... loading ...
استعماری گماشتوں کے لیے افغانستان میں ایک سبق ہے۔” گماشتوں” کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ اشرف غنی بھاگ گیا، مگر وہ بھاگتا رہے گا، اُسے قرار نہ مل سکے گا، حساب دیتا رہے گا، گماشتوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ عالمی امور کے ماہر لکھاری فینین کَنینگھم نے ان گماشتوں کو ”Uncle Sam’s Running Dogs” کہا ہے، مگر پاکستان میں یہ تاحال ”Barking Dogs” ہیں۔
امریکی صدر 16 اگست کو اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ہکا بکا دکھائی دیے۔ حیرت سے اُن کی آنکھیں پھٹی پڑتی تھیں۔ اس قدر سرعت سے وہ طالبان کی جھولی میں کابل کے گرنے کی توقع نہ رکھتے تھے۔ امریکا طالبان کے ساتھ ایک معاہدے کی حالت میں تھا۔ اُسے ایک باعزت اخراج مل چکا تھا۔ مگر استعمار کا مقدر ایک رسوا کن انجام تھا۔ طالبان نے کابل میں ایک خاموش گھیراؤ کیا۔ طالبان دارالحکومت میں ہمیشہ سے خاموش موجودگی رکھتے تھے، اپنے امیر کے حکم کے منتظر۔ جب طالبان کو کہا گیا کہ وہ کابل کی جانب پیش قدمی کریں ، تو وہ کہیں اور سے نہیں آرہے تھے، کابل کے اندر سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے پاس دکھانے کو صرف ائیر پورٹ رہ گیا تھا۔ اُنہوں نے کابل کی اُن سڑکوںکو نظرانداز کردیا جہاں لوگ طالبان کو گلے لگا رہے تھے ۔ امریکا کے خاموش اخراج میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یہاں تک کہ اشرف غنی سے بھی مذاکرات ہوتے۔ مگر امریکا کے اعصاب چٹخ گئے اور اشرف غنی ، ڈاکٹر نجیب اللہ کے انجام کا خوف کھانے لگے۔ استعمار اور گماشتے کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد سے زیادہ اپنا اپنا تحفظ اہم ہوگیا۔ دونوں کے جنگی جرائم خود اُنہیں خوف میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھے۔
اشرف غنی بھاگ گیا۔ شکست خوردہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی رسوائیوں کا جواز اسی فرار میں ڈھونڈا۔ امریکی صدر کا پورا خطاب تجزیہ طلب ہے مگر یہاں صرف اس پر اکتفا کیجیے:افغانستان کے سیاسی رہنماؤں نے ہتھیار ڈال دیے اور ملک سے چلے گئے ۔ افغان فوج ناکام ہو گئی اور بعض مواقع پر اس نے لڑائی کی کوشش کیے بغیر ہار مان لی”۔امریکی صدر اشرف غنی کو نشانا بنارہے ہیںاور اپنی ہی تیارکردہ تین لاکھ افغان فوج پر گرج برس رہے ہیں۔ اشرف غنی اور استعمار کی تیار کردہ افغان فوج پورے افغانستان میں حقارت کا موضوع ہے، یہاں تک کہ طالبان مخالف عناصر بھی اشرف غنی پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ طالبان کے مخالف اشرف غنی کی اس قدر مخالفت کیوں کررہے ہیں؟یہاں تک کہ خود اشرف غنی کے اپنے ساتھی بھی اُن سے شدید اظہار نفرت کررہے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ اشرف غنی کے اقدام سے وہ اپنی تذلیل محسوس کررہے ہیں۔ ایک سادہ سوال یہ ہے کہ کیا اشرف غنی سے زیادہ بہتر امریکا کو کوئی سمجھتا ہوگا؟ پاکستان اور افغانستان میں اپنی تہذیب اور اسلامی اقدار کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں پر برسنے والے صحافتی لفنگوں کے پاس جو پامال دلیلیں ہیں ، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام ، مجاہدین اور جہاد کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک میں ویزے ملنے پر وہاں دوڑے چلے جاتے ہیں ۔ اشرف غنی ان صحافتی لفنگوں کی تصوراتی زندگی جیا، وہ حامد کرزئی کے دورِ صدارت میں افغانستان لوٹا تواُسے اپنے ہی ملک کو دیکھے ہوئے چوبیس سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا۔ اس نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند لی ۔ اور اپنی زندگی کی تمام ملازمتیں امریکی اور مغربی اداروں میں کیں۔ جن میں عالمی بینک اور اقوام متحدہ کے مختلف ادارے شامل ہیں۔ اشرف غنی کا آدرش ملک امریکا تھا، مثالی ادارے مغربی تھے، اور معیاری شخصیات مغربی تھیں۔ اس اعتبار سے اشرف غنی کو سب سے زیادہ بھروسا امریکا پر ہونا چاہئے تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اشرف غنی گنجائش سے بڑھ کر رقم سمیت کر سب کو دھوکا کیوں دے گیا؟ یہاں تک کہ امریکی صدر کو اپنی قوم سے خطاب میں اشرف غنی کے اقدام کی مذمت کرنی پڑی۔ مغربی زندگی کا داخلی جوہر دراصل مادہ پرستی ہے۔ آقا اور غلام کے تعلق میں بھی یہ روح فنا نہیں ہوتی۔ غور کیجیے! افغانستان سے فرار ہوتے ہوئے کٹھ پتلی اشرف غنی نے اپنے آقا کی ذرا بھی پروا نہیں کی ، اُس نے پیسے سمیٹے اور رفو چکر ہوگیا۔ بھگوڑے اشرف غنی سے زیادہ یہ بات کون جانتا تھا یا جان سکتا تھا جو امریکا کی خارجہ پالیسی کے معماروں میں شامل اٹھانوے سالہ ہنری کسنجر نے کہی تھی: امریکا کے کوئی مستقل اتحادی نہیں ، اس کے صرف مفادات ہیں”۔ امریکا کے مخالف افغانستان کے جہادی ہی نہیں ، امریکی گماشتے بھی امریکا سے زیادہ تیز نکلے۔ اشرف غنی کابل سے بھاگتے ہوئے اگر کوئی بات جانتا تھا تو وہ اپنے آقا کی تاریخ اور ہنری کسنجر کے الفاظ تھے۔
چھیالیس برس قبل یہی کچھ ویتنام میں ہوا تھا جب سیگون میں امریکا کے کٹھ پتلی حکمران سونا اور ڈالر لے کر بھاگے تھے۔اشرف غنی کے ساتھ دلچسپ مماثلت رکھنے والا یہ واقعہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں ذرا قدرے تازہ ترین مثال لیتے ہیں ۔ امریکا نے کرد عسکریت پسندوں کو ابھی ابھی ترکی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ کُرد عسکریت پسندوں کو ترکی کے خلا ف کھڑا کرنے کے بعد جب امریکی مفادات نے اپنی سمت بدلی اور ٹرمپ نے اپنی صدارت میں شمالی شام پر حملہ کیا تو اُسے ترکی کی ضرورت تھی، چنانچہ کر د عسکریت پسندوں سے منہ پھیرنے اور ترکی کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں مشترک مفادات کا کھیل کھیلتے ہوئے اردگان سے معاملات کرنے میں اُس نے ذرا بھی تاخیر نہیں کی۔ امریکا کے ساتھ معاملات رکھنے والے ہر حاشیہ بردار کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ محض اُس کی سہولت اور انتخاب کا چارہ ہے۔ اشرف غنی کو یہ یقینا معلوم تھا۔
مشرقی یورپ میں واقع یوکرین، روس اور امریکا کے درمیان ”پنگ پانگ” کھیل کی ایک ایسی ہی مثال ہے۔اسے23 اگست 1991ء کو آنجہانی سوویت یونین سے آزادی ملی۔امریکا کھیل میں شریک تھا، آج بھی ہے۔ دارالحکومت کیف میں موجود حکمرانوں نے اپنی قسمت واشنگٹن سے وابستہ کی اور روس کے ساتھ اپنی صدیوں کی مشترکہ تاریخ داؤ پر لگادی۔ امریکی امداد کیا کرتی ہے جان لیں! یوکرین کو سات سال کی خانہ جنگی میں 2 بلین ڈالر کی امریکی فوجی امداد ملی ،جس نے عملاً اس ملک کی خوشحالی اور امن کو تباہ کردیا۔ کیف میں بیٹھے کچھ سیانے اب یہ جاننے لگے ہیں کہ وہ اس کھیل میں ایک پیادے کی حیثیت رکھتے ہیں اور واشنگٹن میں سامراجی منصوبہ ساز اُنہیں کسی بھی لات مار سکتے ہیں۔یوکرین کو یہ گندگی خود صاف کرنا پڑے گی۔ جیسا کہ افغانستان میں اب استعماری گند افغان صاف کریں گے۔
استعمار کا مکروہ کھیل بالٹک ریاستوں کے لیے بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اس جغرافیائی سیاسی اصطلاح سے نتھی کیے جانے والے تین ممالک امریکی عزائم کا نشانا بنے ہوئے ہیں۔ روس اور یورپی یونین کے مابین کشیدہ تعلقات کے لیے استعمال ہونے والے یہ ممالک سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ وہی” بھاگتے ہوئے کتوں” کے کام کرتے ہیں۔ اب کئی سال بیت گئے ، ان ممالک نے امریکی ایما پر روس سے آنے والی نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن پر اعتراضات داغے تھے ۔ اور اسے رد کرتے ہوئے امریکی گیس برآمد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبے میں یہ نظرانداز کردیا گیا کہ روس سے ملنے والی گیس سے کہیں زیادہ امریکی گیس مہنگی اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنے گی۔ گماشتے یہی کچھ تو کرتے ہیں۔ جرمنی اور یورپی یونین کی مخالفت کے بعد واشنگٹن کو جب یہ پالیسی خود اپنے لیے ٹھیک محسوس نہیں ہوئی، تو اُس نے بالٹک ریاستوں کے حکمرانوں کی ذرا بھی پروا نہیںکی اور پیچھے ہٹ گیا۔ گماشتوں کی پروا آقاؤں کو کہاں ہوتی ہے؟ پاکستان کی مثال چھوڑ دیتے ہیں۔ اپنے گندے کپڑے چوراہے پر کیا دھوئیں۔یہاں کی حکمران اشرفیہ نے امریکا کی چاکری کرتے ہوئے پاکستان کو جس حال میں پہنچا دیا ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ کٹھ پتلی اشرف غنی ایسا بھگوڑا جس کی اپنی کوئی طاقت نہیں تھی، وہ بھی پاکستان کو آنکھیں دکھاتا تھا۔
الغرض اشرف غنی سے زیادہ کون جانتا ہے کہ واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کے کوئی اصول نہیں۔ امریکا کے کسی ملک پر حملہ کرنے کے بھی دلائل ہو تے ہیں اور پھر وہاں سے نکلنے کے بھی۔ امریکی صرف اپنے مفادات کی پروا کرتے ہیں، اتحادیوں کی نہیں۔ اور کٹھ پتلیوںکی تو بالکل بھی نہیں۔ چنانچہ اشرف غنی کی کون پروا کرتا؟ اشرف غنی نے اپنا خیال خود رکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ ڈالر سمیٹے اور بھاگا۔ تب اُس کے ذہن میں نجیب کی کابل کے گھمبے پر لٹکتی لاش کی تصویر ہوگی اور کانوں میں ہنری کسنجر کے الفاظ :امریکا کے کوئی مستقل اتحادی نہیں”۔اشرف غنی کے فرار نے امریکی پسپائی کو مزید بے آبرو کردیا۔ امریکا کو طالبان سے باعزت اخراج کے معاہدے نے جو اطمینان دیا تھا، وہ ایک ہڑبونگ کا شکار ہوگیا۔ یہاں تک کہ امریکی صدر کو اپنے عوام کے سامنے وضاحتیں پیش کرنا پڑیں۔ امریکا کی اس سے بڑی ہزیمت کیا ہوگی کہ اُسے کابل میں دشمن مجاہدین نے بھی دھول چٹائی اور کٹھ پتلیوں نے بھی رسوا کیا۔ استعماری گماشتوں کو افغانستان سے ایک سبق ملتا ہے۔ امریکا آپ کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ آپ بھی امریکا پر اعتبار نہ کریں ۔ کیا اسلام آباد میں کوئی یہ سبق سیکھنے کو تیار ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭