... loading ...
(مہمان کالم)
بیتھنی مینڈل
میں قدامت پسند انسان ہونے کے ناتے یہ بات زیادہ نہیں کرتا مگر نیویارک کے میئر بل ڈی بلیسیو کا موقف بالکل درست ہے کہ وہ اِن ڈور ماسک کو لازمی قرار دینے اور ڈیلٹا ویری اینٹ کے پھیلنے کی وجہ سے لاک ڈائون کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ڈی بلیسیو نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ کس طرح سائنس کی پیروی کرنے کی وجہ سے وہ گزشتہ ہفتے ماسک کو لازمی قرار دینے کے فیصلے سے گریز کر تے رہے‘ یہ کہا کہ ’’ماسک اس ویری اینٹ کے پھیلنے کو نہیں روکتا‘‘۔
یہ بات صرف نیویارک شہر پر ہی صادق نہیں آتی بلکہ ماسک پہننا اور لا ک ڈائون کرنا ہماری قومی سطح کی غلطی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ 2020ء کا موسم بہار نہیں ہے۔ پچھلے مارچ میں کووڈ ایک پْراسرار چیز تھی۔ یہاں واشنگٹن کے مضافات میں ہم کلوراکس کی مدد سے اشیائے خورو نوش کی صفائیاں کر رہے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم کندھے سے کندھا ملا کر بغیر ماسک پہنے سپر مارکیٹ جیسی پْرہجوم جگہوں پر شاپنگ بھی کر رہے تھے۔2021ء کے موسم گرما میں ہمیں ایک انتہائی موثر ویکسین دستیاب ہو چکی تھی اور اب ہر ٹین ایجر اور بالغ فردکے لیے کووڈ کی ویکسین لگوانا ایک آپشن ہے۔
آپریشن وارپ ا سپیڈ ایک سائنسی کرشمے سے کم نہیں ہے مگر ہم پھر بھی ابھی تک اسی طرح کے رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں جیسے کہ یہ کووڈ کے ابتدائی ایام ہوں۔ حالانکہ خدا کی مہربانی سے شرح اموات میں بہت کمی آچکی ہے۔ اعداد وشما رکو پیش نظر رکھیں تو اس مرحلے پر وہی لوگ بیمار ہو کر ہسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں جنہوں نے ابھی تک ویکسین کا انتخاب کرنا ہے۔ انہوں نے ابھی تک تو اس فیصلے کے رسک کو قبول کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مزید لاک ڈائون کا خطرہ موجود ہے اور ان کی قیمت ہم سب کو ادا کرنا پڑے گی۔ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کووڈ کے خلاف جنگ میں کیا چیز سب سے زیادہ کارگر ہے‘ وہ چیز ہے ویکسین۔ ہم نے لاک ڈائون کو آزما کر دیکھ لیا۔ ہم نے ماسک پہننے کو لازمی قرار دے کر بھی دیکھ لیا مگر کووڈ کے کیسز میں کمی صرف اسی وقت آئی جب بڑے پیمانے پر عوام کو ویکسین لگائی گئی۔ ہماری سوسائٹی کو یہ ترغیب دی گئی کہ اگر ہم نارمل حالات کی طرف جانا چاہتے ہیں تو ہمیں ویکسین لازمی لگوانا ہو گی؛ چنانچہ کروڑوں امریکی شہریوں نے اس نئے عمرانی معاہدے پر دستخط کیے۔ کووڈ کو دور رکھنے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگانا ہو گی اور اس معاہدے سے اتفاق کرتے ہوئے ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنا کر معمول کے حالات کی طر ف آنا ہو گا اور اس کے مختلف اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔
اب ہمیں پوری ایمانداری سے اس سماجی اور معاشی قیمت کا تعین کرنا ہو گا جو ہم لاک ڈائون پر عمل کرنے کی وجہ سے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اب نہ صرف یہ کہ کووڈ کے بارے میں ہم 2020ء کے موسم بہار کے مقابلے میں زیادہ آگاہی رکھتے ہیں بلکہ لاک ڈائون کی تباہ کاریوں کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتے ہیں۔ اب ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کی ذہنی صحت کس طرح تباہ ہوئی، تنہائی کا شکار ہونے اور ذہنی دبائو کی وجہ سے منشیات کے استعمال میں کس قدر اضافہ ہوا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق 2 لاکھ سے زائد چھوٹے کاروبار بھی بند ہو گئے تھے۔ مزید یہ کہ ہم ایک طرف امریکا اور دنیا بھر میں ڈیلٹا ویری اینٹ کے پھیلنے کی باتیں سن رہے ہیں تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور پہلے کہاں کھڑے تھے۔ جنوری میں روزانہ 2 لاکھ کیسز منظر عام پر آ رہے تھے مگر اب ان کا عشر عشیر بھی دیکھنے میں نہیں آرہا۔ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق پچھلے ہفتے ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں 32 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے والے ان مریضوں میں سے 97 فیصد کو ویکسین نہیں لگائی گئی۔
لاک ڈائون اور ماسک کی لازمی پابندی کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم امریکا میں سیلف رول اور فرد کی آزادی کے کلچر میں رہ رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو گھروں پر مقیم رہنے یا ماسک پہننے کے لیے کہہ تو سکتے ہیں مگر ضروری نہیں ہے کہ ان حکومتی احکامات پر مکمل عمل درآمد بھی ہو۔ اگر ماسک لازمی پہننے اور لاک ڈائون کے احکامات ہی جاری کرنا تھے تو ان پر عمل درآمد کا انحصار عوام کی اپنی مرضی پر ہو گا کہ وہ ایسا کرتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اب بھی صرف وہی شہر دوبارہ لاک ڈائون کے لیے تیار ہیں جنہیں اس کی اتنی ضرورت نہیں ہے مثلاً وہ علاقے جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اور اب ان علاقوں میں ہسپتال میں داخل ہونے یا مرنے والوں کی شرح بہت کم رہ گئی ہے۔ گزشتہ موسم بہار میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے گورنرز اور مقامی حکام کے اختیارات بڑھانے کے لیے جو ایمرجنسی ا?رڈرز جاری کیے تھے اس کی اہم وجہ کووڈ کا غیر معمولی خطرہ تھا۔ ابتدائی طور پر ان احکامات کو دو ہفتے کے لیے اس لیے لاگو کیا گیا تھا تاکہ کووڈ کو پھیلنے اور ہمارے ہسپتالوں کے سسٹم کو تبا ہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ کئی شہروں میں یہ دو ہفتے کی مدت ایک سال تک چلی گئی کیونکہ کئی ریاستوں میں ایمرجنسی ایک معمول کی ضرورت بن گئی تھی۔ کئی ریاستوں میں یہ ہنگامی صورت حال اب ختم کر دی گئی ہے اور ہم اب ایک نئے معمول کی صورتِ حال کی طرف گامزن ہیں۔
لہٰذا اب ہمیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں وائرس کے اس تبدیل شدہ ویری اینٹ کے خلاف اقدامات کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟ ہمیں اس طرح کے مشکل سوالات کے لیے تیار رہنا چاہئے کہ جب ہسپتال معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں تو دوبارہ ایمرجنسی لگانے کے بعد جب اسے ختم کیا جائے گا تو اس سے ہمیں کیا ملے گا؟ یہ وہی سوالات ہیں جو آج سے ایک سال قبل پوچھے جانے چاہئے تھے۔ ہمیں اس وقت تک ہنگامی اختیارا ت دینے پر اتفاق نہیں کرنا چاہئے جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ ایمرجنسی کو کب ہٹایا جائے گا۔ حقیقت ایک ہی ہے وہ یہ کہ ایک بڑی اکثریت اس بات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کووڈ یہاں پھیلا ہوا ہے اور مزید پھیلتا رہے گا۔ نئے ویری اینٹ بھی آتے رہیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔ بہرحال زندگی کو یونہی رواں رہنا چاہئے۔ ماسک کو لازمی قرار دینے اور تباہ کن لاک ڈائون لگانے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو ایسی ترغیبات دے جن پر عمل کرنے سے زندگی جلد از جلد اپنے معمول کی طرف لوٹ آئے اور وہ ترغیب ایک ہی ہے، ویکسین اور صرف ویکسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔