... loading ...
درگاہ میں ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا اسلام کے کتنے بنیادی ارکان ہیں؟
پانچ۔ اس نے جواب دیا۔ کلمہ شہادت،حج، روزہ ،نماز اور زکوۃ
یہ سن کر قریب بیٹھے ہوئے حضرت بابا فریدؒ گج ِ شکرنے کہا چھٹے کو بھی شمارکرلو ۔۔انہوں نے استفسارکیا کہ بابا جی اسلام کاچھٹا رکن کون سا ہے؟ ۔۔انہوں نے بڑی متانت سے فرمایا بھوک
پیٹ نہ پیاں روٹیاں
تے ساری گلاں کھوٹیاں
ہم ذرا غورتو کریںبھوک غربت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے بھوک اتنی نامرادشے ہے کہ یہ جسم فروشی تک مجبورکردیتی ہے انسان کو کفر تک لے جاتی ہے اسی لیے غربت سے تو نبی ٔ اکرم ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے غربت تمام برائیوںکی ماں کہاجاسکتاہے پاکستان میں کچھ عرصہ قبل دو آدم خور بھائی پکڑے گئے تھے جنہوںنے یہ خوفناک انکشاف کیا کہ انہوںنے بھوک سے تنگ آکر مردوںکو قبروں سے نکال کر کھاناشروع کردیا ان کی داستان سن کررونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
عبدالحمید ایک غریب طالب علم تھا انتہائی خوبرو،علم کا متلاشی ،دوسروں سے قطعی مختلف۔۔ کچھ کلاس فیلو موج مستی بھی کرتے کھیل کود میں بھی وقت گذاردیتے لیکن وہ دن رات کتابیں پڑھتا ،استاتذہ اور علماء سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی جستجو میں لگارہتا وہ تھا توبہت زیادہ غریب لیکن اسے اپنی عزت نفس بہت پیاری تھی یہ مدرسہ ایک مسجد سے متصل تھا جو ایک قدیمی محلہ میں واقع تھا اور وہاں تمام مکانات قدیمی طرز پر اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور چھتوں سے ہی سارے محلہ میں جایا جاسکتا ہے اسے کچھ ملا تو کھاکر خدا کا شکرادا کرلیا ورنہ بھوکا پیاسا رہ کر صرف علم کے حصول کے لیے کوشاں رہنا ہی اس کی زندگی کا مقصد تھا اسے کسی سے مانگتے تو اسے بہت شرم آتی تھی۔ سردیوںکا موسم آیاتواس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاگیا کیونکہ یہاں کافی برف باری ہوتی تھی جس کے باعث مدرسے میں آنے والوںکی تعداد کم سے کم ہوتی چلی گئی پہلے پہل صرف چند نمازی ہی آنے لگے پھر موسم کی شدت میں اضافہ ہوا تو ان میں سے کئی آنا بندہوگئے مدرسے کے اساتذہ کرام بھی فاقے کرنے لگے لیکن اس کے باوجودسب یہ سختیاں حصول علا کے لیے برداشت کررہے تھے پھر وہ وقت بھی آیا کہ دو روز گزر گئے کہ عبدالحمید نے کچھ نہیں کھایا تھا ا کیونکہ س کے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی اور نہ ہی کھانا خریدنے کے لیے کوئی پیسہ اس کے پاس تھا جب بھی بھوک ستاتی وہ پانی پی لیتا تیسرے روز بھوک کی شدت سے اس کی حالت خیرہوناشروع ہوگئی اس نے احساس کیا کہ وہ مرنے کے قریب ہے! وہ سوچنے لگا کہ اب میں اضطراری حالت میں ہوں کہ شرعی طور پر جان بچانے کے لیے حرام جائز ہوجاتاہے اب عبدالحمید نے سوچا کیاضرورت کے لیے چوری کرنا جائز ہے؟ اس کے دل و دماغ نے اثبات میں سرہلادیا دمشق کے ممتاز ادیب شیخ علی طنطاوی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے یہ سچا واقعہ ہے اور میں ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں اور اس واقعہ کی تفصیل سے آگاہ ہوںسا تویں ہجری میں ایک مسلمان بادشاہ نے اس کو خرید کر وہاں ایک مسجد تعمیر کرائی پہلے اس کا کوئی اور نام تھا پھراس مسجد کا نام توبہ رکھا گیا اس کا یہ نام رکھنے کی ایک خاص وجہ یہ ایک واقعہ ہے جس کے بارے میں میں بتانا چاہتاہوں کہ اللہ کے نزدیک توبہ کا کیا مقام ہے ہاں تو یہ مسجد ایک قدیمی محلہ میں واقع تھی اور وہاں تمام مکانات قدیمی طرز پر اس طرح بنے ہوئے تھے کہ ایک دوسرے کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں جس سے سارے محلہ میں کسی بھی مکان تک جایا جاسکتا تھا بھوک اور پیاس سے تنگ آکر عبدالحمید ڈرتے ڈرتے مسجد کی چھت پرگیا اور وہاں سے محلہ کے گھروں کو چوروںکی طرح پھلانگتا ہوا ایک طرف چل دیا پہلے گھر کی چھت پر پہنچا تو وہاں کچھ خواتین کے شور کی آواز یں صاف سنائی د ینے لگیں وہ بے آواز چلتاہوا دوسرے گھر کی چھت پر چلاگیاو ہاں اس نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی وہ دبک کر پیچھے ہٹاتو اگلے گھرکی چھت پر جا پہنچا وہاں کسی قسم کی کوئی سرگرمی محسوس نہ ہوئی خوف اورندامت سے اس کا پورا جسم پسینے میں نہاگیا وہ چپکے سے سیڑھیاں اترنے لگا گھرمیں جیسے کوئی ذی روح نہ ہو وہ لپک کر کچن میں جاگھسا جہاں سے کھانے کی بھین بھینی خوشبو آرہی ہے- بھوک کی شدت میں جب کھانے کی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی تو آہن ربا کی مانند اس کو اپنی طرف کھینچ لیا وہ فورا ًباورچی خانے میں پہنچا – تجسس اور بھوک سے بے تاب ہوکر اس نے دیگچی کا ڈھکن اوپر اٹھایا تو اس میں بھرے ہوئے بینگن کا سالن تھا- وہ سوچنے لگا یہ بھوک بھی کیسی ظالم چیزہے انسان کے لیے حرام کو جائزبنادیتی ہے اس نے ایک بینگن اٹھایا بھوک کی شدت نے اس کے گرم ہونے کی بھی پرواہ نہیں کی اس نے انتہائی بے تابی اور ندیدوںکی طرح بینگن کو دانتوں سے کاٹا اور جیسے ہی نگلنا چاہاعبدالحمید کی عقل و ضمیر کے درمیان کش مکش ہونے لگی بھوک کہنے لگی اسے جلدی سے کھالو یہ نہ ہوکوئی آن پہنچے اورتم مارے بھوکے کے بے ہوش ہوکرکہیں گرنہ جائو ضمیر نے ملامت کی بھوک سے مجبور ہوکر چوری کرنا انتہائی گھٹیا حرکت اور کمینگی ہے پھر اس کا ایمان جاگ اٹھااپنے آپ سے کہنے لگا اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے اپنی پناہ میں رکھے! میں طالب علم ہوں جس کی زندگی کا مقصدعلم کاحصول ہوناچاہیے چوری کرنا نہیں یہ زیبا نہیں دیتا کہ کسی کے گھر میں گھسں کرچوری کرو ؟؟ اسے اپنے آپ سے گھن آنے لگی اسے اپنے اس فعل پر شرم آنے لگی وہ دل ہی دل میں ,پشیمان ہوگیا اس نے استغفار کیا اور پھر بینگن کو واپس دیگچی میں رکھ دیا وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی سراسیمہ واپس لوٹ گیا بھوکا،پیاسا ،نامراد- وہ مسجد میں داخل ہوا اللہ کے حضور سربسجدہ ہوگیا کہ اس نے ایک گناہ سے بچالیا تھا پھر وہ بے جان قدموں سے مسجدسے متصل مدرسے میں اپنے شیخ کے حلقہ درس میں شامل ہوگیا بھوک کی شدت سے وہ کچھ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ شیخ کیا درس دے رہے ہیں؟ اسی دوران ایک خاتون مکمل حجاب میں وہاں آئی – (اس زمانے میں خواتین بغیر حجاب کے کہیں جانے آنے کا تصور بھی نہیں کرتی تھیں) خاتون نے شیخ سے کچھ گفتگو کی اور عبدالحمید ان دونوں کی گفتگو نہیں سمجھ سکا اس کی آنکھوںکے سامنے کبھی روٹی اور کبھی بیگن کا تصور ابھررہاتھا وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ شیخ نے اپنے چاروں اطراف نظر دوڑائی عبدالحمیدکے علاوہ وہاں کوئی بھی نہ تھااس کو آواز دے کر پوچھا عبدالحمید کیا تم شادی شدہ ہو ؟
عبدالحمید نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں!
شیخ نے کہا: تم شادی کرنا چاہتے ہو؟
عبدالحمید کے لب کپکپائے وہ خاموش ہوکر رہ گیا… اس کے سامنے تو بھوک ناچ رہی تھی وہ سوچنے لگا مجھے خود روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں میں نے شادی کرلی تو بیوی کو کہاں سے کھلائوں گا؟
شیخ نے پھر کہا: مجھے بتاؤ تم شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟ خاتون بھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی
عبدالحمید نے جواباً کہاخدا کی قسم میرے پاس ایک لقمہ روٹی کے لیے پیسے نہیں ہی میں کس طرح شادی کروں؟
شیخ نے کہا: یہ خاتون آئی ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کا شوہر وفات پاگیا ہے اور اس شہر میں بیکس ہے اور اس کا دنیا میں سوائے ایک ضعیف چچا کے کوئی عزیز و رشتہ دار نہیں ہے اسے آسرا چاہیے کچھ لوگ اس کی جائدادپر قبضہ کرنا چاہتے ہیں یہ خاتون اپنے چچا کو ساتھ لیکر آئی ہے .. ..اور وہ اس وقت اس مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا ہے .. اگر تم ہاں کردو تو میں اسے بلالیتاہوں .اور اس خاتون کو اس کے شوہر سے گھرر اور مال وراثت میں ملا ہے. شیخ بولے تو پھربولتے ہی چلے گئے اب یہ آئی ہے اور ایسے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے جو شرعا اس کا شوہر اور اس کا سرپرست ہو- تاکہ تنہائی اور بدطینت انسانوں سے محفوظ رہ سکے ۔۔کیا تم اس سے شادی کے لیے رضامند ہو ؟
نہ جانے وہ کون سی طاقت تھی جس نے عبدالحمید کو مجبورکردیا کہ وہ ہاں کہہ دے ۔۔ اس نے اثبات میں سر جھکادیا شیخ نے خاتون کے چچا کو بلا بھیجا پھر اس کی موجودگی میں خاتون سے پوچھا: کہ تم اس کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کرتی ہو؟ اس نے بھی مثبت جواب دیا ۔ اب شیخ نے اس خاتون کے چچا اور دو گواہوں کو بلاکر ان دونوں کا عقد پڑھ دیا اور اس طالب علم کے بجائے خود اس خاتون کا مہر ادا کیا- اور پھر اس خاتون سے کہا: اپنے شوہر کا ہاتھ تھام لے اس نے مسکرا کر اپنے مجازی خداکر ہاتھ تھام لیا اور سب لوگوںکو ساتھ لے کر وہ خاتون اپنے گھر لے آئی سب کی تواضح کی پھر سب رخصت ہوگئے تو خاتون نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹادیا عبدالحمید اپنی زوجہ کے حسن و جمال سے مبہوت ہوگیا! اس نے بے اختیار اپنی بیوی کو بانہوںمیں لے لیا پھر جب وہ اس گھر کی طرف متوجہ ہوا تو حیران رہ گیا اس پر انکشاف ہوا تھا کہ وہی گھر ہے جس میں وہ کھانا چوری کرنے کیلئے داخل ہوا تھا وہ حیران پریشان کھڑا تھا کہ اس کی بیوی نے شوہر سے کہا میںتمہیں کچھ دکھانا چاہتی ہوں وہ اسے لے کر کچن میں آئی اس نے دیگچی کا ڈھکن اٹھایا اور بینگن کو دیکھا اور بولی: عجیب چور تھا جو گھر تک آیا اس نے کچھ نہیں چرایا دیکچی سے ایک بینگن اٹھایا پھر اسے دانتوں سے کاٹا کھایا بھی نہیں اور واپس دیگچی میں رکھ کر چلا گیا میں خوفزدہ ہوگئی اپنے چچا کو بلاکر سارا ماجرہ کہہ سنایا چچا نے زوردیا کہ عورت کا اکیلے رہنا مناسب نہیں اس لیے تم عقدِ ثانی کرلو اسی لیے میں انہیں لے کر تمہارے شیخ کے پاس گئی تھی.. یہ سن کر عبدالحمید کی چیخ نکل گئی وہ بے اختیاررونے لگ گیا اور اپناسارا قصہ اس کو کہہ سنا یا خاتون نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا: یہ تمہاری امانت داری اور تقوی کا نتیجہ ہے تم نے حرام بینگن کھانے سے اجتناب کیا تو اللہ نے سارا گھر اور گھر کی مالکن کو حلال طریقے سے تمہیں نوازدیا سچ ہے جو کوئی اللہ کی خاطر کسی گناہ کو ترک کرے اور تقوی اختیار کرے تو اللہ اجرکے طورپر اس کے مقابل میں بہتر چیز اس کو عطا کردیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔