... loading ...
کہا جاتاہے کہ جنگ کے مقاصد اور فریق کبھی بھی نہیں بدلتے یعنی جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے۔ تب سے ہی ہماری زمین پر ہونے والی ہر جنگ کے فریق انسان اور صرف انسان ہی رہے ہیں ۔نیز اپنے سے کمتر قوم کی سر زمین پر قبضہ کرنا ، یااپنی غیرمعمولی طاقت کا اظہارکرنا، یا جارحیت سے دوسری قوم کو اپنا زیرنگیں بناکر مفتوح قوم کے زرخیز وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کی خواہش ہی جنگ کے بنیادی مقاصد میں کل بھی شامل تھی اور آج بھی شامل ہے اور گمانِ غالب ہے آئندہ بھی ان ہی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے جنگ و جد ل کے میدان سجائے جاتے رہیں گے ۔مگر جنگ میں ایک شئے ضرور ایسی ہے ،جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور وہ ہے ہتھیار ۔
جی ہاں! جنگی ہتھیار جنگ کی بنیادی کلید سمجھے جاتے ہیں اور اسی چابی کی مدد سے ہی جنگوں میں فتوحات کے مشکل و ناقابلِ تسخیر باب ، وا کیے جاتے ہیں ۔بلاشبہ جنگیں دنیا کے جغرافیائی نقشے تبدیل کرنے کا باعث بنتی ہیں لیکن کسی غیر معمولی ہتھیار کی ایجاد اور اُس کے بروقت استعمال سے اکثر و بیشتر جنگ کا اپنا نقشہ بھی مکمل طور پر بدل سکتاہے۔ مثال کے طور پر دست بدست جنگ کرنے والی فاتح اقوام کا سامنا جب تیرو تلوار جیسے ہتھیاروں سے ہوا تو وہ مفتوح ہوگئے ۔نیز تلوار چلانے والی قوم بندوق اور بارود استعمال کرنے والے حریفوں کے مقابل آئیں تو، شکست اُن کا مقدر ٹھہری ۔جبکہ توپ و تفنگ کے ماہر، بم برساتے ہوئے اُڑتے جہاز وں کے سامنے نہ ٹہر سکے ۔حد تو یہ ہے کہ بحری اور فضائی طاقت پر نازاں اقوام پر جب دو ایٹمی ہتھیارچلائے گئے تو انہوں نے بھی اپنی سپر حریف کے سامنے ڈالنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی ۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں پوری طرح سے حق بجانب ہیں کہ جنگیں لڑتے ضرور انسان ہی ہیں لیکن جیت ہمیشہ ہتھیاروں کی ہی ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں اپنی افواج کا عسکری دبدبہ قائم کرنے کے لیے چھٹی نسل(Sixth Generation) کے جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری سے کیا امریکہ اور چین کے درمیان اسلحے کی ایک نئی دوڑ کا آغاز ہوچکا ہے؟۔یہ ایک ایسا پیچیدہ سوال ہے جس کا جواب روئے زمین پر رہنے والے ہر اُس انسان کو چاہئے، جسے روس اور امریکا کے درمیان جاری عالمی سپر پاور کی جنگ میں ذرہ برابر بھی دلچسپی ہے۔ واضح اشارے تو یہی بتار رہے ہیں کہ جلد ازجلد ایک دوسرے پر عسکری سبقت اور برتری حاصل کرنے کے لیے چین اور امریکا کے مابین جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کی کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوچکی ہے۔رواں برس جون 2021 میں امریکی فضائیہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ’’سکستھ جنریشن‘‘کے جنگی ہتھیار جن میں ’’نیکسٹ جنریشن ائیر ڈومیننس‘‘ (این جی اے ڈی) کا شاہکار سسٹم نصف ہوگا ،کا استعمال آنے والے چند برسوں کے عرصے میں شروع ہو جائے گا۔ کچھ عرصہ قبل عالمی ذرائع ابلاغ پر آنے والی ایک اور تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہائپرسٹیلتھ بائیوٹیکنالوجی کارپوریشن نامی کینیڈا کی ایک کمپنی نے کامیابی کے ساتھ وسیع پیمانے پر نہ دکھائی دینے والی فوجی یونیفارم تیار کرنا شروع کردی ہے۔جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس یونیفارم کو پہننے والا مکمل طور پر دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتاہے۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اس کمپنی کے ساتھ ایک طویل المدتی معاہدہ بھی کرلیا ہے ۔جس کی مطابق یہ ادارہ اگلے کئی برسوں تک صرف امریکی افواج کے لیے غیرمرئی فوجی یونیفارم کی تیاری کرے گا۔باقی آپ خود سوچ سکتے ہیں ایک ایسی غیر مرئی فوج اپنے حریفوں کے لیے کس قدر خطرنا ک اور مہلک ثابت ہوسکتی ہے ،جسے میدان ِجنگ میں ملاحظہ نہ کیا جاسکے۔اَب تک پوشیدہ لباس کا خیال سائنس فکشن فلموں تک ہی محدود تھا لیکن کچھ بعید نہیں آنے والی ایام میں ہم غیر مرئی فوجی یونیفارم میں ملبوس افواج کے لڑنے کی بریکنگ خبر سماعت فرمائیں۔
دوسری جانب سائنس دان غیر مرئی فوجی یونیفارم سے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے جنگ میں استعمال ہونے والے مختلف ہتھیاروں کو بھی غیر مرئی یا اَن دیکھا بنانے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں اور کچھ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق وہ کامیاب بھی ہوچکے ہوں لیکن شاید ہمیں ابھی خبر نہ ہو۔ یعنی صرف سپاہی نہیں بلکہ جنگی ٹینکس ،بحری جہاز وغیرہ تک کے لیے ایسا پینٹ، مواد ، شیٹ یا پینل تیار کرلیا جائے کہ جس کے پیچھے موجود آنے والی ہر شئے اوجھل ہوجائے۔ دراصل سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہیں جنگی ہتھیاروں کو چھپانے کے لیے صرف میٹو میٹریلز ہی تو تیار کرنا ہے ،جس کی مدد سے الٹرا وایلیٹ، اورکت اور شارٹ ویو اورکت موڑی جاسکیں ۔
یاد رہے کہ ہائپرسٹیلتھ بائیوٹیکنالوجی کارپوریشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے پیٹنٹ کی صورت میں کوانٹم اسٹیلتھ (روشنی موڑنے والا مواد) دوسری صورت میں انویسٹیبل پوش کے نام سے تیار کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ہائپر اسٹیلتھ بائیو ٹیکنالوجی کے چیف ایگزیکٹوگائی کرمرکے مطابق ’’ہمارا تیار کردہ پینٹ روشنی کو اس طرح سے موڑدیتا ہے کہ صرف پس منظر ہی دکھائی دیتا ہے‘‘۔ یعنی پینٹ کے نیچے والی شئے دیکھی نہیں جاسکتی ۔کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ پر اس حوالے سے ایک گھنٹے کی ویڈیو بھی موجود ہے ۔جس میں مختلف اشیاء کو غیر مرئی یا اَن دیکھا کرنے کا عملی مظاہر ہ بھی دکھایا ، یا یوں کہہ لیں کہ چھپایا گیا ہے۔یاد رہے کہ مختلف چیزوں کو نظروں سے مکمل طورپر اوجھل کرنے سے متعلق یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔کیونکہ اس سے قبل انسانی نظروں سے غائب کرنے کے لیے اب تک جو لباس تیار کیے گئے تھے وہ دواطراف سے چیزوں کو نظروں سے چھپا سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے چھپی ہوئی اشیاء کا ایک سایہ سا بہر حال باقی رہ جاتا تھا، جس کا مخصوص آلات کی مدد سے سراغ لگایا جاسکتا ہے۔لیکن اَب یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی ماہرین نے مختلف چیزوں کو تین سمتوں سے اوجھل کرنے میں کامیابی بھی حاصل کر لی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے امریکا کے جدید ترین ہتھیاروں سے چینی قیاد ت کسی بھی طرح غافل نہیں ہے ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا کے سکستھ جنریشن ہتھیاروں کا چابک دستی سے مقابلہ کرنے کے لیے چین کے سائنسدانوں نے مائیکرو ویو ٹیکنالوجی کی مدد سے مبینہ طور پر ایسا غیر مہلک ہتھیار بنا لیا ہے جو انسانی اعصاب پر حملہ کر کے اسے مفلوج کر دیتا ہے ۔اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک انجینئر نے کچھ عرصہ قبل ایک غیر ملکی جریدے کو بتایا تھا کہ’’اس پراجیکٹ کا نام ’’مائیکرو ویو ایکٹیو ڈینائل سسٹم ’’ رکھا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو دو طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کا پہلا استعمال صرف ایک شخص کے مخصوص جسمانی حصے پر کیا جا سکتا ہے اور دوئم یہ کہ اس کا نشانہ وسیع آبادی کو بھی بنایا جاسکتاہے‘‘۔
چین کے محققین کے مطابق اس ہتھیار سے انسان کو کسی بھی قسم کا کوئی زخم یا کوئی مستقل تکلیف نہیں ہوتی، بس یہ تھوڑی دیر کے لیے متاثرہ شخص کے ذہن کو ماؤف کردیتا ہے ۔ یہ نظام کسی بھی گاڑی میں نصب ہو سکتا ہے اور اس ہتھیار کو ممکنہ طور پر مقامی پولیس اور چین کے ساحلی گارڈ استعمال کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی زمینی اور بحری کارروائیوں کے لیے مساوی طور پر کارآمد ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اس سے قبل 2014 میں اسی ٹیکنالوجی کے تحت پولی ڈبلیو ون نام کا میزائل بنا چکا ہے۔راکٹوں سے داغے جانے والے یہ اعصاب شکن ہتھیار بلاتفریق فوجیوں اور عام شہریوں کو ہزاروں کی تعداد میں متاثر کر سکتے ہیں۔تاہم روس نے بھی سرن، وی ایکس یا نوویچوک جیسے خفیہ اعصاب شکن بنانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ کہا جاتاہے کہ روس میں بنایا گیایہ اعصاف شکن ہتھیارچند برس قبل برطانیہ میں ایک خفیہ جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی یولیا کے خلاف استعمال کیا گیاتھا ۔ لیکن روس کا موقف ہے کہ یہ فقط ایک الزام ہے اور اس کی جانب سے ابھی تک کسی بھی اعصاب شکن ہتھیار کا عملی استعمال نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ اعصاب شکن ہتھیارجو جسم کے مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کر کے اسے درست انداز میں کام کرنے سے روک دیتے ہیں۔ اگر ان ہتھیاروں کا زیادہ مقدار میں استعمال کر دیاجائے گو اس کے نتیجے میں متاثرہ شخص پر فوری طور پر تشنج کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے یا دل کی دھڑکن بند ہونے کے نتیجے میں وہ ہلاک بھی ہوسکتاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اعصاب شکن ہتھیار زیادہ تر بے رنگ مائع کی شکل میں ہوتے ہیں ۔جن میں یا تو بو بالکل بھی نہیں ہوتی یا ہلکی سی خوش بو ہوتی ہے۔ اعصاب شکن ہتھیار کے بخارات فضا میں شامل ہوکر انسانی جسم میں سانس کے ذریعے داخل ہو سکتے ہیں،نیز آنکھوں اور جلد کے ذریعے جذب بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ مادے جسم کی سطح پر ٹھہرسکتے ہیں تاہم انہیں دھویا جا سکتا ہے۔دراصل اعصاب شکن ہتھیار سے نکلنے والا مادہ عام جسمانی افعال کو بے ترتیب کردیتا ہے ۔جس کی وجہ سے متاثرہ شخص کی ناک بہنا شروع ہو جاتی ہے، پُتلیاں سکڑنے لگتی ہیں، متلی اور خفقان کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، بینائی متاثر ہونے لگتی ہے، جسمانی افعال بے قابو ہو جاتے ہیں اور سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔اعصاب شکن مادے کی زیادہ مقدار سے متاثر ہونے کی صورت میں اینٹھن یا تشنج کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے جس کا نتیجہ بے ہوشی یا موت کی صورت میں نکلتا ہے۔نیز اعصاب اور نظامِ تنفس بے کار ہونے پر متاثرہ افراد ایک سے دس منٹ میں ہلاک بھی ہوسکتے ہیں ۔
ماہرین کے مطابق اِن اعصاب شکن ہتھیاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بے حد آسان ہوتاہے۔ جبکہ انہیں بموں ،میزائل اور راکٹوں کی مدد سے بھی دور دراز علاقوں میں حملے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق گزشتہ برس ملائشیا کے ایئرپورٹ پر حملہ آوروں نے شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان کے سوتیلے بھائی، کم جانگ نیم کے چہرے پر وی ایکس مادہ مل کر اُنہیں قتل کر دیا تھا۔کہا جاتاہے کہ1930 میں ایک جرمن سویلین سائنس دان نے فصلوں کے لیے طاقتور کیڑے مار دوا تیار کرتے ہوئے حادثاتی طور پر پہلا اعصاب شکن مادہ دریافت کیا تھا۔ اس سے فصلی کیڑے مکوڑے تو ہلاک ہو گئے تاہم یہ جانوروں اور انسانوں کیلیے بھی مہلک ثابت ہواتھا۔
نیزجرمن فوج نے دوسری جنگ عظیم میں سارین گیس بنانے کی ایک فیکٹری قائم کرکے بڑی تعداد میں اعصاب شکن ہتھیار تیار بھی کیے تھے۔ مگرجرمنی کی فوج کو انہیں جنگ میں اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کا موقع میسر نہ آسکا۔ اعصاب شکن ہتھیار بنانے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی عضلات کو پرسکون بنانے والی دوائیں، مثلاایٹروپین اور پریلی ڈوکسیم کلورائیڈ کے ذریعے اعصاب شکن ہتھیار کا توڑ بھی کیا جا سکتا ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل بعض ممالک کی جانب سے سرحدوں پر تعینات فوجیوں کو ابتدائی طبی امداد کے سامان میں عموماً ایسے خودکار ٹیکے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ جنہیں وہ اعصاب شکن ہتھیاروں کا حملہ ہونے کی صورت میں بطور علاج ازخود بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم اعصاب شکن ہتھیاروںکے حملے کے چند ہی منٹ یا گھنٹوں کے اندر فوری طور پر ان ٹیکوں کا استعمال نہ کیا جائے تو پھر اعصاب شکن ہتھیار کے مضر اثرات سے بچ پانا ناممکن ہوجاتاہے۔کیا امریکا اور چین ایک دوسرے کے خلاف سکستھ جنریشن ٹیکنالوجی سے لیس یہ جدید ترین اور عجیب و غریب ہتھیار استعمال بھی کرسکیں گے؟۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا تسلی بخش اور حتمی جواب فی الحال کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔