب کو ہے، اور وہ ان کی تصنیفات کے لفظ لفظ سے ٹپکتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اگرچہ ان کے ناقد ہیں اور ان کی بہت سی چیزوں سے ان کو اختلاف ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ان کو کبار مخلصین میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی کتابوں کی تاثیر اور مقبولیت کی اصل وجہ ان کا یہی اخلاص ہے، اسی اخلاص نے ان سے اقلیمِ علم کی مسندِ شاہی ترک کروائی اور برسوں دشت و بیاباں کی خاک چھنوائی اور باوجود طلبی و اصرار کے بادشاہوں کے دربار اور اپنے وقت کے سب سے بڑے اعزاز سے روگرداں اور بے نیاز رکھا۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ آخری چیز جو صدیقین کے قلب سے نکلتی ہے وہ حبِّ جاہ ہے، ان کی آخری زندگی شہادت دیتی ہے کہ وہ اس مقام سے محروم نہیں رہے۔علوِ ہمت ان کی زندگی کا طغرائے امتیاز ہے۔ انھوں نے علم و عمل کے دائرے میں اپنے زمانے کی سطح اور اپنے ہم عصروں کی کسی منزل پر قناعت نہیں کی۔ وہ علم و عمل کے جس ترقی یافتہ مقام پر پہنچے، ان کے کانوں میں یہی صدا آئی ؎
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
علومِ نقلیہ میں بھی وہ اپنے زمانے اور اپنے معاصرین کی عام سطح سے بہت بلند ہیں۔ فقہ و اصولِ فقہ میں انھوں نے جو تصنیفات کیں ، صدیوں تک علما ان کی شرح و تحشیے میں مشغول رہے ، پھر اپنے زمانے کے رواج اور علماے نقلیات کے دستور کے خلاف انھوں نے علومِ عقلیہ کی طرف توجہ کی اور منطق و فلسفےکا اس طرح مطالعہ کیا کہ بقول قاضی ابو بکر بن العربی فلسفے کے جگر اور فلاسفہ کے شکم میں اتر گئے اور پھر ان کی تنقید و تردید میں ایسی کتابیں لکھیں ، جن سے اس کی عمارت ایک صدی تک متزلزل رہی۔
عمل کے سلسلے میں اپنی ذہنی ، علمی ، اخلاقی اور روحانی ترقی و تکمیل کا انھوں نے کوئی گوشہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ علمی تبحّر اور جامعیت و کمال کے ساتھ اپنے وقت کے ایک مخلص و مبصر شیخِ طریقت شیخ ابو علی فارمدی (م ۴۷۷ھ) سے بیعت کی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی ، پھر اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر کے اس کے مقاصد و غایات کو پہنچے اور اذواقِ صحیحہ سے لذت آشنا ہوئے ۔[ماخوذ از تاریخِ دعوت و عزیمت]
امام غزالیؒ کی کتابوں کا مطالعہ
احیاء العلوم الدین میں بعض روایتیں ضعیف اور بعض موضوع ہیں، جیسا کہ علامہ عراقیؒ نے اس کی تخریج میں نشان دہی کی ہے، اس لیے عوام کو اس کے مطالعہ کرنے کے لیے پہلے کسی محقق عالم سے مشورہ کرنا چاہیے، یہی حال کیمیاے سعادت وغیرہ کا بھی ہے۔اس لیے جو مسائل اصلاح سے متعلق ہیں، ان پر عمل کرنا شیخ کی اجازت سے جائز ہے او رمذہب کے خلاف مسائل پر عمل کرنا جائز نہیں اور ان کا مطالعہ عالم کے لیے جائز ہے، غیر عالم کو ناواقفیت کی وجہ سے احتیاط چاہیے۔[دیکھیے فتاویٰ محمودیہ مع حاشیہ]