... loading ...
آزادکشمیر کا انتخابی میدان سج چکا ہے اور تینوں بڑی جماعتیں جیت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ راہ گم کردہ مسافر کی طرح ریاست کے شہریوں کو چند ایک لوگ انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کے لیے بھی قائل کرنے کی تگ دو میں ہیں۔ ہر طرف جلسوں کی بھر مار ہے۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کی قیادت جلسوںسے خطاب کرتے ہوئے ووٹروںکولبھانے میں مصروف ہیں خدمت کے دعوے کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی اپنی جماعت کی جیت کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے امریکا روانگی سے قبل کئی ایک جلسوں سے خطاب کیا اور مودی کو نواسی کی شادی پر بلانے ،آم وساڑھیوں کے تبادلوںپر شریف خاندان کو تنقید کانشانہ بنایا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر عمران خان کی طرف سے جواب میںیہ کہنا، میں کیا کروں ،پر نکتہ چینی کی۔ جواب میں مریم نواز اور دیگر ن لیگی رہنمائوں نے سارک کانفرنس کے دوران اسلام آباد سے کشمیر کے متعلق اشتہارات اُتارنے کے طعنے دیے۔ مریم نوازنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان اپنا نامہ اعمال لیکر کشمیر آئیں اور یہ کہ کشمیر کو صوبہ نہیں بننے دیں گے تاکہ پاکستان میں ہونی والی تباہی سے کشمیر ی محفوظ رہیں۔ تحریکِ انصاف والے کہا ں پیچھے رہتے، انھوں نے بھی سابق حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے بد اخلاقی کی تمام حدیں پار کیں۔یہ بدزبانی کشمیریوں کی خدمت نہیں بلکہ نمک پاشی کے مترادف ہے ۔ علی امین گنڈاپورکی طرف سے رقوم تقسیم کرنے اور مظاہرین پر فائرنگ جیسے واقعات نے انتخابی ماحول آلودہ کر دیا ہے۔ مودی کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی بجائے ایک دوسرے کوغدار اور کشمیر دشمن ثابت کرنے پر زور ہے۔ آزادکشمیر میں جاری الیکشن مُہم سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کو قومی مفاد سے کوئی غرض نہیں ۔ سب کو کشمیریوں سے نہیں اپنی جماعت کی جیت سے دلچسپی ہے ۔ ایسے حالات میں جب ملک میں سیاستدانوں پر تنقید کرنا ایک فیشن بن گیا ہے ، سیاستدانوں کی طرف سے بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنا تنقید کی تصدیق کے مترادف ہے مگر یہ مت بھولیں اظہارِ خیال میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرنے سے سیاسی اشرافیہ کی اپنی ساکھ ہی متاثر ہوگی ۔
مقبوضہ کشمیرکو ظلم و جبر کی بدترین لہرکا سامنا ہے سات لاکھ سے زائدقابض فوج نے جنت نظیر وادی کو عملاََ جیل بنا کر رکھ دیا ہے کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب بے گناہ کشمیریوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں رزقِ خاک نہیں بنایا جاتا گھر گھر چھاپے روز کا معمول ہیں اور اِس دوران گرفتار ہونے والوں کے حوصلے توڑنے کے لیے انھیںملک کی دوردراز جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ مزید ستم یہ کہ جعلی مقابلوں میں شہید ہونے والوں کی تدفین کے لیے ورثا کو لاشیں بھی نہیں دی جاتیں ۔ اب تو کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کی مدد کے لیے خواتین اہلکاروں کو بھی بھیجا جارہا ہے تاکہ گھر گھر تلاشی کے دوران کشمیری خواتین کو بہیمانہ تشدد کانشانہ بنایا جا سکے۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر سے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے لاکھوں غیر کشمیری ہندوئوں کو ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں ۔ آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی بات ہو یا کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں مارنے کی وارداتیں،دوردراز جیلوں میں کشمیری قیادت کو بند کرنے کے منصوبے ہوں یا خواتین اہلکاروں کی طرف سے تشدد کی نئی لہر کی بات ، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ملک کی تینوں بڑی جماعتیں جلسوں سے خطاب کے دوران کشمیریوں کو درپیش اِن مسائل پر لب کشائی سے گریزاں ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کو ہی کشمیریوں کی مدد سمجھ رہی ہیں۔ یہ غیر ذمہ داری کی انتہا اور کشمیریوں کا مقدمہ خراب کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ آزاد کشمیر میں جاری الیکشن مُہم سے ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے بجائے پاکستان ہی مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بڑی جماعتیں ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور قومی مفاد پر شخصی مفاد کوترجیح دینے سے گریز کریں۔ اگر غیر ذمہ دارانہ رویے پر نظر ثانی نہ کی گئی تو نہ صرف انتخابی نتائج کی شفافیت پر سوال اُٹھیں گے بلکہ بھارت کوجبرو قہر ڈھانے کی شہ ملے گی جس سے کشمیر میں جاری تحریک کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
بلوچستان ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شہری ووٹ دیتے وقت وفاق میں حکمران جماعت کو ذہن میں رکھتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ وفاق میں حکمران جماعت کے امیدواروں کو کامیاب کیا جائے تاکہ وفاق سے ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز ملتے رہیں جب ملک پرپیپلز پارٹی حکمران تھی تو چوہدری عبدالمجیدنے بڑے آرام سے الیکشن جیت کرآزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم کا منصب حاصل کر لیا مسلم لیگ ن کو اقتدار ملا تو راجہ فاروق حیدر بھاری اکثریت سے ریاستی وزیرِ اعظم منتخب ہوگئے۔ گلگت بلتستان میںبھی ایسا ہی ہو، ا بلوچستان میںبھی ایساہی ہوتا ہے ۔آزادکشمیر کے موجودہ انتخابی ماحول میں اگر کوئی بہت بڑی انہونی نہیں ہوتی تو پی ٹی آئی کی طرف سے آزادکشمیر کا انتخابی معرکہ جیتنا نوشتۂ دیوار ہے جس کا ثبوت انتخابی مُہم سے قبل موجودہ اسمبلی سے کئی الیکٹ ایبلز کا پی ٹی آئی میں شامل ہونا ہے۔ یہ لوگ الیکشن کی ہوا دیکھ کر جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے بھی اپنے کارکنوں کے بجائے الیکشن سے قبل شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینے میں عجلت دکھائی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امیدوار بھی ووٹروں کے مزاج آشنا ہیںجس کی بنا پر وفاق کی حکمران جماعت کی جیت مشکل دکھائی نہیں دیتی۔
آزادکشمیر میں جاری انتخابی مُہم پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ سمجھنے میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ تحریکِ انصاف کا پلڑا بھاری ہے ۔ مگر علی امین گنڈاپور جیسے لوگ حماقتوں سے اپنی جماعت کی خدمت کے بجائے نقصان کا موجب بن سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کو ہدفِ تنقید بنانے والے بلاول بھٹو جوپی پی کی جیت کے بعد ریاست میں حکومت بنانے کے دعویدار ہیں مگر تلخ سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے تمام ریاستی انتخابی حلقوں میں امیدوار ہی نہیں بلکہ کچھ امیدواروں نے پارٹی کے ملے ٹکٹ بھی واپس کر دیے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال ہے پھر بھی جیت کے دعوے کس زعم میں کیے جا رہے ہیں ، کچھ سمجھ نہیں آتی۔ آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابی میدان میں سب سے زیادہ اُمیدوار تحریکِ انصاف کے ہیں جنھیں حکومتی وسائل بھی حاصل ہیں ۔ یہ امیدوار جلسوں کے دوران ترقیاتی فنڈز کے اعلان کرتے ہوئے ابھی سے روزگار کی یقین دہانیاں کراتے پھرتے ہیں لیکن ابھی تک علی امین گنڈا پور کے سوا کسی اورحکومتی شخص کے خلاف الیکشن کمیشن نے کوئی ایکشن نہیں لیا ۔حکومتی مشنری کُھلے عام پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹوں کے بھائو تائو طے ہو رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز اگر بے سروپا الزام تراشی کے بجائے خرابیوں کی نشاندہی اور الیکشن رولز کی خلاف ورزیوں کے ثبوت پیش کریں تو الیکشن کمیشن نوٹس لے سکتا ہے جس سے انتخابی عمل صاف شفاف اور غیر جانبدار ہو نے
کا امکان بڑھ سکتا ہے اور مسلم لیگ ن اور پی پی بہتر پوزیشن پر آ سکتی ہیں وگرنہ بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے ایک دوسرے اوراِداروں پر تنقیدسے نہ صرف کشمیریوں کا مقدمہ متاثر ہو گا بلکہ کشمیریوں کو مایوس کرنے کا باعث بھی بنیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔