وجود

... loading ...

وجود

خاندانی اقدار کی طرف واپسی

هفته 31 جولائی 2021 خاندانی اقدار کی طرف واپسی

پال کرگمین

1992ء میں امریکی سیاست کچھ ہفتوں کے لیے ’’خاندانی اقدار‘‘ کے گرد گھومتی رہی۔ صدر جارج بش سینئر کمزور معیشت اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی وجہ سے انتخابی جھمیلوں میں الجھے ہوئے تھے؛ چنانچہ ان کے نائب صدر ڈین کوئیل نے ایک ٹی وی کریکٹر مرفی برائون پر تنقیدکر کے موضوع کو بدلنے کی کوشش کی جو شادی کے حق میں نہیں تھی۔ مجھے یہ بات اس لیے یاد آئی جب میں نے Hillbilly Elegy کے مصنف جے ڈی وینس کے ریمارکس پڑھے جو آج کل اوہایو سے ریپبلکن پارٹی کی طرف سے سینیٹ کے امیدوار ہیں۔ وینس نے یہ بات نوٹ کی کہ بعض ڈیموکریٹس ارکان کی کوئی اولاد نہیں ہے اور اس نے ان کے لاولد ہونے پر سخت تنقید کی۔ اس نے ہنگری کے صدر وکٹر آربن کی بہت تعریف کی کہ ان کی حکومت نے ایسے جوڑوں کو سبسڈی کی سہولت دے رکھی ہے جن کے ہاں بچے ہیں۔ اس نے یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ یہ سب کچھ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
واشنگٹن پوسٹ کے ڈیو ویگل نے نشاندہی کی ہے کہ یہ بات اس لیے نامناسب تھی کہ وینس نے صدر جو بائیڈن کی طرف سے دیے گئے چائلڈ ٹیکس کریڈٹ کا ذکر نہیں کیا جس سے کثیر تعداد میں غریب عیال دار والدین کو بہت فائدہ حاصل ہو گا۔ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ اس نے بچوں کے لیے بہتر پالیسیاں متعارف کرانے والے دیگر یورپی ممالک کے بجائے ہنگری کی پالیسی کی تعریف کی۔ خاص طور فرانس کی حکومت بچوں والے خاندانوں کو کثیر مالی امداد فراہم کرتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں فرانس کی شرح پیدائش سب سے زیادہ بھی ہے لہٰذا وینس نے ہنگری کی ایک جابر اور آمر حکومت کی تعریف کیوں کی جو سفید فام قوم پرستی کے رجحانات رکھتی ہے۔یہ ایک جذباتی قسم کا سوال ہے۔ میں بھی اس امر کی نشاندہی کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب میں نے اس ویک اینڈ پر اس طرح کے ایشوز کے بارے میں ٹویٹ کیا تھا جس میں میرا خاص طور پر بچوں سے متعلق پالیسیوں کے ضمن میں معاشی کمزوریوں پر فوکس تھا تو وینس نے ایک میچور اور ٹھوس ردعمل دیتے ہوئے مجھے ’’بلیوں کی شوقین عورت‘‘ سے تشبیہ دی۔ مگر ایک اہم بات یہ ہے کہ خاندان کو فروغ دینے والی ٹھوس پالیسیوں کے بجائے ’’خاندانی اقدار‘‘ پر سارا فوکس کرنے کا نتیجہ محض ایک ’’ناکارہ انٹلکچول کارتوس‘‘ کی صور ت میں نکلا۔
بلاشبہ ڈین کوئیل ایک دانشور نہیں تھے۔ انہوں نے اس مزاحیہ جرم کا ارتکاب اس وقت کیا جب گرٹروڈ حملفارب جیسے قدامت پسند دانشور مسلسل یہ دلائل دے رہے تھے کہ روایتی اقدار خاص طور پر خاندانی سٹرکچر کا زوال ہی ہمارے سماج کی تباہی کا باعث بنا ہے۔ عام طور پر یہ دلیل دی گئی کہ وکٹورین اقدار کا زوال ہی جرائم اور مشکلات سے بھرپور مستقبل کی صورت میں منتج ہوا؛ چنانچہ ہماری سوسائٹی زوال پذیر ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ یہ بات درست ہے کہ غیر شادی شدہ خواتین کے ہاں بچوں کی پیدا ئش میں قدرے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مگر خاندانی اقدار کے بارے میں شدید احساس اس وقت بیدار ہوا جب دوسری طرف پْرتشدد جرائم کی شرح میں بھی خاصی کمی رونما ہوئی۔ اس کے بعد خاص طور پر بڑے شہر زیادہ محفوظ نظر آنے لگے۔ 2010ء میں نیویارک میں قتل جیسے جرم کی شرح واپس 1950ء والی سطح پر آگئی تھی۔ البتہ کووڈ کے دنوں میں مجموعی جرائم میں تو نہیں مگر قتل کی ورداتوں میں اضافہ ہوا۔ کوئی بھی یہ بات یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ بالکل ویسے ہی جس طرح کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ جرائم کی شرح میں کمی کیونکر ہوئی تھی؛ تاہم ہمیں یہ پہلو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ کووڈ کے دوران ہمارے سماج میں اور بھی بہت کچھ غلط ہوا۔ مثال کے طور پر ان دنوں میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی؛ اگرچہ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم ہو گئی تھی۔ شاید زبردستی کی تنہائی یا آئسولیشن سے سوسائٹی کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑا مگر اس بات کا خاندانی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔یہ پہلو بھی اہم ہے کہ امریکا کے مقابلے میں بعض یورپی ممالک میں روایتی خاندانی نظام کو شدید دھچکا لگا۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ فرانس اپنی شرح پیدائش میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہا مگر بچوں کی زیادہ تر پیدائش غیر شادی شدہ خواتین کے ہاں ہوئی؛ تاہم امریکا کے برعکس فرانس میں سماجی توڑ پھوڑ اس نوعیت کی نہیں ہے۔ فرانس میں انسانوں کے قتل کی شرح امریکا کے مقابلے میں سات گنا کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یاسیت کے شکار لوگوں کی شرح اموات میں سنگین اضافہ ہوا ہے یعنی منشیات اور خودکشی سے ہونے والی اموات کہیں زیادہ بڑ ھ گئی ہیں مگر اس بنا پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے ہماری روایتی اقدار میں زوال کی عکاسی ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر ہم 10 ریاستوں کے حالات پر نظر دوڑائیں جو ہماری روایتی اقدار اور مذہبیت کی عکاسی کرتی ہیں تو ان میں سے 7 ریاستوں میں مایوسی کے شکار لوگوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے دیہات اور چھوٹے قصبات میں مایوسی پھیلنے کی شرح زیادہ ہے کیونکہ معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع چھوٹے مقامات سے زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور میٹرو پولیٹن علاقوں کی طرف شفٹ ہو گئے ہیں۔
یہی میرا سب سے اہم اور آخری نکتہ ہے۔ جب ہمارے سیاستدان ہماری اقدار پر شور مچاتے ہیں یا لوگوں کی ذاتی چوائس پر تنقید کرتے ہیں تو یہ رویہ عام طور پر اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنانے کے اہل نہیں ہیں یا دینا نہیں چاہتے جن کی بدولت ایک عام امریکی شہری کی زندگی میں بہتری ا?نے کا امکان پیدا ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی سوسائٹی میں بہتری لانے کے لیے ہم بہت سے کام کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ کام بہر صورت کرنے بھی چاہئیں۔ جن خاندانوں کے ہاں زیادہ بچے ہیں ان کی زیادہ مد د کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کاموں میں سر فہرست ان کی مالی مدد، بہتر ہیلتھ کیئر اور ڈے کیئر سنٹرز تک رسائی شامل ہیں۔ میرا یہ بات کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ ہمیں زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے بلکہ ان بچوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنا چاہئے تاکہ وہ ایک صحت مند اور تعمیری شہری کے طور پر پروان چڑھ سکیں۔ دوسری طرف اشرافیہ کی ذاتی زندگی کے فیصلوں پر چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اور جب یہ سب کچھ کوئی سیاستدان کرتا ہے تواس سے ہمارے شعوری اور اخلاقی دیوالیہ پن کی عکاسی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی وجود جمعه 29 نومبر 2024
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی

انتقام کی فصل وجود جمعه 29 نومبر 2024
انتقام کی فصل

بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم وجود جمعه 29 نومبر 2024
بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم

خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر