وجود

... loading ...

وجود

یہ اتفاق مبارک ہو ،صحافیوں کے لیے

جمعرات 15 جولائی 2021 یہ اتفاق مبارک ہو ،صحافیوں کے لیے

سندھ کی صحافتی تاریخ کوکسی بھی حوالے سے جب بھی اور جہاں بھی زیربحث لایا جائے گا تو سب سے پہلے ’’نواب شاہ پریس کلب‘‘ کی صحافتی خدمات کو ستائش اور تحسین کے سنہرے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ کیونکہ اندرونِ سندھ کی صحافتی جدوجہد کی ہرتحریک میں انسانی حقوق کے تحفظ ،جمہوریت کی بحالی اور اعلیٰ صحافتی اقدار کے فروغ میں جس استقامت، حوصلہ مندی، جرات اور عزیمت کا مظاہرہ ’’نواب شاہ پریس کلب ‘‘ سے منسلک صحافی رہنما ،مختلف سیاسی اور غیر سیاسی ادوار میں تواتر کے ساتھ کرتے آئے ہیں وہ سندھ کی تمام صحافتی براداری کے لیے قابل فخر ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔خاص طور پر اندرونِ سندھ کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے کمزور ،پست اور پسے ہوئے طبقات کی آواز اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہچانے کے لیے ’’نواب شاہ پریس کلب ‘‘کی حیثیت ہمیشہ سے ہی ایک مؤثر ترین ’’عوامی پلیٹ فارم‘‘ کی رہی ہے۔ شاید اسی لیے اکثر و بیشتر مقامی افراد آج بھی اپنی روزمرہ گفتگو ایک جملہ تواتر سے بولتے ہیں کہ ’’جو مظلوم ’’نواب شاہ پریس کلب ‘‘ تک پہنچ گیا، سمجھو اُس کی آواز وزیراعلیٰ سندھ تک پہنچ گئی‘‘۔
لیکن کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اندرونِ سندھ کا سب سے مضبوط اور مقبول ترین پریس کلب، زبردست اور خطرناک قسم کی ’’صحافتی گروہ بندی‘‘کی نظر بد کا شکار تھا۔ اور ’’نواب شاہ پریس کلب ‘‘ کے سرکردہ صحافی رہنما جن کا نصب العین کبھی عوامی مسائل کو اُجاگر کرنا ہوتا تھا ، وہ سب کے سب اپنے خود ساختہ اور لایعنی مسائل کے گرداب میں گھرے دکھائی دیتے تھے۔ جس کے باعث ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ سے منسلک سینکڑوں صحافی رو ز بہ روز سخت اضطراب اور عدم تحفظ کا شکار ہوتے جارہے تھے۔ بالخصوص’’ پریس کلب نواب شاہ‘‘ کے نئے نئے رکن بننے والے نو آموز صحافیوں کو تو بالکل بھی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ وہ ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ میں خود رو پودوں کے طرح اُگ آنے والے مختلف ’’صحافتی گروہوں ‘‘ میں سے کسی گروہ کا حصہ بن کر زیادہ بہتر صحافتی اسرار و رموز سیکھ سکتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ صحافتی رہنماؤں کی آپسی چپقلس اور گروہ بندی کے وجہ سے ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ میں منعقد ہونے والی مختلف سیاسی،سماجی ، اصلاحی اور احتجاجی تقریبات کا شدید بدنظمی کا شکار ہوجانا بھی ایک معمول کی بات بن چکی تھی۔ بعض اوقات تو’’ پریس کلب نواب شاہ‘‘کے ایک کمرے میں ہونے والی ہنگامی پریس کانفرنس تھوڑی دیر بعد دوسرے کمرے میں کرنا اس لیے ضروری ہوجاتا تھا کہ پہلی تقریب کا بے شمار صحافتی اراکین بائیکاٹ کردیتے تھے۔ بلاوجہ کی بدگمانی اور بدظنی کے ایسے مخدوش ماحول میں ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ کے سرکردہ رہنماؤں کے باہمی اختلافات کو ختم کرکے انہیں ایک ساتھ ایک میز پر بٹھادینا صحافتی برادری کے لیے ایک ایسی مشکل اور دشوار مہم بن چکی تھی ۔جسے کامیابی کے ساتھ سَر کرنے کے لیے اُنہیں کسی ایسے مسیحا کا انتظار تھاکہ جو ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ کی پرشکوہ عمارت میں اپنے قدم رنجا فرما کر، مفاہمت کی جادوئی چھڑی سے شکوے اور شکایات کی حبس زدہ فضا کو یکسر بدل کر رکھ دے۔
یادش بخیر ! کہ ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ میں گزشتہ روز ،وہ دلفریب ،روشن صبح بھی طلوع ہو گئی ،جب سابق وزیر قانون سندھ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما ضیاء الحسن لنجار کی اچانک پریس کلب آمد نے صحافی رہنماؤں کے درمیان پنپنے والی برسوں پرانی رنجشوں کو چند لمحات میں محبت،اُخوت اور ایثار کے مسحور کن جذبات میں ڈھال دیا۔ملاحظہ کرنے والوں کے لئے کیا خوب صورت منظر تھا کہ، جب ضیاء الحسن لنجا ر کی ہمراہی میں انور شیخ ، محمد رضوان تھیبو اور ذوالفقار علی خاصخیلی ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ کے مرکزی ہال میں ستاروں کی مانند خاص ترتیب میں جگمگا رہے تھے اور اُن کے اردگرد پروانوں کی طرح منڈلاتے ، پریس کلب نواب شاہ کے دیگر اراکین اپنے رہنماؤں کے اتحاد و یگانگت پر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ عموماً نیوز چینلز پر سیاست دان لڑتے ہیں تو اُن کے درمیان صلح اور بیچ بچاؤ کے لیے صحافی و اینکر حضرات بروئے کار آتے ہیں ۔مگر یہاں صورت حال اس لحاظ سے یکسر منفرد اور غیر متوقع تھی کہ اہل صحافت کی صفوں میں پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے کا ،بظاہر ناممکن دکھائی دینے والا،کام ایک سیاست دان نے انجام دیا۔
واضح رہے کہ ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘کے صحافتی رہنماؤں کے درمیان جنم لینے والے اختلافات اور تنازعات سراسر پیشہ وارانہ غلط فہمی کا نتیجہ تھے ۔ جس میں ذاتی مخاصمت اور مخالفت نام کو بھی شامل نہ تھی۔یوں سمجھ لیجئے کہ اندرونِ سندھ کے صحافتی حلقوں میں جناب انور شیخ ہوں، یا محترم محمد رضوان تھیبو یا پھر قابل احترام ،ذوالفقار علی خاصخیلی ،ان تینوں صحافتی شخصیات میں سے کسی ایک کے بھی بارے میں یہ تصور کرنا گناہ از بدتر گناہ کے مترادف ہوگا کہ انہوں نے کبھی اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کی کوشش کی ہوگی۔ دراصل تینوں رہنماؤں کی اولین ترجیح ہمیشہ ہی سے ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ اور اس سے منسلک صحافیوں کے حقوق کا تحفظ ہی تھا ۔بس ،طریقہ کار کے اختلاف نے پہلے راستے جدا کیے اور بعد ازاں اہداف اور مقاصد بھی علیحدہ علیحدہ کردیئے ۔ حالانکہ اگر انور شیخ کو قلم کی حرمت قرار دیا جائے تو محمد رضوان تھیبو الفاظ کے محافظ کہلائیں گے ۔جبکہ ذوالفقار علی خاصخیلی کو صحافت کے سارے نفس مضمون کا میر مجلس کہنا عین مناسب ہوگا۔
سوچوں کا اختلاف ہے یہ اور کچھ نہیں
سو پیش رفت اور نہ پسپائی جنگ ہے
یاد رہے کہ سینئر صحافی انور شیخ نے ماضی میں بطور صدر ’’پریس کلب نواب شاہ ‘‘ ادارے کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنی تخلیقی اور انتظامی مہارت سے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ،وہ بہر صورت آئندہ کئی برس تک ناقابل فراموش ہی رہیں گے ۔جبکہ محمد رمضان تھیبو نے صحافت کے بازار میں کھوٹے اور کھرے صحافیوں کو’’پیشہ ورانہ‘‘ اور ’’سرکاری‘‘ پیمانے پر الگ الگ کرنے کے لیے جس پامردی اور جرات کے ساتھ قانونی جنگ لڑی ۔اُسے ’’زرد صحافت‘‘ کے خلاف بڑی کامیابی کے طور پر مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں ذوالفقار علی خاصخیلی نے بطور موجودہ صدر’’ پریس کلب نواب شاہ ‘‘ ہوتے ہوئے ، اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو انصاف کے ترازو میں برابر، برابر رکھ کر جس وسیع القلبی ، وسعت نظری اور معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے بکھرے ہوئے ناراض صحافتی رہنماؤں کو اتحاد کی مضبوط لڑی میں پرونے کی مخلصانہ اور کامیاب کاوش کی ہے۔ اُن کے اس عمل سعید کی تمام صحافتی برادری ہمیشہ ممنون رہے گی۔مگر یہاں مزید اُمید اور توقع یہ رکھنی چاہئے کہ ’’پریس کلب نواب شاہ‘‘ کے تمام صحافتی رہنما، اَب ایک نئے جوش،جذبے اور ولولے کے ساتھ ریاست کے چوتھے ستون ’’صحافت ‘‘کی مضبوطی اور صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر