... loading ...
میراو زونسزین
اسرائیل میں کبھی امن و سکون نہیں ہوتا مگر اس جولائی میں یہاں ایک نئی چھان بین شروع ہو گئی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ خبر آئی کہ دنیا بھر کی حکومتوں نے اسرائیل کی سائبر سرویلنس کمپنی NSO Group سے جاسوسی کے جدید ا?لات خریدے ہیں جن کی مدد سے مخصوص صحافیوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سیاست دانوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔ ان انکشافات سے اسرائیل کی وزارتِ دفاع کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کہ اس نے این ایس او گروپ کو ہیکنگ سافٹ ویئر برآمد کرنے کی اجازت دی جسے آمرانہ حکومتوں نے اپنے مخالفین اور منحرفین پر ظلم اور جبر کے لیے استعمال کیا۔
یہ سیکنڈل کئی ہفتے عالمی میڈیا پر چھایا رہا مگر اس دوران اسرائیلی حکام آئس کریم کے مسئلے میں الجھے رہے۔ 19جولائی کو Ben&Jerry نے اعلان کیا کہ 2023ء کے بعد کمپنی اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں اپنی آئس کریم فروخت نہیں کرے گی۔ کمپنی کے بزنس بند کرنے کی اس خبر کو اسرائیل کے اس کردار سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا گیا جس کے تحت اسرائیلی ٹیکنالوجی کو عالمی سطح پر جمہوریت دشمن اقدامات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بین اینڈ جیری کے اس اعلان پر اسرائیل نے فوری اور جارحانہ ردعمل ظاہر کیا۔ وزیر اعظم نیفٹالی بینیٹ اور وزیر خارجہ یائر لیپڈ نے اس فیصلے کو اسرائیل اور یہود مخالف اقدام قرار دیا۔ امریکا میں اسرائیلی سفیر گیلاڈ ارڈن نے 35 امریکی ریاستوں کے گورنرز سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کمپنی کے خلاف (BDS) قانون کے تحت اقدامات کریں۔ اسرائیل نے اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کیا ہے کہ جیسے وہ اس آئس کریم کمپنی کے غیر اخلاقی اور مخاصمانہ اقدام کا شکار ہوا ہے اور جیسے وہ خود کبھی کسی غیر اخلاقی جرم کا مرتکب نہیں ہوا، مثلاً گھروں کو منہدم کرنا، حکومتی سطح پر امتیازی سلوک برتنا، زمین ہتھیانا، غیر قانونی گرفتاریاں کرنا اور غیر مسلح فلسطینی مظاہرین پر فائرنگ کرنا جیسے اقدام تو اس کے نزدیک کوئی مسئلہ ہی نہیں ہیں۔ اس کے نزدیک آمرانہ حکومتوں کو انتہائی متنازع ٹیکنالوجی فروخت کرنے سے زیادہ بڑا اور سنگین مسئلہ ایک کمپنی کا اس کے بعض علاقوں میں اپنی پروڈکٹ کی فروخت بند کرنا ہے۔
بین اینڈ جیری کے خلاف اسرائیل کے مشترکہ ردعمل سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ عالمی برادری کے برعکس اس مسئلے پر اسرئیل کی سیاسی قیادت میں کس قدر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے حالانکہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کی 1948ء کی مسلمہ سرحد اور 1967ء میں اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں کے بعد بننے والی سرحد میں کوئی فرق نہیں سمجھتی؛ تاہم بین اینڈ جیری کا یہ پیغام بھیجنا کہ وہ ان علاقوں کو اسرائیل کا جائز حصہ نہیں سمجھتی‘ نہ صرف بین الاقوامی اقدار بلکہ اسرائیل کے اپنے کئی سیاسی معاہدوں سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ 2018ء میں بینجمن نیتن یاہو کی حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں سے یہودی بستیوں کو نکال دیا گیا تھا اور اس کے بارے میں کسی یہود مخالف رویے کی شکایت بھی نہیں کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکومت چاہتی ہے کہ کئی عشروں سے اس کے ان علاقوں پر قبضے کے باوجود عالمی برادری اسرائیل کو ایک جائز اور نئی ابھرنے والی لبرل ریاست کے طور پر قبول کر لے۔
جب سے نیتن یاہو کی حکومت ختم ہوئی ہے‘ اسرائیلی وزیر خارجہ لیپڈ بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے تمام دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات میں بہتری آجائے مگر جہاں پرانی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کے رویے میں قدرے تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے‘ وہیں نئی حکومت کا بھی پرانا موقف برقرار ہے جس کی واضح عکاسی NSO کے انکشافا ت سے ہو رہی ہے۔ اسرائیل ایک جنگجو اور غاصب ملک ہے جو اپنی سائبر سرویلنس انڈسٹری کو پروان چڑھا رہا ہے۔
اسر ائیل اعلیٰ درجے کی سرویلنس ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کر رہا ہے جس میں چہرے کی شناخت، انٹر نیٹ مانیٹرنگ اور بائیو میٹرک ڈیٹا کولیکشن شامل ہیں۔ وہ لاکھوں فلسطینی شہریوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے روزانہ ان آلات کا ٹیسٹ اور استعمال کر رہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے مغربی کنارے پر ہزاروں کی تعداد میں کیمرے اور دیگر مانیٹرنگ آلات نصب کیے ہیں جن میں اسرائیل کی ایک کمپنی Any Vision کا تیار کردہ چہرے کی شناخت کرنے والا سافٹ ویئر بھی شامل ہے۔
واشنگٹن میں قائم ٹیکنالوجی اینڈ لبرٹی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر شنکر نرائن کہتے ہیں ’’عوامی مقامات پر حکومت کے مکمل کنٹرول کے لیے یہ سسٹم سب سے موثر اور بہترین ہے‘‘۔ اسرائیل یروشلم کے پرانے شہر کے ہرکونے کی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کا ایسا ہی وسیع تر نیٹ ورک استعمال کر رہا ہے۔ ہیبرون (Hebron) شہر میں صرف 800 یہودی 2 لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کے درمیان رہائش پذیر ہیں اور اس علاقے کو فوج کی زبان میں سمارٹ سٹی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کنٹرول رومز سے ہی ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ مئی میں ایک انڈر گرائونڈ بنکر سے ہی انٹیلی جنس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے حماس کے ساتھ غزہ میں جنگ لڑی اور یہیں سے اسرائیلی ایئر فورس کو حملہ کرنے کے لیے گائیڈ لائنز فراہم کی جاتی تھیں۔
بین اینڈ جیری کو تنقید کا نشانہ بنا کر بینیٹ لیپڈ اتحاد دراصل مقبوضہ علاقوں پر اپنے فوجی کنٹرول کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی غیر لبرل پالیسیز کا دفاع کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جب ایک آئس کریم کمپنی محض ایک نعرے اور حقیقت کے درمیان پائی جانے والی خلیج کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرا رہی ہو تو اسرا ئیل کا روشن خیالی اور امن پسندی کا امیج برقرار رکھنا اتنا آسان کام نہیں ہو گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنے ہائی ٹیک سیکٹر کو اپنا قومی فخر سمجھتا ہے اور یہ سیکٹر دنیا میں اس کی معیشت اور قوت کا جزو لاینفک ہے۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایک اعلیٰ درجے کی ا سکروٹنی کے بعد اسرائیل کو اپنے اس اقدام کے نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا یا نہیں۔ خواہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال اپنے مقبوضہ علاقوں یا دنیا بھر میں موبائل فونز کے اندر کیا جا رہا ہو مگر جب امریکا اور دیگر یورپی ممالک اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے حقوق غصب کرنے کی پالیسی پر کوئی اختلاف نہیں کرتے تو اب یہی سرویلنس ٹیکنالوجی دنیا کے دیگر حصوں میں بھی آزادی اظہار پر ڈاکا ڈالنے کے لیے برآمد کی جا رہی ہے۔ اب دنیا بیدار ہو گئی ہے اور اس بات کا نوٹس بھی لے رہی ہے۔ اسرائیل دہرے فوائد لینے کا عادی ہو چکا ہے۔ اور اس کی قیمت بھی اسرائیل کو ادا کرنا ہوگی نہ کہ فلسطینی عوام کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔