... loading ...
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگاکہ بی جے پی حکومت میں سب سے زیادہ توانائی فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو حاصل ہوئی ہے ۔ ان کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ جب اور جہاں چاہیں مسلمانوں کو مارنے اور کاٹنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ان کی لنچنگ کرسکتے ہیں اور انھیں شارع عام پر ’جے شری رام ‘کہنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ ملک میں کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زہر اگلنے کے بعد چند دن حراست میں رہتے ہیں اور پھر قانون کے شکنجے سے آزاد ہوکر زیادہ طاقت کے ساتھ دوبارہ مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔اس کا تازہ ترین ثبوت جنترمنتر کا واقعہ ہے ، جہاں کھلے عام مسلمانوں کی گردنیں کاٹنے کی باتیں ہوئیں۔ جس شخص نے یہ پروگرام منعقد کیا تھا، اسے 72 گھنٹے بعد گرفتار کیا گیا ، لیکن چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں عدالت نے اس کو ضمانت دے دی۔اس اشتعال انگیزی کا ایک انتہائی خطرناک ملزم پنکی چودھری ابھی تک پولیس کی گرفت سے باہر ہے اور وہ نیوزچینلوں کو انٹرویو دے کر اب بھی زہر اُگل رہا ہے ، لیکن پولیس اور قانون کی مشینری اس کا کچھ نہیں بگاڑ پارہی ہے ۔اس دوران اترپردیش کے کانپور شہر میں ایک مسلم رکشا والے کو اس کی کمسن بیٹی کے سامنے انتہائی بے دردی سے زدوکوب کیے جانے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے ۔کھلی غنڈہ گردی کرنے والے ’جے شری رام ‘کا نعرہ لگارہے ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ جنتر منترکاعلاقہ دہلی میں جمہوری احتجاج کے ایک اہم سنگ میل کے طورپر جانا جاتا ہے ۔ یہاں ہرجماعت اور فردکو اپنے دستوری حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی چھوٹ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بڑی بڑی جمہوری تحریکوں نے جنم لیا ہے ۔ شاید اسی لیے جنتر منتر کو جمہوریت کی پناہ گاہ بھی کہا جاتاہے ۔لیکن گزشتہ اتوار کو یہاں مذہبی جنونیوں نے فرقہ پرستی کا جو ننگا ناچ کیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ’بھارت چھوڑوتحریک ‘ کی سالگرہ پر یہاں جو لوگ ’دیش جوڑنے ‘ کے نام پر اکٹھاہوئے تھے ، انھوں نے کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکیاں دیں۔ ہندوستان میں رہنے کے لیے ’جے شری رام ‘ کہنے کی شرط لگائی اور وہ سب کچھ کہا جس کی اجازت ملک کا قانون کسی بھی صورت میں نہیں دیتا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوامگر وہ خاموش تماشائی بنی رہی۔اس سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ کسی نام نہاد سیکولر پارٹی نے اس واقعہ کی مذمت نہیں کی۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ فسطائی ٹولہ ملک میں مسلمانوں کو للکار رہا ہے ۔جب سے بی جے پی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے تب سے اس قسم کے واقعات مسلسل رونما ہورہے ہیں۔مسلم دشمن عناصر کی ٹولیاں کھلے عام انھیں قتل کرنے اور مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ مسلمانوں کے جائز اور دستوری حقوق کو پیروں تلے روندنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے نیچے یعنی راجدھانی دہلی میں ہورہا ہے جہاں نظم ونسق کی مشنری براہ راست مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کے کنٹرول میں ہے ، لیکن وہ ان شرمناک واقعات سے قطعی بے خبر ہیں ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنتر منتر کے واقعہ پر عوامی احتجاج کے بعد جب پولیس حرکت میں آئی تو اس نے ’ نامعلوم ‘ افراد کے خلاف معاملہ درج کیا۔ جبکہ مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی دھمکیاں دینے والوں کے چہرے اس وقت تک اتنے نمایاں ہوچکے تھے کہ ہرکوئی انھیں پہچان سکتا تھا۔ لیکن پولیس کے پاس ان چہروں کو شناخت کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔کافی لعنت وملامت کے بعد اشتعال انگیز ویڈیو میں موجود کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار شدگان میں دہلی بی جے پی کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے بھی شامل تھے ، جو اپنے ہم نواؤں کے ساتھ تعزیرات ہند کی 200دفعات کو دستور سے خارج کرنے کا مطالبہ کرنے وہاں جمع ہوئے تھے ۔ ان میں بیشتر دفعات وہ ہیں جو اس ملک میں مسلمانوں کو سراٹھاکر جینے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔اشونی اپادھیائے اب شہ سرخیوں میں ہیں اور پوری امید ہے کہ انھیں کوئی بڑی ذمہ داری سونپی جائے گی اور وہ بی جے پی کے اہم لیڈران میں شمار ہونے لگیں گے ۔جب سے بی جے پی نے مرکز میں اقتدار سنبھالا ہے تب سے یہی ہورہا ہے ۔ یعنی جس کسی کو پارٹی میں اپنا قد بلند کرنا ہوتا ہے ، وہ مسلم دشمنی کے کاروبار میں شامل ہوجاتا ہے کیونکہ موجودہ نظام میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار یہی ہے ۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ پچھلے سال دہلی اسمبلی کے انتخابات کی مہم کے دوران ’’ گولی مارو۔۔۔‘‘ کا نعرہ اچھالنے والے جونیئر مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر کو حالیہ کابینی ردوبدل میں ترقی دے کر کابینہ درجہ کا وزیر بنادیا گیاہے ۔
جنتر منتر کے واقعہ کے سلسلے میں جن لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں، وہ سماج میں مسلمانوں کے خلاف مستقل زہر گھولنے کا کام کررہے ہیں۔ اس سے قبل دہلی کے دوراکا علاقہ میں حج ہاؤس کی تعمیر کے خلاف ہوئی پنچایت میں بھی یہی لوگ پیش پیش تھے ۔ دہلی بی جے پی کے صدرآدیش گپتا نے اس میں شریک ہوکر احتجاج کرنے والوں کا حوصلہ بڑھایا تھا۔دہلی ہوائی اڈے کے نزدیک مجوزہ حج ہاؤس کے لیے زمین تو بارہ سال پہلے الاٹ کی گئی تھی ، لیکن وہاں ابھی تک حج ہاؤس کی تعمیر کاکام شروع نہیں ہوپایاہے ،البتہ اس کی مخالفت میں سنگھ پریوار کی تمام تنظیمیں صف آراء ہوگئی ہیںاور انھوںنے دوراکا کے تمام باشندوں کی ایک تنظیم بناکر مجوزہ حج ہاؤس کی اس انداز میں مخالفت شروع کردی ہے ،گویا اس کی تعمیر سے علاقہ کا امن وامان غارت ہوجائے گا۔ اتنا ہی نہیں یہاں فساد جیسے حالات پیدا ہونے اور علاقہ سے ہندوؤں کی نقل مکانی کا اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے ۔ یہ سب دراصل مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی سازش کا ایک حصہ ہے جس میں حکمراں جماعت پوری طرح شامل ہے ۔
اس سے قبل سوشل میڈیا پرمسلم خواتین کی نیلامی کے لیے ’ لبرل ڈاگ‘ اور ’سلی ڈیلز ‘جیسے فتنہ انگیز ایپ کی دھوم سنائی دی تھی جس کی تحقیقات کے لیے پچاس سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ نے وزیرداخلہ کو میمورنڈم دیا تھا۔ اتنا ہی نہیں اس معاملے میں دہلی خواتین کمیشن نے بھی پولیس سے جواب طلب کیا تھا، لیکن ابھی تک نہ تو حج ہاؤس کی مخالفت کرنے والوں اور اور نہ ہی مسلم خواتین کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں آئی ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے ماہ دہلی سے متصل ہریانہ کے پٹودی علاقہ میں مسلم خواتین کے خلاف انتہائی توہین آمیز تقریریں کی گئی تھیں۔ تقریر کرنے والا نوجوان وہی رام بھکت گوپال تھا جسے گزشتہ سال جامعہ میں طلباء پر فائرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد کو اسے عدالت نے ضمانت دے دی تھی، لیکن جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ دوبارہ مسلم دشمنی کے کاروبار میں شامل ہوگیا ۔پٹودی میں انتہائی اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں اس کی دوبارہ گرفتاری عمل میں آئی۔ ایک فاضل جج نے اس کو کورونا سے زیادہ خطرناک وائرس قرار دیتے ہوئے ضمانت دینے سے انکار کردیا تھا، لیکن چند دن بعد اسے ایک دوسری عدالت سے ضمانت مل گئی۔ پٹودی کے انتہائی اشتعال انگیز پروگرام میں بھی بی جے پی کے ترجمان شریک ہوئے تھے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور قتل عام کی دھمکیاں دینے والوںکے خلاف ایسی معمولی دفعات کے تحت مقدمے قائم ہوتے ہیں کہ انھیں پہلی ہی پیشی میں ضمانت مل جاتی ہے ۔جنتر منتر واقعہ کے سلسلے میں بھی یہی ہوا اور کلیدی ملزم کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت نے ضمانت پر چھوڑدیا۔ اس کے برعکس جن مسلمانوں کو اشتعال انگیزی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے ، ان پر وطن دشمنی اور دہشت گردی کی ایسی سنگین دفعات لگائی جاتی ہیں کہ انھیں ضمانت ہی نہ ملے ۔ پچھلے سال شمال مشرقی دہلی کا فساد بھڑکانے کے الزام میں جن سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ ابھی تک جیل میں ہیں ،کیونکہ ان پر انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے ۔ ان میں سے بیشتر وہ نوجوان ہیں جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک میں حصہ لیا تھااور شاہین باغ جیسے بے نظیر احتجاجی پروگرام منعقد کیے تھے ۔ ان سب کو انتقامی کارروائی کے تحت شمال مشرقی دہلی کے فساد کی سازش میں ماخوذ کرلیا گیا ہے اور اتنی سخت دفعات لگائی گئی ہیں کہ ڈیڑھ سال گزرجانے کے باوجود انھیں ضمانت نہیں مل سکی ہے ۔اس کے برعکس جن لوگوں نے اعلانیہ فساد بھڑکایا تھا، ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا ہے ۔ان میں ایک مثال دہلی کے بی جے پی لیڈر کپل مشرا ہیں،جنھوںنے پچھلے سال جعفرآباد میں ڈی سی پی کی موجودگی میں فساد کرانے کی کھلی دھمکی دی تھی ، لیکن سارے ثبوت موجود ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ جب ہائی کورٹ کے جج جسٹس مرلی دھر نے جب اس معاملے میں دہلی پولیس کو پھٹکار لگائی تو راتوں رات ان کا تبادلہ چندی گڑھ کردیا گیا۔اس موقع پر اشتعال انگیزی کی تمام حدیں پار کرنے والی راگنی تیواری کے خلاف بھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنتر منتر پر دھاڑتی ہوئی نظر آئی۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی جو بھی کوششیں کی جارہی ہیں، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک کے اندر ہندومسلم تفریق پیدا کرکے اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جائے اور مسلمانوںمیں خوف وہراس پھیلایا جائے ۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے آخری درجے کی اشتعال انگیزی کے باوجود ابھی تک صبر وضبط کادامن نہیں چھوڑا ہے ۔ آگے بھی یہی امید ہے کہ وہ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے جال میں نہیں پھنسیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔