وجود

... loading ...

وجود

حیسکو قاتل بھی مقتول بھی

جمعرات 29 جولائی 2021 حیسکو قاتل بھی مقتول بھی

پاکستان میں اوّل تو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی آتی ہی نہیں ہے لیکن جب آتی ہے تو عوام کو راہی ملک عدم کا مسافر بناکر ہی دم لیتی ہے۔ ویسے تو بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام پورے ملک میں سخت ابتری اور بوسیدگی کا شکار ہے لیکن بجلی کی فراہمی کے نظام کی جو حالت ِ زارسندھ میں ہے اُس کی مکمل تصویر کشی کرنے کے لیے’’ تنگی الفاظ ‘‘ تحریر کی دسترس سے بھی باہر ہے۔واضح رہے کہ سندھ میں بجلی کی کئی تقسیم کار کمپنیاں حکومت وقت کی اجازت سے صوبہ بھر میں بجلی کی فراہمی کے لیے مصروف عمل ہیں ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے ہر کمپنی بدانتظامی ، نااہلی اور کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے۔ خاص طور حیسکو پاور کمپنی ،جس کے پاس حیدارآباد سے لے کر نواب شاہ تک ایک طویل علاقے کو بجلی فراہم کرنے کا انتظام ہے ، اپنی تاریخ کے بدترین حالات سے گزر رہی ہے۔ لائن لاسز، بجلی چوری ،اووربلنک، اوور ریڈنگ،میٹر چوری، اقربا پروری ، سیاسی مداخلت اور بلیک میلنگ سمیت کونسا ایسا جرم ہے جس میں حیسکو حکام منظم انداز میں ملوث نہیں ہیں ۔ ابتداء میں حیسکو کا نشانہ زیادہ تر صارفین کی جیبیں ہوتی تھیں مگر گزشتہ چند برسوں سے حیسکونے اپنے صارفین اور ملازمین کی زندگیوں سے بھی کھیلنا شروع کردیا ہے۔
تازہ ترین الم ناک واقعہ جس نے صوبہ بھر کی عوام کے قلوب کو دہلا کر رکھ دیا، عید کے دوسرے روز پیش آیا ہے، جب حیدرآباد شہر میں لطیف آباد یونٹ 8 کے علاقے میں نصب ٹرانسفر( پی ایم ٹی) پھٹنے سے جلتا ہوا تیل گرگیا تھا، جس کے نتیجے میں کم ازکم 6 معصوم افراد جاں بحق اور دو درجن کے قریب عام افراد اور حیسکو ملازمین شدید زخمی ہوگئے ۔یا در رہے حیدرآباد شہر میں ایک ماہ کے قلیل عرصے میں ہونے والا یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں حیسکو کے نصب کردہ ٹرانسفر( پی ایم ٹی) کے پھٹنے کی وجہ سے لوگوں پر جلتا ہوا تیل گرا ہے۔حالیہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حیسکو عملہ ٹرانسفارمر کو ٹھیک کرنے کے بعد اس کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔اہل محلہ کے مطابق حیسکو عملہ بجلی بند کیے بغیر ٹرانسفارمر کی مرمت کرنے کی کوشش کررہا تھا۔حالانکہ مختلف تکنیکی وجوہات کی وجہ سے پہلے بھی حیسکو حکام نے متعدد مرتبہ ٹرانسفارمر کی مرمت کرنے کی کوشش لیکن ٹرانسفر کا تیکنیکی نقص مکمل طور پر دور نہ ہوسکا ، جس کی وجہ سے عید کے دوسر روز اس میں ایک مرتبہ پھر خرابی پیدا ہوگئی اور علاقہ مکینوں نے نوٹ کیا کہ تیل ٹرانسفارمر سے ٹپک رہا تھا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے حیسکو عملہ کو آگاہ کیا جس پر انہوں نے کہا کہ’’ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔یہ مسئلہ چھوٹا سا ہے جسے ہم ابھی درست کیے دیتے ہیں‘‘ ۔یوں حیسکو ملازمین نے کھمبے میں نصب ٹرانسفر کی مرمت کرنا شروع کردی اور کچھ دیر بعد ہی ایک دھماکہ سے ٹرانسفر پھٹ گیا ۔
جس کے نتیجے میں ٹرانسفر کی مرمت کرنے والے حیسکو ملازمین اورکھمبے کے نیچے کھڑے ہوکر نظارہ کرنے والے عام افراد بھی ٹرانسفر سے نکلنے والے کھولتے ہوئے تیل کا نشانہ بن گئے۔ المیہ تو یہ ہے کہ حیدرآباد میں دورانِ مرمت ٹرانسفر کے پھٹ جانے کا یہ کوئی پہلا بدقسمت واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل 18 جون کو اوڈون سنیما کے علاقے میں بھی ٹرانسفر( پی ایم ٹی) کا تیل لوگوں پر گرنے سے 3 بچے جاں بحق اور چار زخمی ہوگئے تھے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ حیسکو نے ابھی تک سانحہ 18 جون کے متاثرین کے لیے معاوضے کا کوئی اعلان نہیں کیا تھا کہ لطیف آباد میں ایک اور جاں گسل واقعہ پیش آگیا۔بظاہر اس سانحہ کے متاثرین کی اشک شوئی کے لیے حیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز (بی او ڈی) نے ہر ہلاک شدگان کے لیے فی کس ساڑے 7 لاکھ روپے، شدید زخمی ہونے والوں کے لیے فی کس 5 لاکھ جبکہ کم زخمی ہونے والوں کے لیے فی کس 3 لاکھ روپے معاوضے کی منظوری دی ہے۔لیکن کیا اس پیسے سے جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین کو قرار مل سکے گا؟۔ یقینا نہیں کیونکہ سب اچھی طرح سے جانتے ہیں حیسکو حکام کی جانب سے امدادی رقم کا اعلان عوامی غیض و غضب کو ٹھنڈا کر نے کی ایک وقتی کوشش ہے ۔ جیسے ہی اس ہولناک حادثہ کی یادیں دھندلانے لگیں گی ،حیسکو اپنی پرانی روش پر پھر سے لوٹ آنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرے گا۔ ویسے بھی اَب حیسکو کی جانب سے اعلان شدہ رقم کے حصول میں لواحقین کو حیسکو دفاتر کے چکر کاٹ کر جتنی ذلت کاسامنا کرنا پڑے گا ،اُس کے بعد غالب امکان یہ ہی ہے کہ لواحقین امدادی رقوم کے حصول سے از خود ہی دستبردار ہوجائیں گے۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ حیسکو کے اعلیٰ حکام کی جانب سے حیسکو کے اُن ملازمین کو ہی واقعہ کا ذمہ دار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،جو بے چارے ٹرانسفر کی مرمت کے دوران جاں بحق یا زخمی ہوچکے ہیں ۔ دراصل حیسکو اس سارے معاملے کو اپنے ملازمین کی’’مجرمانہ غفلت ‘‘قرار دے کر اپنے افسران بالا اور اعلیٰ قیادت کو صاف بچانے کا قوی فیصلہ کرچکاہے۔ حالانکہ اگر سیاسی دباؤ سے بالاتر ہوکر غیر جانب دارانہ تحقیقات کروائی جائیں تو عین ممکن ہے کہ انکشاف ہوکہ ٹرانسفر کی مرمت کے دوران جاں بحق ہونے افراد حیسکو کے مستقل ملازمین ہی نہ نکلیں۔ کیونکہ عرصہ دراز سے حیسکو کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ لائن مین کا خطرناک کام کرنے کے لیے ٹھیکے پر معمولی جرت پر نجی ملازمین کی خدمات حاصل کرلیتاہے۔ جبکہ حیسکو کے اصل لائن مین یونین بازی میں مصروف رہتے ہیں یا پھر گھر بیٹھ کر سرکار سے بھاری تنخواہیں اور دیگر مراعات وصول کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل نواب شاہ میں حیسکو کا ایسا ہی ایک نجی ملازم ٹرانسفر کی مرمت کے دوران بجلی کی تاروں میں لٹک کر جاں بحق ہوچکا ہے۔ چونکہ وہ شخص حیسکو کا باقاعدہ ملازم نہیں تھا ،اس لیے اُس کے لواحقین کو مرحوم کے کفن دفن اور اہل خانہ کی کفالت کے لیے بھی علاقے کے مخیر اور اہل ثروت افراد سے مدد کی بھیک مانگنا پڑی تھی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ حیسکو بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے بجائے مکمل طور پر ایک ’’سیاسی پارٹی ‘‘ بن چکا ہے ۔یعنی حیسکو پر سندھ کی چند بڑی سیاسی جماعتوں سے ہمدردی اور تعلق رکھنے والے افراد کی مکمل اجارہ داری ہے اورحیسکو میں کام کرنے والے یہ ہی وہ’’سیاسی ملازم‘‘ ہیں جو اپنے سیاسی متعلقین اور کارکنان کو نوازنے کے لیے جان بوجھ کر بجلی چوری کرواتے ہیں ۔ اگر پاکستان بھر میں کام کرنے والی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے اعدادو شمار اکھٹے کیے جائیں تو کچھ بعید نہیں کہ ہے ملک کی سب سے بڑی بجلی چور کمپنی حیسکو ہی نکلے۔ واضح رہے کہ حیسکو کی چھتری تلے بجلی چوری کے واقعات میں عام عوام نہیں بلکہ سیاسی خواص ملوث ہیں ۔ کیا وفاقی حکومت حیسکو کو لگام ڈال سکتی ہے ، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حیسکو صارفین کو ایک مدت سے درکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر