... loading ...
سْکنیا شانتا
پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر یا سپائی ویئر کے ذریعہ عالمی سطح پر 50 ہزار سے زائد اہم شخصیتوں کی جاسوسی کی گئی یا ان کے نام نگرانی کیے جانے والوں میں شامل کیے گئے۔ بھارت میں بھی بے شمار مرد و خواتین کے موبائل فون کی اس سپائی ویئر کے ذریعے جاسوسی کی گئی اور یہ دیکھا گیا کہ وہ کس سے بات کر رہے ہیں؟ کیوں بات کر رہے ہیں؟ کیا بات کر رہے ہیں؟ کس قسم کے پیغامات کا تبادلہ عمل میں ا? رہا ہے؟ کہاں جا رہے ہیں، ان کی سرگرمیاں کیا ہیں، رقم کا لین دین کس سے کر رہے ہیں اور اس کی قدر کیا ہے۔ اس طرح کی سب معلومات جمع کی گئیں۔ خاص طور پر بھارت میں جس ایجنسی نے پیگاسس سپائی ویئر استعمال کیا ہے‘ اس کا ڈیٹا افشا ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 60 سے زائد خواتین بھی ان میں شامل ہیں جن کے موبائل فون کی نگرانی کی گئی یا ان کے نام امکانی نگرانی والی فہرست میں شامل کیے گئے۔
واضح رہے کہ عالمی سطح پر 50 ہزار سے زائد لوگوں کی جاسوسی کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے اور ان 50 ہزار افراد تک فرانس کے ایک غیر منافع بخش ادارے ’’فاربڈن ا سٹوریز‘‘ اور ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ کو رسائی حاصل ہوئی۔17 مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ مل کر ایمنسٹی اور فوربڈن ا سٹوریز نے ’’دا پیگاسس پروجیکٹ‘‘ کے نام سے ایک تحقیق شروع کی جس میں انہوں نے 80 کے قریب صحافیوں سے یہ فہرست شیئر کی اور ان نمبروں کا تجزیہ کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ جاسوسی اور نگرانی کرنے والا یہ سافٹ ویئر کس کس کے فون کو متاثر کر چکا ہے۔ اس تحقیق کی مدد سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں 50 ہزار سے زیادہ حکومتی اہلکاروں، صحافیوں، کاروباری شخصیات، انسانی حقوق کے کارکنان، وکلا اور کئی اہم لوگوں کے فون اس فہرست میں شامل ہیں۔ اس فہرست میں کئی ممالک کے سربراہان کے زیر استعمال یا پرانے موبائل نمبر بھی شامل ہیں۔ ان میں سے 67 افراد کے موبائل ڈیوائسز کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تجزیہ کرنے کے لیے حاصل کیا جس میں سے 37 فون ایسے تھے جن پر پیگاسس کے حملے کا سراغ ملا۔ پتا چلا ہے کہ یہ سپائی ویئر این ایس او گروپ‘ اسرائیل میں کام کرنے والی ایک نجی سافٹ ویئر کمپنی‘ کا بنایا ہوا ہے اور یہ کمپنی 2010ء میں قائم کی گئی تھی۔ اس کمپنی کا سب سے معروف سافٹ ویئر پیگاسس ہی ہے جو آئی فون اور اینڈرائڈ فون تک خفیہ طریقے سے رسائی حاصل کر کے اْن کی جاسوسی اور نگرانی کر سکتا ہے۔ یہ اطلاعات منظر عام پر آنے سے بھارت، فرانس اور دنیا بھر کے مختلف مقامات پر ایک سیاسی و سفارتی طوفان کھڑا ہوگیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انفرادی پرائیوسی اور خاص طور پر خواتین پر اس جاسوسی سافٹ ویئر کے اثرات کے بارے میں بہت کم توجہ مرکوز کی گئی۔ پیگاسس سے متاثرہ فون میں جاسوسی سافٹ ویئر کو نہ صرف پیغامات، تصاویر اور ای میل تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے بلکہ یہ جاسوس بہ آسانی فون پر ہونے والی گفتگو بھی ریکارڈ کر سکتا ہے۔ مینال گاڈلنک کے مطابق میرا فون میرے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے‘ میں اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی ہوں یہاں تک کہ اپنے بیڈروم میں بھی۔
مینال گاڈلنک کے شوہر سریندر گاڈلنک ناگپور کے مشہور و معروف فوجداری وکیل ہیں۔ انہیں جون 2018ء میں کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پیگاسس پروجیکٹ شروع کیے جانے سے چند دن قبل ہی مینال گاڈلنک کو امریکا کی ڈیجیٹل فارنزک فرم ’’آرسینل کنسلٹنگ‘‘ نے اس بات سے آگاہ کیا کہ ان کے شوہر کے لیپ ٹاپ سے بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ مینال کہتی ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے چاروں طرف سے بمباری کی جائے اور ہر طرف سے ہمارے ڈیٹا اور زندگیوں کو چھیننے کی کوششیں کی جا رہی ہوں۔ جو ڈیٹا بیس لیک ہوا ہے‘ اس میں اشارہ دیا گیا ہے کہ سریندر گاڈلنک کے معاون وکیل نیہال سنگھ راٹھور کا فون نمبر بھی امکانی نگرانی کی فہرست میں شامل تھا۔ یہ 2018ء کے اوائل کی بات ہے۔ اس سے چند مہینے پہلے ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔ نیہال سنگھ راٹھور کی اہلیہ شالنی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو جان بوجھ کر اس طرح کے پاگل پن میں کھینچا گیا۔ مجھے پہلے ہی سے لگ رہا تھا کہ کوئی ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔ لیک شدہ ڈیٹا بیس سے یہ بھی پتا چلا کہ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کرنے والی سپریم کورٹ کی سابق ملازمہ اور ان کے خاندان کے 11 افراد بھی امکانی نگرانی والی فہرست میں شامل تھے۔ قبائلیوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی سونی سوری کا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا۔ حد تو یہ ہے کہ یہ اْس وقت کم عمر تھیں‘ ان کی بھی نگرانی کے لیے ان کے فون کو نشانہ بنایا گیا۔ ویریندا بھنڈاری نامی دہلی میں کام کرنے والی خاتون وکیل‘ جن کا نام فہرست میں شامل نہیں‘ کا کہنا ہے کہ جاسوسی کی یہ حرکت جسمانی استحصال ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں 2017ء کے ایک بھارتی سپریم کورٹ فیصلے کا حوالہ بھی دیا اور بتایا کہ جسٹس کے ایس پٹا سوامی بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمے میں سپریم کورٹ کے ایک 9 رکنی بنچ نے متفقہ طور پر اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ حق پرائیویسی میں ذہن اور جسم کی شخصی خودمختاری بھی شامل ہے اور یہ صرف معلوماتی پرائیویسی تک محدود نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیگاسس استعمال کرتے ہوئے جو کچھ کیا گیا‘ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 69 کے تحت قانونی طور پر دی گئی اجازت سے بالکل مختلف ہے۔ ڈاکٹر انجا کوویکس اپنی جینڈرنگ سرویلنس ویب سائٹ پر لکھتی ہیں کہ صنفی نگرانی کرتے ہوئے ہم نگرانی کے نقصانات کو گھر میں لا رہے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اور کہیں پر بھی خواتین کی طویل عرصہ سے نگرانی کی جا رہی ہے اور اس عمل سے تمام ذات پات، مذاہب کے ماننے والی اور امیر غریب تمام خواتین متاثر ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے ڈیجیٹل انڈیا پہل پر بہت زور دیا ہے۔
بھارت میں 95 فیصد انٹرنیٹ کا استعمال، موبائل فون کے ذریعے ہوتا ہے اور بھارتیوں کا انحصار مسلسل موبائل فون پر بڑھتا جا رہا ہے، لیکن جب بعض آلات (موبائل فون) کسی فرد کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں تو یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے کی خاتون وکیل مشی چودھری جو ایک قانونی تنظیم کی بانی بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ ہم موبائل فون کے ذریعے آن لائن بینکنگ بھی کرتے ہیں، لیکن اس طرح کے سپائی ویئرز فون میں ڈال دیے جائیں تو پھر ہر راز اور پاس ورڈ یا کوڈ تک سائبر حملہ آوروں کو رسائی حاصل ہو جائے گی اور یہ دراصل ہمارے وقار و حرمت پر حملہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔