... loading ...
ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں قطعا کوئی عار نہیں ہونی چاہئے کہ موثر اور مفید قانون سازی سے آئین پاکستان میں مثبت ترامیم کا اضافہ کرنا ہمیشہ سے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے قیام سے لے کر اَب تک کثرت سے ایسے ماہر، قابل اور زیرک قانون دان رہنماؤں کی بطور سیاسی کارکنان خدمات حاصل رہی ہیں ۔ جو انسانی حقوق، سماجی برتری اور عوامی مسائل کے حل کی راہ میں حائل غیر ضروری قانونی پیچیدگیوں اور رکاؤٹوں کو دور کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔اس لیے اگر آپ گزشتہ 75 برسوں میں پاکستانی پارلیمان میں ہونے والی قانونی سازی کا تفصیلی جائزہ لیں تو منکشف ہوگا کہ ، انسانی حقوق کی بحالی، جمہوریت کے تحفظ اور سماجی بہتری کے لیے کی جانے والی زیادہ تر آئینی ترامیم کی پس ِ پشت پاکستان پیپلزپارٹی کا کلیدی ،متحرک اور مثالی کرداررہاہے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے آئین پاکستان میں مفید قانون سازی کرنے میں اپنا حصہ بقدر جثہ نہیں ڈالا ۔ یقینا ہر سیاسی جماعت اپنے دورِ اقتدار میں اپنی دانست میں موثر اور مفید قانون سازی کرنے کی بھرپور کوشش کرتی آئی ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کو ہمیشہ سے ہی قانون سازی کے میدان عمل میں اپنی دیگر حریف سیاسی جماعتوں پر واضح برتری حاصل رہی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان پیپلزپارٹی نے سابقہ روایات کے عین مطابق ایسی ہی ایک منفرد قانون سازی کر کے اپنے تمام ناقدین کو خوشگوار حیرت میں مبتلاء کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ کابینہ نے پولیس رول 1934کے رول نمبر26 میں ترمیم کر کے ایف آئی آر کے بنیادی قانون میں ترمیم کردی دی ہے ۔جس کے تحت اب سندھ پولیس کسی شخص کو بھی صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار نہیں کر سکے گی۔یہاں اس بات کی وضاحت انتہائی ضرور ی ہے کہ اس قانون سازی کا مطالبہ سندھ پولیس کی جانب سے کیا گیا تھا۔یعنی آئی جی سندھ کی جانب سے باضابطہ طور پر کچھ عرصہ قبل پولیس قانون میں ترمیم کی درخواست کی گئی تھی جسے وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ کابینہ نے منظور کرلیا گیا۔اس نئی ترمیم کے مطابق سندھ پولیس کے افسران کوایف آئی آر میں نامزد کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے، سب سے پہلے اس شخص کے خلاف ناقابل تردید ثبوت حاصل کرنے ہوں گے ،جس کے بعد افسران بالا کی اجازت لینا بھی لازمی ہوگا۔ سندھ پولیس کے نقطہ نظر سے ملاحظہ کیا جائے تو اس ترمیم کے بعد نہ صرف پولیس پر سے ایف آئی آر میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے بااثر سیاسی افراد کا دباؤکم ہو جائے گا بلکہ جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج سے بھی کافی حد تک پولیس کی جان چھوٹ جائے گی۔ وگرنہ اس ترمیم کے متعارف ہونے سے پہلے تو عام مشاہدہ میں یہ ہی آتا تھا کہ چھوٹے موٹے لڑائی ،جھگڑوں اور تنازعات میں اپنے مخالف گروہ کو زیادہ سے نقصان پہنچانے یا بلیک میل کرنے کے لیے ایف آئی آر میں غیر متعلق افراد کو بھی نامزد کردیا جاتاتھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی کبھار تودرخواست دہندہ پولیس اسٹیشن میں ضد لگا کر بیٹھ جاتا تھا کہ ایف آئی آر میں اُس کے مخالف کے پورے خاندان کو ہی شامل دفتر کردیا جائے ۔حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات ایف آئی آر درج کروانے والا شخص اپنے مخالف محلے میں رہائش پذیر تمام کے تمام اہل محلہ کو نامزد کرنے کی ’’سیاسی فرمائش ‘‘کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔دراصل ایف آئی آر کا قانون ہمارے ملک میں انصاف کے حصول کے لیے کم اور مخالفین کو سبق سکھانے یا بے گناہ و معصوم افراد کا استحصال کرنے کے لیے زیادہ استعمال کیا جانے لگا تھا۔ جبکہ ایف آئی آر کے غلط اور غیر ضروری استعمال کا قصہ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ ایک بار سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے اپنے دورِ اقتدار میں ترنگ میں آکر یہ تک فرمادیا تھا کہ’’ اگر سندھ حکومت چاہتی تو آصف علی زرداری کو بکری کی چوری کا مقدمہ قائم کر کے جیل میں رکھا جا سکتا تھا‘‘۔
المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی ایف آئی آر کو بطور ایک ’’سیاسی ہتھیار‘‘ استعمال کرنے کا رواج صوبہ سندھ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ چند برس قبل گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے محمد زاہد نامی شخص پراس کے سابقہ مالک سجاد کی جانب سے 15 مرغیاں چرانے کا الزام لگا کر اُس کے خلاف ایف آئی آر کٹوادی گئی تھی۔حیران کن طور پر چوری کی اس مبینہ واردات کے دو ماہ اور دس دن گزر جانے کے بعد درخواست گزار راجہ سجاد نے، کورال کے تھانے میں چوری کی رپورٹ درج کروانے کا فیصلہ کیا۔سجاد نے پولیس کو درخواست دی کہ ’’6 فروری 2018 کی رات کو اس کے آفس سے نامعلوم فرد نے 15 مرغیاں، ایک پانی کا ڈسپینسر اور بیڈمنٹن سیٹ چرایا تھا، کچھ دن (یعنی دو ماہ اور دس دن) میں نے خود سے چور کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہا۔اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے ملازم محمد زاہد نے ہی میری مرغیاں چرائی ہیں‘‘۔ پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے محمد زاہد کے خلاف 380/457 (پی پی سی 1860) کے تحت ایف آئی آر درج کرلی۔نیز پولیس نے محمد زاہد کو اسی دن گرفتار بھی کرلیا اور بعد ازاں میں اسے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ ملزم زاہد اپنے 5 بچوں کا واحد کفیل ہے۔ یہ خاندان گلگت کے شہر غذر کے پاس ایک چھوٹے سے گاؤں کونوداس سے دس سال قبل اسلام آباد منتقل ہوا تھا۔جبکہ اس غریب کے اہل خانہ کے پاس کیس لڑنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ دراصل محمد زاہد، سجاد نامی شخص کے پاس ملازمت کرتا تھا اور وہ اس سے اپنی تنخواہ کی مد میں 8000 روپے کا تقاضہ کر رہا تھا۔مالک سجاد نے بجائے تنخواہ کے پیسے دینے کے نہ صرف زاہد کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ مرغی چوری کی ایف آئی آر کٹوا کر اُسے گرفتار بھی کروادیا ۔تاہم مالک سجاد اس بات کی وضاحت دینے میں ناکام رہا کہ اس نے چوری کی رپورٹ درج کروانے میں 9 ہفتے تک انتظار کیوں کیا؟۔ملزم زاہدکے والد کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست جمع بھی کروائی گئی تھی جو جوڈیشنل مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے 21 ستمبر 2018 کو مسترد کر دی گئی۔اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کو ضمانت کی درخواست دی گئی لیکن وہ بھی 9 نومبر 2018 کو مسترد ہو گئی۔ بالآخر مرغی چوری کی ایف آئی آر سے جان خلاصی کے لیے ملز م کے اہل خانہ نے ایک این جی او کی اعانت سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹاکر ملزم زاہد کی ایف آئی آر سے گلو خلاصی کروائی۔
سارے کالم کا لب لباب یہ رہاکہ سندھ حکومت اورسندھ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کے متنازعہ فی قانون میں کی جانے والی ترمیم سراسر عوامی مفاد میںایک مستحسن حکومتی اقدام ہے۔جس سے نہ صرف معصوم ،بے گناہ اور غریب لاچار افراد کو بلاضرورت ایف آئی آر کے شکنجہ کا شکار ہونے سے نجات ملے گی بلکہ عدلیہ اور جیلوں پر اضافی بوجھ کم ہوگا۔ علاوہ ازیں یہ ترمیم پولیس افسران کو طاقت کا غلط استعمال کرنے سے روکنے میں ممدو معاون ثابت ہوگی۔بعض عاقبت نااندیشن افراد کی جانب سے ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ایف آئی آر قانون میں ترمیم کے بعد سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو کھلی چھوٹ مل جائے گی ،بالکل ایک لغو بات ہے۔ کیونکہ ایف آئی آر، تو کٹتی ہی بے چارے ،کمزور و ناتوں شخص کے خلاف ہے ، جبکہ طاقت ورافراد کے خلاف ایف آئی آر کٹنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی انہیں ضمانت قبل ازگرفتاری ’’قانونی پلیٹ ‘‘ میں رکھ کر پیش کر دی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔