... loading ...
رجب طیب اردوان قرآن کی تلاوت فرماتے ہیں تو دل موہ لیتے ہیں۔ خوب صورت آواز ، پراثر لحن!گاہے لگتا ہے ساز ، سوز سے بغلگیر ہوتا ہے۔کاش وہ دائم رہنے والی کتاب کی یہ آیت بھی اسی سوز سے پڑھیں، جس میں عالم کا پروردگار گرہ کشا ہے۔
”اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے”۔(سورة الاحزاب، آیت چار)
طیب اردوان کو آخر کار فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اُس استعمار کا ایندھن بنیں گے جو اپنے ڈھب کی دنیا تشکیل دینا چاہتا ہے اور مسلمانوں میں کشتوں کے پشتے لگا رہا ہے یا پھر وہ تاریخ میں لکیر کی دوسری طرف کھڑے ہوں گے۔ جہاں پورے قد سے سلطان عبدالحمید کھڑے تھے۔ اللہ اُن کی قبر کو نور سے بھر دے۔ایک راستا تیرانوے(93) روزہ حکمران اُن کے بھائی سلطان مراد کا بھی ہے، جنہوں نے صیہونیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ مغرب کی چکاچوندی سے متاثر ہوئے ، پھر اعصابی اختلال کا شکار ہوکر تاریخ میں رُسوا ہوئے۔ یہ تو آشکار ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ترکی کو کابل ہوائی میدان کی ذمہ داری خوامخواہ نہیں سونپ دی گئی۔ رجب طیب اردوان کی چھوی (امیج) اسلامی دنیا میں ایک مسلم دوست رہنما کی ہے۔ اُگلے تین چار برسوں کے بعد نئی دنیا کے تشکیل کی آہٹ وہ سن رہے ہیں۔ اُن سے مسلم اُمہ کی نگہ داری کی امید کی جاتی ہے۔ مگر اُن کے دل کے کسی کونے میںمغرب کی مچلتی دنیا بھی ہے۔ وہ گاہے ترکی کے مستقبل کو یورپ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے ترکی یورپی یونین کا حصہ بننے کے لیے اُسی طرح اُتاؤلا تھا، جس طرح پاکستان فیٹیف (ایف اے ٹی ایف) کی مشتبہ فہرست (گرے لسٹ) سے نکلنے کے لیے دُبلا ہورہاہے۔
مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کا اپنا کوئی ”ورلڈ ویو” نہیں ۔ وہ عالمی دنیا میں شراکت دار ہونے کے بجائے فداکار کے طور پر خود کو پیش کرتے ہیں۔ دو مختلف نظریات کا ایک مشترک عَالم نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور مغرب دو متحارب نظریات ہیں۔ ان کی دنیائیں الگ الگ ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلم دنیا مسلسل مغرب کی بنائی دنیا کے آگے ڈھیر ہے۔ اس ذلت ونکبت کی تمام تر ذمہ داری گزشتہ سو برسوں سے مسلم دنیا پر مسلط برائے نام مسلمان رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ رہنما نام مسلمانوں کے رکھتے ہیں، عیدین میں مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گاہے کچھ اسلامی عبادتوں میں خود کو شریک کرلیتے ہیں۔ نمائشی طور پر گفتگو میں انشاء اللہ، ماشاء اللہ کی بھی تکرار کرتے ہیں۔ مگر ان کے مفادات ، طرزِ زندگی کے تمام لوازمات اور اثاثہ جات مغربی ممالک میں ہیں۔ یہ دو دِلے، دوغلے اور مکمل کھوکھلے ہیں۔
رجب طیب اردوان اس فہرست کے تمام رہنماؤں سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ پھر وہ ایک ایسی قوم کے رہنما ہیں، جو آج بھی اپنی تاریخ سے منسلک ہے۔ اگرچہ ہر قوم کی طرح ترکی کو بھی اپنے شاندار ماضی سے کاٹنے کی پوری کوشش کی گئی۔قومیت کی جیسی خطرناک تحریک ترکی میں چلی کہیںنہیں۔اُدھر کمال اتاترک ، ترک قوم کا سب سے بڑا دھوکا تھے۔ یہاں سر سید کی فکر نے وہی کام کیا تھا۔ پاکستان میں لوگ اپنی تاریخ سے دستبردار ہو گئے، اب یہاں انتہائی تعلیم یافتہ لوگوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف اور کچھ فوجی رہنماؤں کے درمیان جھگڑے کا انتہائی معمولی تناظر رہ گیا ہے۔ یہ مسئلہ اچھے خاصے مذہبی لوگوں کے ہاں بھی وحشیانہ ڈھمال ڈالے ہوئے ہے۔ افسوس زندگی کے تمام ارفع اور تہذیبی تناظر ہم سے اُچک لیے گئے۔ ہم معمولی تنازعات اور ادنیٰ مفادات کے درمیان پانی پت کی جنگیں لڑتے ہیں۔ہم کیا عیش پسند عربوں میںبھی کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ ترک اور طالبان اب بھی مسلم امہ کی امیدوں میں بستے ہیں۔ مسلم امہ میں یہ دونوں وہ قومیں ہیں جو اپنی تاریخ سے مربوط ہیں۔ ان کا حقیق مزاج سلامت ہے۔ افغان سرزمین پر ان دونوںقوموں کو نبرد آزما نہیں ہونا چاہئے۔ اردوان کے ترکی میں اگر امت مسلمہ پر بدقسمتی کا یہ لمحہ اُترتا ہے تو تاریخ اُنہیںکیسے معاف کرے گی؟
طالبان نے واضح کردیا ہے کہ ترکی اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے ۔ترکی کے پاس جو بھی توجیہات ہوں مگر کابل کے ہوائی میدان کو تزوایراتی اہمیت حاصل ہے۔ طالبان کی پیش قدمی کی صورت میں غداروں کے لیے یہ راہِ فرار ہے۔ یہاں مزاحمت کے امکانات بہر صورت رہیں گے۔ اور یوں طالبان ترکی کے مدمقابل ہوں گے۔ یاد رہنا چاہئے کہ ترکی کے 500 فوجی افغانستان میں 2001 ء سے موجود ہیں۔ طالبان نے کبھی بھی اُنہیں نشانا نہیں بنایا۔ترکی کو سمجھنا چاہئے کہ طالبان اُن سے کیوں گریزاں ہیں۔ ترکی رواں برس اپریل میں جب طالبان کے ساتھ مذاکرات اور امن کانفرنس کی میزبانی کرنا چاہتا تھا، تو طالبان نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا تھا۔ دراصل ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے۔اور طالبان اپنے خلاف جنگ میں نیٹو کو ایک فریق کے طور پر دیکھتا ہے۔ پھر اس کا حصہ خواہ کوئی بھی ملک ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ترکی نے 2001 ء سے اب تک افغانستا ن میں اپنا کردار غیر جنگی رکھا ہے یا نہیں۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ کابل کے ہوائی میدان میں اس کا کردار نیٹو کے ایک رکن ملک کے طو رپر ہوگا اور نیٹو افغانستان میں ایک جارح قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یوں جنگ باقی رہے گی۔
ترکی نیٹو کا اتحادی ہے، اُس کی یہ حیثیت افغان سرزمین پر کسی طور تبدیل نہیں ہوتی۔ اُسے یہ ”خوش فہمی” نہیں ہونی چاہئے کہ یہاں اُسے اب ایک مسلمان ملک کے طور پر دیکھا جائے گا۔ترکی شام اور آذربائیجان میں ایک کردار رکھتا ہے۔ اس نوع کی سرگرمیاں برتری کا ایک احساس دیتی ہے۔ افغانستان میں اس کی گنجائش نہیں۔ ترکی کے افغانستان میں کردار جاری رکھنے کے عزم کا سب سے بھیانک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ وہ ایسا طالبان کو اعتماد میں لے کر نہیں کر رہا بلکہ وہ یہ سب نیٹو اور امریکا کی حمایت سے کررہا ہے۔ ایسی صورت میں طالبان کے لیے یہ کردار ہمیشہ مشکوک رہے گا۔ کیا یہ بدقسمتی نہیں کہ ترکی کے افغانستان میں کردار کی ضرورت پر زور پاکستان، طالبان یا خطے کے کوئی دوسرے ملک نہیں بلکہ برسلز میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل ژینس اشٹولٹنبرگ دے رہے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو نیٹو کے سیکریٹری جنرل کے لیے افغانستان میں ترکی کے کردار کو ”کلیدی” بناتی ہے، بس وہی چیز طالبان کو اُن سے مشکوک کرتی ہے۔ نیٹو جب اس کردار کا خیر مقدم کرے گا تو طالبان اس کی مذمت کریں گے۔ یہ سادہ بات اگر انقرہ نہیں سمجھ رہا تو وہ افغانستان میں حال ہی نہیں مستقبل بھی کھو دے گا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کیوں سمجھتے ہیں کہ طالبان ترکی کے یورپ میں جاری کھیل کو نہیںسمجھتا ہوگا۔ ترکی یورپ سے مراسم کی اپنی سیاست رکھتا ہے ، گزشتہ ڈیرھ سو برسوں سے وہ ان مراسم کی قیمت چکا رہاہے۔ اردوان تاریخ کا یہ تناظر رکھنے کے باوجود اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے جاتے ہیں۔ درحقیقت ترکی کے لیے امریکا اور اپنے نیٹو کے شراکت داروں کے ساتھ ایک نیا چیلنج تب اُبھرا تھا جب وہ اپنی فضائی حدود کی حفاظت کے لیے روس سے ایس 400 دفاعی میزائل خرید نے گیا۔ امریکا اور نیٹو کو ترکی کا یہ قدم ایک آنکھ نہ بھایا۔ اردوان نے تب اس کی پروا نہیں کی۔ یہاں تک کہ امریکا نے ردِ عمل میں اُسے نئے جیٹ طیاروں کی ترسیل روک دی، اورF-35 اسٹیلتھ لڑاکا جیٹ پروگرام سے نکال پھینکا۔ اب اردوان امریکا اور اپنے مغربی شراکت داروں کو افغانستان میں اپنے کردار کے ذریعے ایک مثبت پیغام دینا چاہتے ہیں۔مگر یہ پیغام طالبان اور تاریخ کے نزدیک ترکی کو منفی مقام پر دھکیل رہا ہے۔ پھر افغانستان ترکی کی یورپ میں جاری سیاست کا کوئی تختۂ مشق تو نہیں۔
ترکی کے بعض ایسے افغان عناصر سے راز ونیاز یا تعلقات ہیں جو طالبان کے ساتھ ہمیشہ صف آرا رہے۔ ازبک اور ہزارہ گروپ اُن میں شامل ہیں۔سب سے مشکوک معاملہ رشید دوستم کا ہے۔ گزشتہ دنوں ازبک لیڈر رشید دوستم ترکی میںاپنا علاج کرارہے تھے۔ یہ وہی رشید دوستم ہیں جن کی سفاکانہ داستانیں قلعہ جنگی اور دشت لیلیٰ میں بکھری ہوئی ہیں۔ طالبان اُنہیںمعاف کیوں کریں گے اور ان سے راز ونیاز رکھنے والے طالبان کو اپنے دوست کیسے باور کراسکیں گے؟رجب طیب اردوان کے پاس سیدھا راستا موجود ہے۔ وہ طالبان کے دوست بن سکتے ہیں۔ خلیفہ سلطان عبدالحمید ہوتے تو یہی کرتے۔ وہ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے یورپ کے ساتھ سیاست کرتے تھے۔ اُنہیں” غچہ” دیتے تھے۔اس ترتیب کو بدلنے کی صورت میں تاریخ اردوان کا مقام تبدیل کردے گی۔ اللہ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ قرآن یہی کہتا ہے۔ کوئی انسان اپنے لیے دو مقام بھی متعین نہیں کراسکتا۔ تاریخ یہی کہتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭