وجود

... loading ...

وجود

خوش فہمی نہیں احیتاط

بدھ 25 اگست 2021 خوش فہمی نہیں احیتاط

عام تاثر یہ ہے کہ امریکا نو گیارہ کا بدلہ لینے افغانستان پر حملہ آور ہوالیکن یہ خیال قوی تر ہونے لگا ہے کہ نو گیارہ واقعات نہیںبلکہ امریکا سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل کسی نظام کو کامیاب ہونے سے روکنے کے لیے حملہ آورہواروس کے بعد چین سے مخاصمت میں بھی یہی سوچ کارفرما ہے روس اور چین تو بڑی طاقتیں سہی لیکن افغانستان جیساچھوٹا سا ملک سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرے امریکا برداشت نہیں کر سکتا اسی لیے دہشت گردی کی آڑ میں چڑھائی کی اورمعدنیات پر بھی ہاتھ صاف کر لیاپھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسامہ بن لادن کا خاتمہ کیااور طالبان سے سلسلہ جنبانی شروع کردیا مگر لسانی و نسلی تفریق کے شکار ملک میں سیاسی تصفیے سے پہلو تہی کی یہ انخلا امریکی اہداف کے عین مطابق ہے روس کو چیچنیا میں اُلجھانے اور چین میں ایغور مسلمانوں کی شورش کو ہوا دینے کے لیے سیاسی تصفیے کے بغیر انخلا ہوا ہے تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کوچیلنج کرنے والے ممالک روس ،چین اور افغانستان آپس میں ٹکرائیں البتہ طالبان کی طرف سے کسی ہمسائے کے خلاف اپنی زمین استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی امریکی مقاصدکے منافی ہے اِس لیے امریکا اور اتحادیوں کی طرف سے چین کی تیز رفتار ترقی روکنے اور خطے میں تجارتی حوالے سے بے یقینی بڑھانے کے لیے نئی سازشیں خارج ازامکان نہیں۔
افغانستان میں طالبان کی آمد کے حوالے سے ایک طبقہ خوشی سے جھوم رہا ہے تو ناپسندکرنے والوں کی تعدادبھی کم نہیں بھارتی کردار کم ہونے سے پاکستانی خوش ہیں کیونکہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی و سرپرستی کی جس سے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوتارہاہے طالبان کی آمد سے دہشت گردی کے متاثرین کو امید ہے کہ نہ صرف امن ہوگا بلکہ پشتون علاقوں میں پی ٹی ایم جیسے سنپولیوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی ہمارے ایک طبقے کا خیال ہے کہ طالبان اور بھارت کے روابط نہیں جس سے مجھے اختلاف ہے کیونکہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات بھلے امریکا و طالبان کے درمیان ہوئے لیکن یہ مت بھولیں کہ جنوبی ایشیا میں امریکا و بھارت تزویراتی اتحادی ہیں اِس لیے ممکن ہی نہیں کہ بھارت وطالبان روابط نہ ہوں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ گرمجوشی پر مبنی نہ ہوں۔
قیافے لگاتے ہوئے ہمیں حقائق کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے دلیل یہ ہے کہ کئی طالبان رہنما نہ صرف دہلی میں مقیم رہے بلکہ وہیں تعلیم و تربیت بھی حاصل کی مثال کے طور پرشیر محمد عباس ستانکزئی کو طالبان میں خاص مقام حاصل ہے انھوں نے اسی کی دہائی کے آغاز میں بھارت میں فوجی تربیت حاصل کی بعدازاں روسی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے افغان فوج سے الگ ہو گئے شیر محمد عباس ستانکزئی سے گزشتہ برس کئی ایک بھارتی سفارتکاروں نے ماسکو میں رابطے کیے اور ملاقاتیں بھی کیں ملنے والوںمیں کچھ ریٹائرڈسفارتکار بھی شامل ہیں علاوہ ازیں شمالی اتحاد کی بھارت سے قربت ڈھکی چھپی نہیں عام معافی کے بعدطالبان میں پشتون کے علاوہ تاجک، ازبک ،ہزارہ اور ترکما ن قومیتوں کے کردار میں اضافہ ہوا ہے اور متوقع حکومت میں کردار ملنے کابھی قوی امکان ہے بدخشاں کے قاری دین محمد اور قاری فصیح الدین طالبان کے دو اہم تاجک رہنما ہیں جبکہ طالبان کے حنفی فاریاب سے تعلق رکھنے والے رہنما عبدالسلام ازبک ہیں شمالی حصے میں تاجک ،ہزارہ ،ترکمان اورازبک کی کمان کرنے والے مہدی ارسلان نوجوان تاجک کو طالبان نے شمالی پانچ صوبوں کا کمانڈر مقر کیا ہے جن کا تاجکستان کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی جماعت انصار اللہ سے بھی تعلق ہے اسی طرح شمالی فتوحات کے اہم کردار ہزارہ کے مولوی مہدی کو شمالی صوبے سرپل کا گورنر بنانابھی بہت کچھ واضح کرتا ہے انس حقانی جیسے کئی لوگ پاکستان کے حامی سمجھے جاتے ہیں لیکن انس حقانی آجکل عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار سے مل کر متفقہ حکومت بنانے کی تگ ودو میں ہیں اِس لیے پاکستان سے زیادہ اُنھیں طالبان کا حامی سمجھنا چاہیے ۔
خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بھی متوازن رویہ ضروری ہے کوئی خواہ کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہوہم سے زیادہ ہمارے ملک کاخیرخواہ نہیں ہو سکتا یہ درست ہے کہ اشرف غنی کے منظر نامے سے ہٹنے سے بھارت کے لیے افغان فضا غیر ہموار ہوئی ہے لیکن عبداللہ عبداللہ جیسے کئی چہروں کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ متفقہ حکومت کی تشکیل کے لیے ہونے والی کوششوں کا وہ حصہ ہیں اورمستقبل میں بھی اہم کردار بعید ازقیاس نہیںحزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار بھی سابق حکومت میں وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز رہے جنھوں نے حال ہی میں سرکاری میڈیا سے ایک انٹرویو میں کشمیریوں کی جدوجہد کا بدلہ لینے کے لیے بھارت کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے سے باز رہنے کامشورہ دیا ہے لیکن بطور وزیرِ اعظم وہ بھارتی رہنمائوں سے ملتے رہے ہیں اِس لیے ہی محتاط طرزِ عمل ہی ہمارے لیے بہترہے کیونکہ ملکوں کے تعلقات ریاستی مفاد کے تابع ہوتے ہیں اور طالبان افغانستان کے حکمران بننے والے ہیں وہ کیونکر اپنے ملک کا مفاد بالائے طاق رکھ کر ہمارے مفادات کی نگہبانی کریں گے؟
امریکی کچھ زیادہ قابلِ اعتبار نہیں وہ نفع کی امیدپرانسانوں کو مارنابھی جائز تصور کرتے ہیں دہشت گردی ختم کرنے کی آڑ میںگیارہ ملین بچے ،بوڑھے ،خواتین اور جوان افغانوں کے مرنے پراُسے قلق نہیں بلکہ یہ سب کچھ افغانوں کی بہتری کے لیے ضروری قراردیتا ہے طالبان اور امریکا بظاہر حریف اور طالبان کو اولیں مطالبہ غیر ملکی افواج نکلناہے مگر کابل میں امریکا و نیٹو افواج موجود ہیں لیکن طالبان بیان بازی کے علاوہ عملی طورپر پُر سکون ہیں جو کسی ممکنہ گٹھ جوڑکے خیال کو تقویت دیتا ہے وگرنہ لڑاکاطیاروں ،ٹینکوں ،توپوں اور گولہ بارود سے لیس تین لاکھ فوج چنددنوں میں ساٹھ ستر ہزار طالبان سے لڑے بغیر یوںتتر بتر ہوتی؟۔
بظاہر بھارت کو افغان بساط پر ہزیمت کا سامنا ہے لیکن یہ مت بھولیں ہزاروں افغان ملک سے نکلنے کو بے تاب ہیں جنھیں تیرہ ممالک پناہ دینے کاوعدہ کرچکے ہیں مہاجرت اختیار کرنے والے مالی طور پر آسودہ ہو کر افغان شورش میں حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ طالبان کے آنے سے ملکی جی ڈی پی بیس فیصد گرنے کا خدشہ ہے بھوک و افلاس بڑھنے سے سیاسی صورتحال انتہائی غیر مستحکم ہو سکتی ہے عالمی اِدارہ خوراک نے افغانستان میں انسانی المیے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد کو کھانے پینے کی اشیا میسر نہیں برفباری سے قبل لوگوں تک خوراک پہنچانا ہو گی لیکن امریکا و نیٹو ممالک نے مذید امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے صرف او آئی سی نے امداد کا عندیہ دیا ہے یہ حالات سیاسی تصفیے کے باوجود مستقبل میں بدامنی کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور ایک بار پھر ہمسایہ ممالک کو مہاجرین کا سامنا ہو سکتا ہے جس سے کمزور معیشتوں کے حامل پاکستان جیسے ممالک دبائو کا شکارہوسکتے ہیں روس ،چین اورافغانستان کو لڑانے کی چال چلنا اور خطے میں بے چینی پیدا کرنے کے اسباب مہیا کرنا سرمایہ دارانہ نظام کوتحفظ دینے کی کوشش ہے یہ خطے کو سزا دینے کاایسا سامان ہے جس پرزیادہ جوش وجذبہ دکھانے اور خوش فہمی کی بجائے احتیاط سے حالات پر نظر رکھ کر چالوں کا توڑ کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر