... loading ...
وہ ایک درخت کی چھائوں میں بیٹھا نہ جانے کس سوچ میںگم تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے پائوں میں کوئی نو کدار کانٹا چبھودیا ہو بے اختیار اس کے منہ سے سسکاری نکل گئی اس نے جلدی سے پائوں پر ہاتھ پھیرا ایک موٹا تازہ مکوڑا جلدمیں پیوست تھا اس نے پائوں سے ا لگ کرنا چاہالیکن اس کے نوکدارکالے کالے دانت گہرائی تک پیوست تھے اس نے زور سے جھٹکادے کر مکوڑے کو پائوں سے الگ کیا تواس کا سر دھڑ سے الگ ہوگیا اس کے باوجود اس کا سر ابھی تک پائوںکے ساتھ ہی چمٹاہواتھاوہ سوچنے لگا اتنی زبردست گرفت۔۔کمال ہے اس نے ادھر ادھرنظردوڑائی درخت کی جڑوں سے موٹے موٹے مکوڑے نکل کر تنے کے اوپر چڑھ رہے تھے اور بہت سے زمین پر چاروں اطراف پھیلے ہوئے تھے اسے ایک کھیل سوجھا وہ کھیل اس کی فطرت کا عکاس تھا اس نے موٹے موٹے مکوڑوںکاانتخاب کیا انہیں پکڑکر اپنے بازو پرچھوڑدیا وہ مکوڑے اس کے بازو پر پھیلتے چلے گئے دو تین نے خوراک کی تلاش میں اس کے بازو پر اپنے تیزنوکدار دانت پیوست کردئیے اس نے پہلے کی طرح زوردار جھٹکا دے کر انہیں بازو سے الگ کرنا چاہا ان کے سربھی دھڑ سے الگ ہوگئے دھڑ تڑپ رہے تھے اور سراس کے بازو کے گوشت میں پیوست تھا نہ جانے کتنی دیر وہ اسی انداز سے مکوڑوںکا قتل ِ عام کرتارہا یہ نوجوان حجاج تھا جوتاریخ میں ججاج بن یوسف کے نام سے مشہور ہوا وہ انتہائی ظالم، سفاک اور بے رحم انسان تھا جب بھی دنیا کے ظالم ترین شخصیات کا تذکرہ ہوگا اس میں ابو محمد حجاج بن یوسف بن حکم بن ابو عقیل ثقفی کا ضرورذکرکیا جائے گا ۔
حجاج بن یوسف یکم جون، 661 ء حجاز (سعودی عرب )کے ایک علاقے طائف میں پیدا ہوا ۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اس نے اپنے باپ سے حاصل کی۔ جو ایک مدرس تھا۔ حجاج کا بچپن سے مزاج حاکمانہ تھاجس کی بناء پر اس نے مکتب میں اپنے ہم جماعتوں پر اپنی دھاک جمارکھی تھی تعلیم سے فارغ ہو کر اس نے تعلیم و تدریس کا پیشہ اختیار کیا لیکن یہاں اس کا دل نہ لگا وہ دنیا میں نام پیدا کرنا چاہتا تھا تعلیم و تدریس ایک روٹین کا کام تھا اس ماحول سے تنگ آکر حجاج بن یوسف طائف چھوڑ کر دمشق جا پہنچا اور کسی نہ کسی طرح اس وقت کے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے ایک وزیر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ ترقی کرتا چلاگیا وزیر نے اپنی جاگیر کا منتظم مقرر کر دیا انہی دنوں اتفاق سے عبد الملک بن مروان کی فوج میں سستی اور کاہلی سے مسائل پیدا ہوگئے جس سے کچھ بااثر سپاہی بغاوت پر اتر آئے جس سے کئی گرو پ بن گئے ان سے نمٹنے کے لیے عبدالملک بن مروان نے محتسب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا جب اپنی پریشانی کا ذکراس نے اپنے ایک وزیر سے کیا وزیر نے مؤدب ہوکر کہا جناب ایک شخص کو میں جانتا ہوں اس کا نام حجاج ہے میرے خیال میں وہ اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ لیکن وہ انتہائی سخت گیر اورسفاک ہے معافی کا لفظ شاید اس کی لغت میں ہی نہیں ہے اس لیے میں کسی فعل کا جوابدہ نہیں ہوگا۔یہ سن کر عبدالملک بن مروان نے تلخی سے جواب دیا مجھے ایسے ہی شخص کی تلاش ہے اس طرح حجاج خلیفہ کی فوج کا حصہ بن گیا اختیار ملتے ہی اس نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا اس نے چندہی ماہ میں ظلم،سفاکیت، اور بربریت کی ایسی مثالیں قائم کردیں کہ پوری اموی فوج اس سے دہشت کھانے لگی۔ حتیٰ کہ خود وہ وزیر بھی اس کی سخت گیری کا شکار ہوگیا جس نے اس کی عبدالملک بن مروان سے سفارش کی تھی۔ پھراس کی ’’کارکردگی‘‘ کے پیش ِ نظر حجاج بن یوسف کو عبدالملک بن مروان نے مکہ، مدینہ، طائف اور یمن کا نائب مقرر کردیا اور اپنے بھائی بشر بن مروان کی موت کے بعد اسے عراق بھیج دیا جہاں وہ 20 سال تک کوفہ کا حکمران بنا رہا ۔
عبدالملک بن مروان اس کا اس حدتک گرویدہ تھا کہ وہ اس کے کسی معاملہ میں دخل دینے سے گریزکرتا رہا اسی بناء پر حجاج بن یوسف نے کوفے میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیںاس کے دور میں مسلمان مجاہدین نے چین کا کافی علاقہ فتح کرلیا حجاج بن یوسف کا سب سے بڑا کمال ہے کہ اس نے ہی قرآن پاک پر اعراب لگوائے تاکہ پوری دنیا میں ایک ہی تلفظ کے ساتھ قرآن پاک پڑھا اور سنا جائے ، اللہ تعالی نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا حجاج بن یوسف حافظِ قران تھا وہ شراب نوشی اور بدکاری کو انتہائی برا سمجھتا تھا اس کے نزدیک یہ ناقابل ِ معافی جرم تھاوہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا مگر اسکی تمام اچھائیوں پر اسکی ایک برائی حاوی ہوگئی اور وہ برائی تھی ؟ ظلم ۔۔۔حجاج بن یوسف فطرتاً سفاک اوربہت ظالم تھا جب اسے کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہ تھا تو اس کی دہشت پوری دنیا میں پھیل گئی یہ وہ دور تھا جب ایک طرف عظیم فاتح موسیٰ بنؒ نصیر اور محمد ؒبن قاسم عالم ِکفر سے نبرد آزما ہوکر فتوحات پر فتوحات کئے جارہے تھے اور اسی دوران حجاج بن یوسف کے شر سے کوئی محفوظ نہ تھا اس سے اتفاق نہ کرنے والے صحابہ کرام، مخالف تابعی، خلق ِ خدا،اولیاء کرام اور منبرو محراب پر سچ بیان کرنے والے علماء کے خون کا وہ پیاسا ہوگیا محققین کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ڈیڑھ لاکھ انسانوں کا قاتل تھا ،اس کے عقوبت خانوں اور سرکاری جیلوں میں بیک وقت اسی اسی ہزار قیدی ہوتے جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ عورتوںکی تعداد تھی اس نے خواتین، مرد بچوں بوڑھوں سمیت اس نے کسی کو نہ بخشا جسے اپنا مخالف سمجھا بلادریغ موت کے گھاٹ اتاردیا اس کی سفاکی اس قدر بڑھ گئی کہ عورتیں اس کا نام لے کر اپنے بچوںکوڈرایا کرتی تھیں ۔
حضرت عبداللہ بن زیبرؓ ایک جلیل القدر صحابی تھے ا نہوں نے حضرت امیر معاویہؓ کویزید کی نامزدگی سے منع کرتے ہوئے اس کی تخت نشینی کی شدید مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے ان کا شمارموی حکومت کے زبردست ناقدین میں کیا جا نے لگاکچھ لوگوں نے جب حضرت عبداللہ بن زیبرؓ کی خلافت کااعلان کیاا س وقت وہ مکہ مکرمہ میں حرم کعبہ میں پناہ گزین تھے عبد الملک بن مروان کو ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جوعبداللہ بن زبیر کو اطاعت پر آمادہ کرے یا ان کا خاتمہ کر سکے۔ چنانچہ حجاج بن یوسف کے مزاج کو دیکھتے ہوئے کو اس مہم کا انچارج بنایا گیا مذاکرات ، دھونس اور لالچ سے بات نہ بنی تو اس نے مکہ مکرمہ کی ناکہ بندی کرکے زبردست غذائی بحران پیدا کر دیا پھر حرم کعبہ کا محاصرہ کرلیا جب شامی سپاہیوں نے خانہ کعبہ کی حرمت کے پیش ِ نظر اورعبد اللہ بن زبیرؓ کی اخلاقی اپیلوں کی وجہ سے حملہ کرنے سے انکارکردیاتو ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے حجاج بن یوسف نے بذات ِ خود وقتاً فوقتاً خود سنگباری شروع کردی اس نے سپاہیوںکو کہا ہم بھی مسلمان ہیںخانہ کعبہ کااحترام کرتے ہیں لیکن ’’باغیوں ‘‘ کو زیر کرنا چاہتے ہیں کئی دن کے محاصرے اور بھوک پیاس سے تنگ حضرت عبداللہ بن زیبرؓ کے حامیوں کی ہمت جواب دینے لگی اس صورت ِ حال میں حجاج بن یوسف نے بھرپور حملہ کرکے خانہ کعبہ میں موجود لوگوںکو گرفتارکرلیا جس نے مزاحمت کی انہیں بڑی بے رحمی سے قتل کردیا جس کے بعد حجاج بن یوسف ایک فاتح کی طرح دندناتاہوا آیا اس نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو شہید کر ڈالا عوام پر دہشت ڈالنے کے لیے ان کی لاش کو کئی روز تک پھانسی پر لٹکائے رکھا اس’’ کا رنامے‘‘ کا صلہ یہ ملاکہ حجاج بن یوسف کو حجاز کا گورنر بنا دیا گیا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔