... loading ...
افغانستان میں پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن افغانستان کی سربراہی کے لیے کس طالبان لیڈر کا انتخاب کیا جاتا ہے اس بارے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے ۔افغان طالبان نے جس برق رفتاری سے کابل پر قبضہ کیا ہے اس نے عالمی سطح پر مبصرین کو حیران کر دیا ہے ۔ طالبان نے جو سفر قندھار سے لگ بھگ ایک ماہ پہلے شروع کیا تھا وہ گذشتہ روز کابل پر قبضے تک پہنچ چکا ہے ۔افغان فوج کی پسپائی کے بعد فغانستان کے دارالحکومت کابل کا کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان کی تاریخ اور نظریے کے بارے میں کچھ اہم حقائق یہ ہیں:پشتو زبان میں طالبان کا مطلب طلبا ہے جو 1994 میں جنوبی افغان شہر قندھار سے ابھرے ۔ یہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے لڑنے والے افغان جنگجو گروپوں میں سے ایک تھے ۔طالبان میں شامل اکثریت ان مجاہدین کی تھی جنہوں نے امریکا کی مدد سے 1980 کی دہائی میں سوویت افواج کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔1994 میں سامنے آنے کے بعد دو سال کے اندر طالبان نے کابل سمیت ملک کے بیشتر حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ۔ 1996 میں اسلامی قوانین کی تشریح کے ساتھ خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا جب کہ اقتدار کے لیے لڑنے والے دوسرے مجاہدین گروہ ملک کے شمال میں چلے گئے اور پھر وہیں تک محدود رہے ۔11 ستمبر 2001 کو امریکا میں القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکی افواج، شمالی اتحاد اور دیگر طالبان مخالف جنگجو نومبر میں بھاری امریکی فضائی حملوں کی آڑ میں کابل میں داخل ہوئے ۔جب کہ طالبان دور دراز علاقوں میں روپوش ہوگئے ، جہاں سے انہوں نے افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف 20 سالہ طویل جنگ شروع کی۔طالبان کے بانی اور رہنما ملا محمد عمر تھے جو طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے ۔ ملا عمر کے ٹھکانے اتنے خفیہ تھے کہ 2013 میں ان کی موت کی تصدیق بھی ان کے بیٹے نے انتقال کے دو سال بعد کی۔اپنے پانچ سال کے اقتدار کے دوران طالبان نے سخت شرعی قوانین نافذ کیے ۔ انہوں نے خواتین کو بنیادی طور پر کام کرنے سے روک دیا تھا اور مرد سرپرست کی غیرموجودگی میں انہیں گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ان کے دور میں سرعام پھانسی اور کوڑے مارنے کی سزائیں عام تھیں جب کہ مغربی فلموں اور کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔مخالفین اور مغربی ممالک طالبان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے کنٹرول والے علاقوں میں حکمرانی کی پرانی طرز پر واپس آنا چاہتے ہیں مگر طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔تاہم، طالبان نے رواں سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کے لیے ایک حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں ثقافتی روایات اور مذہبی قوانین کے مطابق خواتین اور اقلیتوں کو ان کے حقوق فراہم کرے ۔90 کی دہائی میں بننے والی طالبان حکومت کوپاکستان سمیت صرف چار ممالک نے تسلیم کیا۔جب کہ دیگر ممالک کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کابل کے شمالی صوبوں میں اقتدار رکھنے والے گروہ کو حکومت کا حقدار قرار دیا۔ امریکا اور اقوام متحدہ نے طالبان پر پابندیاں عائد کیں اور بیشتر ممالک نے طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے میں بہت کم دلچسپی دکھائی۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ اگر طالبان نے اقتدار سنبھالا اور وہاں مظالم ڈھائے تو افغانستان کو عالمی سطح پر بہت ہی ناپسندیدہ ریاست بننے کا خطرہ ہے ۔تاہم ، دوسرے ممالک جیسے چین نے محتاط انداز میں اشارہ دیا ہے کہ وہ طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم کر سکتاہے ،اب افغان طالبان کو اصل چیلنج کا سامنا ہے اور وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد گورننس کرنا ہے ۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیا افغان طالبان کے پاس ایسی قیادت اور ٹیم موجود ہے جو نظامِ حکومت بہتر انداز میں چلا سکے ۔اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ طالبان کے تنظیمی ڈھانچے میں ذمہ داران کون ہیں اور کن صلاحیتوں کے حامل ہیں۔طالبان کے تنظیمی ڈھانچے میں اب بھی ایسے رہنما موجود ہیں جو ماضی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔اس وقت طالبان کے اہم قائدین میں تنظیم کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ اور ان کے تین نائبین ملا عبدالغنی برادر، ملا محمد یعقوب اور سراج الدین حقانی شامل ہیں۔اس وقت افغان طالبان یا امارت اسلامی افغانستان کے امیر یا سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ ہیں۔ملا اختر منصور کی سنہ 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد افغان طالبان کے امیر مقرر کیے جانے والے ملا ہیبت اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان تحریک کے قیام کے بہت بعد اس کا حصہ بنے تھے ۔ملا ہیبت اللہ طالبان کی جنگی کارروائیوں کے حق میں فتوے جاری کرتے رہے ہیں۔ وہ سنہ 2001 سے قبل افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت میں عدالتوں کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ہبت اللہ کی عمر 45 سے 50 سال کے درمیان ہے اور وہ قندھار کے علاقے پنجوائی میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا تعلق نور زئی قبیلے سے ہے ۔ہیبت اللہ اخونزادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے طالبان کی سمت و رفتار کو تبدیل کیا اور اس تنظیم کو اِس کی موجودہ حالت میں لانے میں ان کا بڑا کردار ہے ۔طالبان کے گڑھ قندھار سے تعلق رکھنے کی بنا پر انھیں طالبان پر گرفت مضبوط کرنے میں مدد دی۔سنہ 1980 کی دہائی میں انھوں نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں تھیں، لیکن وہ فوجی کمانڈر سے زیادہ مذہبی سکالر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔وہ افغان طالبان کے سربراہ بننے سے پہلے ہی طالبان کے سرکردہ رہنماوں میں سے ایک رہے ہیں اور مذہبی امور کے متعلق طالبان کی جانب سے وہی احکامات جاری کرتے رہے ہیں۔انھوں نے قاتلوں اور ناجائز جنسی تعلقات رکھنے والوں کا سر قلم کرنے اور چوری کرنے والوں کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیا تھا۔ہیبت اللہ طالبان کے سابق سربراہ اختر محمد منصور کے نائب بھی رہے ۔ منصور مئی سنہ 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے ۔ منصور نے اپنی وصیت میں ہیبت اللہ کو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔وصیت نامہ ان کی تقرری کو قانونی حیثیت دینے کے لیے تھا۔لیکن طالبان نے ان کے انتخاب کو متفقہ طور پر کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا تھا۔امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں طالبان کی جانب سے اگرچہ ایک مکمل ٹیم شامل تھی لیکن فروری 2020 کو قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے پر دستخط ملا عبدالغنی برادر نے کیے تھے اور اس وقت وہ عالمی سطح پر نمایاں طور پر سامنے آئے تھے ۔ملا عبدالغنی برادر امارت اسلامی افغانستان کے نائب امیر ہیں اور ان کے پاس طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے انچارج کا عہدہ بھی ہے ۔ملا عبدالغنی برادر، ملا برادر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ملا برادر کا تعلق پوپلزئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے ۔ یہ قبیلہ افغانستان میں انتہائی بااثر سمجھا جاتا ہے اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے ۔ اس قبیلے کے افراد سرحد کے دونوں جانب یعنی پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور پشاور میں بھی آباد ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پر افغانستان کے جنوبی ضلع اورزگان سے بتایا جاتا ہے لیکن وہ کئی سال طالبان کے مرکز کے طور پر مشہور افغان صوبہ قندھار میں مقیم رہ چکے ہیں۔ملا عبد الغنی برادر افغانستان میں طالبان کارروائیوں کی نگرانی کے علاوہ تنظیم کے رہنماوں کی کونسل اور تنظیم کے مالی امور چلاتے تھے ۔افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر اور ملا برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے اور سنہ 1994 میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے تھے ۔ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔افغانستان پر کام کرنے والے اکثر صحافیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملا محمد عمر نے جب افغانستان میں طالبان تحریک کا آغاز کیا تو ملا برادر ان چند افراد میں شامل تھے جنھوں نے بندوق اٹھا کر طالبان سربراہ کا ہر لحاظ سے ساتھ دیا اور تحریک کی کامیابی تک وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے ۔تاہم جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے پاس کوئی خاص عہدہ نہیں تھا۔ بعد میں انھیں ہرات کا گورنر بنا دیا گیا۔سنہ 2001 میں جب امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر کیے جانے والے حملے میں طالبان کو اقتدار سے بیدخل کیا گیا تو وہ نیٹو افواج کے خلاف جنگ کے سربراہ بن گئے ۔بعد ازاں فروری سنہ 2010 میں انھیں پاکستان کے شہر کراچی سے امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا۔اس وقت افغان حکومت سے امن مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے طالبان کی جانب سے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جاتا تھا اس فہرست میں ملا عبدالغنی برادر کا نام سرفہرست ہوتا تھا۔انھیں ستمبر 2013 میں پاکستانی حکومت نے رہا کر دیا تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ پاکستان میں ہی رہے یا کہیں اور چلے گئے ۔ ملا برادر طالبان رہنما ملا محمد عمر کے سب سے قابل اعتماد سپاہی اور نائب رہے ۔افغان انتظامیہ کے سینیئر عہدیداروں کو ہمیشہ ہی اس بات پر یقین تھا کہ برادر کے قد کا رہنما طالبان کو امن مذاکرات کے لیے آمادہ کر سکتا ہے ۔جب طالبان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو وہ طالبان کے نائب وزیر دفاع تھے ،دیگر طالبان رہنماں کی طرح ملا برادر پر بھی اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد کی تھی۔ ان کے سفر کرنے اور ہتھیاروں کی خریداری پر پابندی تھی۔ افغانستان میں طالبان تحریک کے سابق امیر ملا محمد عمر کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے مولوی محمد یعقوب افغان طالبان کی امارت کے امیدوار بھی رہے ہیں۔ طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران جو افغانستان میں تشدد کے کارروائیوں کو روکنے کا حکم دینا پڑا تو اس وقت مولوی محمد یعقوب کو تحریک کے عسکری کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا ۔مولوی محمد یعقوب افغان طالبان کے نائب امیر بھی ہیں جبکہ انھیں اس سال مئی کے مہینے میں سکیورٹی چیف کا اضافی عہدہ بھی دیا گیا ہے ۔ ان کی تعیناتی پہلے افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ نے کی تھی۔طالبان ذرائع نے بتایا ہے کہ مولوی محمد یعقوب نے ابتدائی تعلیم پاکستان کے بڑے شہر کراچی کے مدرسے سے حاصل کی ہے ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مولوی محمد یعقوب بظاہر ایک سیاسی اور عسکری سوچ کی نوجوان شخصیت ہیں اور وہ اس عہدے پر عسکری ونگ اور سیاسی ونگ کے درمیان رابطے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔افغان امور کے ماہر سابق سفارتکار رستم شاہ مہند کا کہنا ہے کہ مولوی محمد یعقوب طالبان تحریک میں اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور ان سے اکثر معاملات میں مشاورت کی جاتی ہے ۔سینیئر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ مولوی یعقوب کا نام اس وجہ سے زیادہ معتبر ہے کیونکہ وہ ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں اور اس وجہ سے طالبان کے اندر انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ مولوی یعقوب عسکری ونگ میں بھی شامل رہے ہیں جب طالبان اور ملا عمر کے خاندان کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے تو اس وقت ملا عمر کے بھائی عبدالمنان اخوند اور مولوی یعقوب کو عہدے دیے گئے تھے ۔ملا عمر کے بھائی کواس وقت جب تحریک کی امارت کے لیے کچھ نام سامنے آئے تھے اس پر تحفظا ت تھے ۔ مولوی یعقوب کو کچھ صوبوں کے عسکری ونگ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ افغان طالبان کے دوسرے نائب امیر سراج الدین حقانی ہیں اور ان کے تعلق ان کے والد جلال الدین حقانی کے حقانی نیٹ ورک سے ہے ۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ہے اور ان کی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جائیدادیں ہیں۔انھوں نے سنہ 1980 کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابقہ سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں۔یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ افغانستان کی قیادت کون سنبھالے گا،افغان طالبان کے اہم رہنما اور سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں سیاسی سطح پر جوڑ توڑ جاری ہے اور افغانستان سے ایک کمیشن نے پیر کو قطر پہنچنا تھا لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران حالات اچانک کافی بدل گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یہ کمیشن صدر اشرف غنی کا استعفی اور مکمل اختیار کے ساتھ پہنچے گا تاکہ انتقالِ اقتدار کا مرحلہ مکمل ہو سکے ۔انھوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ جب تک معاہدہ مکمل نہ ہو جائے افغان طالبان کابل میں داخل نہیں ہوں گے لیکن اچانک حالات نے نیا رخ اختیار کیا جس کی وجہ سے طالبان کابل میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے کیونکہ کابل میں امن قائم کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام نظر آ رہے تھے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون سا طالبان لیڈر افغانستان میں قیادت سنبھالے گا۔ جب تک بات چیت جاری ہے اور پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل نہیں ہو جاتا اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سربراہ مملکت ہو سکتا ہے۔
8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...
عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...
روس نے 2003میں افغان طالبان کو دہشت گردقرار دے کر متعدد پابندیاں عائد کی تھیں 2021میں طالبان کے اقتدار کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی روس کی سپریم کورٹ نے طالبان پر عائد پابندی معطل کرکے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نام نکال دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے ...
وزیراعظم نے معیشت کی ڈیجیٹل نظام پر منتقلی کے لیے وزارتوں ، اداروں کو ٹاسک سونپ دیئے ملکی معیشت کی ڈیجیٹائزیشن کیلئے فی الفور ایک متحرک ورکنگ گروپ قائم کرنے کی بھی ہدایت حکومت نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس حوالے سے وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں ا...
فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اس کے پیچھے بیرونی قوتیں،مائنز اینڈ منرلز کا حساس ترین معاملہ ہے ، معدنیات کے لیے وفاقی حکومت نے اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، 18ویں ترمیم پر قدغن قبول نہیں لفظ اسٹریٹیجک آنے سے سوچ لیں مالک کون ہوگا، نہریں نکالنے اور مائنز ا...
قابل ٹیکس آمدن کی حد 6لاکھ روپے سالانہ سے بڑھانے کاامکان ہے، ٹیکس سلیبز بھی تبدیل کیے جانے کی توقع ہے ،تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہوگی انکم ٹیکس ریٹرن فارم سادہ و آسان بنایا جائے گا ، ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی جائے گی، ب...
بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان اور سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو فیملی اور وکلا سے نہیں ملنے دیا جا رہا، جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بانی سے ملاقات کیلئے بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن...
پنجاب، جہلم چناب زون کو اپنا پانی دینے کے بجائے دریا سندھ کا پانی دے رہا ہے ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ، سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے ، وزیر آبپاشی جام خان شورو سندھ حکومت کے اعتراضات کے باوجود ٹی پی لنک کینال سے پانی اٹھانے کا سلسلہ بڑھا دیا گیا، اس سلسلے میں ...
ہمیں یقین ہے افغان مہاجرینِ کی دولت اور جائیدادیں پاکستان میں ضائع نہیں ہونگیں ہمارا ملک آزاد ہے ، امن قائم ہوچکا، افغانیوں کو کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے ، پریس کانفرنس پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے کہا ہے کہ افغانستان آزاد ہے اور وہاں امن قائم ہ...
عدالت نے سلمان صفدر کو بانی پی ٹی سے ملاقات کرکے ہدایات لینے کیلئے وقت فراہم کردیا چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کی عمران خان کے ریمانڈ سے متعلق اپیل پر سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کرانے کے لیے تحریری حکم نامہ جاری کرنے کی ان کے وکی...
جب تک اس ملک کے غیور عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہیں فوج ہر مشکل سے نبردآزما ہوسکتی ہے ، جو بھی پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوگا ہم مل کر اس رکاوٹ کو ہٹادیں گے جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں وہ سن لیں یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے ،بیرون ملک مقیم پاکستانی ا...
اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے کوششیں تیز کی جائیں ، ممکنہ اتحادیوں سے بات چیت کو تیز کیا جائے ، احتجاج سمیت تمام آپشن ہمارے سامنے کھلے ہیں,ہم چاہتے ہیں کہ ایک مختصر ایجنڈے پر سب اکٹھے ہوں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین سے ملاقات تک مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پر کوئی بات نہیں ہوگی، ہر...