... loading ...
مجاہدخٹک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان میں طالبان کی مسلسل پیش قدمی کی وجہ سے وہاں کی سرزمین پر جو افراتفری پھیلی ہوئی ہے، پاکستان میں گفتگو کی حد تک ویسا ہی فکری انتشار دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کئی لوگ طالبان کی فتح پر خوش ہیں تو کئی اس پر پریشان۔ کوئی اسے پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرناک کہہ رہا ہے تو کسی کے خیال میں یہ وطن عزیز کے لیے بڑی خوشخبری ہے۔افغانستان کی صورتحال پر اپنی رائے دینے کا سب سے اہم پیمانہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت آنے سے پاکستان کو کیا فائدہ یا نقصان ہو گا۔ یہ واحد پیمانہ ہے جس پر دنیا کی تمام قومی ریاستیں فیصلے کرتی ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد یہی ہے اور بطور پاکستانی ہمیں سب سے زیادہ اسی پہلو سے افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے۔لیکن اگر آپ ایک اضافی پیمانہ بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں تو وہ افغانستان کے شہریوں کا مفاد ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر طالبان کی حکومت آتی ہے تو افغانیوں کی زندگی پر اس کے مثبت اثرات ہوں گے یا منفی۔ آئیے ان دونوں پیمانوں پر اس معاملے کا تجزیہ کرتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد جب امریکا اور نیٹو پوری قوت سے افغانستان پر چڑھ دوڑے تو انہیں پاکستان سے مدد طلب کرنا پڑی۔ صورتحال ایسی تھی کہ امریکا کو انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اقوام متحدہ اس یلغار کے پیچھے کھڑی تھی اور دنیا کی واحد سپر پاور ایک غصیلے ہاتھی کی طرح کسی کو بھی روندنے کے لیے تیار تھی۔ اس لیے پاکستان نے مدد کے لیے آمادگی تو ظاہر کی لیکن اس کے لیے جو شرائط پیش کیں ان میں سب سے اہم شرط یہ تھی کہ افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت نہیں آنی چاہیے۔ امریکا نے یہ شرط تسلیم کرلی لیکن اس پر عمل نہ کیا اور یوں شمالی اتحاد کی صورت میں پاکستان مخالف حکومت قائم ہو گئی۔ اس حکومت نے جس قسم کا رویہ پاکستان کے ساتھ رکھا ہے اور جس طرح بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھائیں وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ حکومت صرف پاکستان مخالف ہی نہیں تھی بلکہ اس نے ہندوستان کو پاکستان کی سرحد کے قریب موجود شہروں میں قونصل خانے بھی قائم کرنے کی سہولت فراہم کی جس کے بعد ہمارے ملک میں دہشت گردی کا ایک ریلا آیا اور ستر ہزار قیمتی جانیں نگل گیا۔اس صورتحال میں پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ طالبان کی کسی حد تک مدد کریں تاکہ اس سرحد سے خطرہ کم ہو سکے۔
ہمارے فکری انتشار کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کی پہلی حکومت نوے کی دہائی کے آخر میں قائم ہوئی اور 2001 میں ختم ہوئی۔ اس دوران پاکستان میں نہ ہی خودکش حملے ہوئے اور نہ ہی سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں ہوئیں۔ یہ تمام مسائل اس دور میں پیش آئے جب افغانستان پر شمالی اتحاد کی حکومت تھی۔ مگر یار لوگ اسے بھی طالبان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ جن گروہوں نے بلوچستان میں شورش برپا کی یا پختو نخواہ اور پنجاب کے بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا ان تمام کو افغان حکومت کی سپورٹ حاصل تھی اور پیچھے بھارت ان کی ڈوریاں ہلا رہا تھا۔ پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے بلوچ عسکریت پسند ہوں یا ملا فضل اللہ جیسے دہشت گرد، ان تمام کو افغان سرزمین پر ہی پناہ ملتی رہی ہے۔ ان میں سے کئی اس ملک میں مارے گئے اور کئی ابھی تک وہاں روپوش ہیں اور اپنی تخریبی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
طالبان کی پیش قدمی کے بعد اگر بھارتی میڈیا کی حالت دیکھی جائے تو واضح طور پر اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس صورتحال نے پاکستان کے خلاف ان کے عزائم کو کتنی زک پہنچائی ہے۔ بھارتی میڈیا پر ایک ہذیانی کیفیت طاری ہے، افغانستان میں ان کی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی ڈوب رہی ہے اور پاکستان کے خلاف قائم کیے گئے دہشت گردی کے نیٹ ورک بھی ایک ایک کر کے مٹتے جا رہے ہیں۔بھارت نہ ہی افغانستان کا ہمسایہ ہے اور نہ ہی اس کے براہ راست مفادات اس ملک سے جڑے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت کی غیر معمولی دلچسپی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہ بات ہمارے اداروں کو بھی معلوم ہے اور دنیا بھی اس کے متعلق خوب جانتی ہے۔بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی تقریر سب کے سامنے ہے جس میں بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی بات کی گئی تھی۔ بھارت نے افغانستان کی موجودہ حکومت کی مدد سے اس تخریبی تصور کو عملی جامہ بھی پہنایا ہے۔
گزشتہ روز بھارت میں روس کے نائب سفیر رومن بابوشکن کی گفتگو نے بھی ایک ہلچل مچا دی ہے۔ انہوں نے طالبان کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ اس سیاسی قوت کے ساتھ بات چیت کرے۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے حال ہی میں روس اور ایران کے دورے کیے ہیں جن کا مقصد افغانستان کے کسی حصے میں شمالی اتحاد کی حکومت قائم کرنے کے لیے ان دونوں ممالک کی مدد حاصل کرنا تھا۔ ماضی میں بھی یہ حکومت قائم رہی جس کی وجہ سے افغانستان کے ایک محدود علاقے میں لڑائی جاری رہی۔ بھارت اب بھی افغانستان میں ایک ایسا کونہ چاہتا ہے جہاں اس کے حمایتیوں کی حکومت ہو اور وہاں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کرائی جا سکے۔ مگر روسی نائب سفیر نے اپنے ملک کی پالیسی واضح طور پر بیان کر دی ہے۔ ایران بھی اس معاملے میں بھارت کو کسی قسم کی مدد دینے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔
اس کے علاوہ برطانوی وزیر دفاع نے یہ بیان دیا ہے کہ طالبان برسر اقتدار آئے تو برطانوی ان سے مل کر کام کرے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ افغانیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ملک میں کیسی حکومت چاہتے ہیں۔ یہ۔بات اب واضح ہو چکی ہے کہ کوئی بھی ملک افغانستان میں مصنوعی حکومت کو اخلاقی جواز فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ بھارت اس معاملے میں تنہا کھڑا نظر آتا ہے۔اس وقت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ طالبان کے وفود ملاقاتیں کر رہے ہیں اور انہیں یقین دہانی کرانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ان کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بنیں گے۔ ماضی میں القاعدہ کے عالمی عزائم تھے جبکہ طالبان اپنے ہی ملک کی حدود تک رہنے کے قائل تھے۔ آج ان کی نئی نسل نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں اور وہ عالمی حالات کی بہتر تفہیم رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوائے بھارت کے دنیا کا کوئی بھی ملک ان کے خلاف بات نہیں کر رہا۔ اس تمام منظر نامے کو دیکھتے ہوئے طالبان کی حکومت پاکستان کے حق میں بہتر ہو گی۔ وہاں موجود دہشت گردوں کے لیے محفوظ علاقے ختم ہوں گے جس سے بلوچستان میں جاری دہشت گردی سے ہمیں نجات مل پائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کے لیے بھی خطرات کم ہوں گے جو پاکستان کی ترقی کے لیے بہت بڑا پراجیکٹ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے کی جانے والی سازشوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت میں بھی پاکستان کے لیے بڑے مسائل پیدا نہیں کیے تھے اور اب بھی ایسا کوئی خدشہ موجود نہیں ہے۔ گزشتہ برسوں میں جس قسم کی دہشت گردی دیکھنے کو ملی تھی اس کے پیچھے بھارت اور افغانستان کی موجودہ حکومتیں تھیں۔ جب یہ گٹھ جوڑ ختم ہو گا تو پاکستان کی بھی ایک سرحد محفوظ ہو جائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے پہلی شرط ایک مضبوط مرکزی حکومت ہے۔ ایک مقبول کتاب “قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں” کے مصنف نے برطانیا کی ترقی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اس وقت ممکن ہوئی جب وہاں کے جاگیر داروں کی طاقت کمزور پڑی اور مرکزی حکومت مضبوط ہوئی۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان طالبان کی حکومت آنے کے بعد سپر پاور بن جائے گا۔ لیکن اگر وہاں کے شہریوں کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو چار دہائیوں سے جاری خانہ جنگی نے نہ جانے کتنے المیوں کو جنم دیا ہے۔ خاندان کے خاندان دربدر ہو گئے ہیں۔ جس عذاب سے وہاں کا شہری گزر رہا ہے اس کے لیے مضبوط مرکزی حکومت امن اور تحفظ کا واحد راستہ ہے۔ موجودہ حالات میں یہ امن طالبان کی حکومت کی صورت میں ہی ممکن نظر آتا ہے۔ ان کا سابقہ دور حکومت اس بات کا ثبوت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔