وجود

... loading ...

وجود

مون سون۔۔

بدھ 14 جولائی 2021 مون سون۔۔

دوستو،’’بر‘‘ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور ‘حرف ربط’ مستعمل ہے ،عام طور پر ترکیبات میں بطور سابقہ مستعمل ہے، جیسے۔۔ برافروختہ، برآمد، برحق برآور وغیرہ۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے۔۔اگر آکسفورڈ ڈکشنری میں ’’بر‘‘ کے معنی تلاش کیے جائیں تو سو سے زائد معنی ملیں گے۔۔ لیکن ہم یہاں آپ کو اردو کی ٹیوشن پڑھانے سے گریز کریں گے اور سیدھی سادی برسات سے متعلق کچھ باتیں کریں گے۔۔محکمہ موسمیات نے کراچی میں پندرہ جولائی سے بارشوں کی پیش گوئی کی تھی لیکن بارہ جولائی سے ہی برسات شروع ہوگئی۔اس سے پہلے شہرقائد میں گرمی کی شدت کا یہ حال تھا کہ ۔۔ غریب آدمی کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے بھی پسینے کی وجہ سے کڑک کاٹن کے بن جاتے ہیں۔کپڑوں پر بارش پہلے ہوتی ہے ان پر بادل بعد میں نظر آتے ہیں۔جبین نیاز پسینوں سے زمین پر سجدے کے نشان چھوڑ کر بندگی کا حق ادا کرتی ہے۔ مومن ہو یا کافر اس موسم میں ہمہ وقت باوضو رہتا ہے۔کافر نگاہیں ٹھنڈی ٹھنڈی زلفوں کی چھاؤں تلاش کرنے لگتی ہیں۔
یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بعض فصلوں کے لیے یہ بارش آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے مگر یہ بھی مستند حقیقت ہے کہ حشرات الارض خاص طورپر مچھروں کے لیے بھی یہ اکسیر کا حکم رکھتی ہے گویا دونوں فصلوں کی پیداواراسی بارش کا فیضان ہے۔بارشوں سے گلیا ں تو جل تھل ہو ہی جاتی ہیں ، سڑکیں بھی سیلابی نظر آتی ہیں۔ پیدل، (عقل سے نہیں) چلنے والا بہ امر مجبوری سڑکوں پر چلے گا کیونکہ فٹ پاتھ تو پہلی ہی بارش میں گدے کے سرسے سینگ کی طرح غائب ہوجاتی ہیں۔ اب ہوتا یہی ہے کہ ہر پیدل چلنے ولا آنے جانے والے ٹریفک کو بھی راستہ دیتا ہے اور خود بھی زبانی ہارن دے کر پاس کرتا ہے۔ بارش کے موسم میں متوسط طبقہ جلدی جلدی گھر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھیں کمرے کی چھت سے کتنے آبشار بہہ رہے ہیں۔ رہ گئے امراء تو فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ گھر سے نکلے تو کار، دفتر سے نکلے تو کار، اگر خراب ہوگئی تو بے کار، عموماً اس طبقے کے لوگ بارش میں بھیگنے کو ترستے ہیں۔
لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی ’’موسموں کا شہر‘‘ میں فرماتے ہیں۔۔کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیاحت پر اْکسانے میں آب و ہوا کا بڑا دخل ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہر گز نہ نکلتے۔ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے کچھ دن یہاں کی بہار جانفزا دیکھ کر کارپو ریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں ان کا تعلق اس مخلوق سے ہوتا ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ مثلاً مگر مچھ ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ۔۔ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کا بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا ‘‘رش’’ لیتا ہے۔وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی ‘‘روپیہ’’ کی طرح بہا یا جاتا ہے۔۔۔
کراچی میں بارش شروع ہوتے ہی شہری یوں تو ابتدا میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر جیسے جیسے بارش کے دورانیے میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ویسے اس شہر سے تیرتی گاڑیوں کی تصاویر موصول ہونے لگتی ہیں اور گھروں میں داخل ہوتا پانی علاقہ مکینوں پر آزمائش بن جاتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب کراچی میں بارشیں عام طور سے گرمیوں میں ہی ہوتی تھیں،ہمیں یاد ہے اماں ،ابا اس وقت تک گھر میں آم نہیں لاتے تھے جب تک ایک پر برسات نہ گزرجائے۔۔شاید اماں اباسوچتے ہوں گے کہ بارش کے بعد آنے والے آم زیادہ میٹھے ہوتے ہیں، لیکن یقین کریں ہم نے کئی بار بازار میں بارشوں سے پہلے آم کو ٹھیلوں اور دکانوں میں پڑے دیکھا۔۔گرمیوں کی پہلی برسات کے بعد آموں کے ساتھ کالے جامن بھی کھائے جاتے تھے، آم کے مضراثرات سے بچنے کے لیے کچی لسی پی جاتی تھی۔۔کیوں کہ پھر یہ یقین رہتا تھا کہ اب ’’دانے‘‘ نہیں نکلیں گے۔۔ ہمارے زمانے میں برسات کے گانے بھی عجیب ہی میلوڈی رکھتے تھے۔۔جھولا ڈالو ری، سکھی ساون آیو۔۔ساون کے دن آئے بالم، جھولا کون جھلائے۔۔اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔۔ اور آج کل کے گانے سنیں۔۔ برسات کے موسم میں ،تنہائی کے عالم میں ، میں گھر سے نکل آیا، بوتل بھی اٹھالایا۔۔جب ہم نے باباجی سے ’’بوتل‘‘ کی تشریح چاہی تو فرمانے لگے۔۔بیٹاجی، یہاں گھر سے نکلتے وقت بوتل اس لیے لے کر نکلاگیا ہے کہ گھر میں چلنے والے جنریٹر کا فیول ختم ہوگیا ہے، پٹرول پمپ سے پٹرول بوتل کے بغیر ملنا نہیں۔۔ اور تمہیں تو پتہ ہے ، برسات میں بجلی ہوتی کہاں ہے؟؟
یادگار(لاہور میں مینارپاکستان کواسی نام سے پکاراجاتا ہے) کے پاس ایک لہوری دوست اپنے دوست کو اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ میں نے بیس سال میں ایک بات نوٹ کی ہے۔۔ دوست نے پوچھا ، وہ کیا؟؟۔۔ پہلا دوست کہنے لگا۔۔ جب بھی لاہور میں سیاہ بادل آتے ہیں ، برستے ضرور ہیں۔۔یہ تجربہ تو خیرہمیں لاہور کی ساڑھے چار سالہ رہائش کے دوران کافی ہوا، لاہور میں رہتے ہیں جتنی برسات ہم نے دیکھی ہے کراچی میں چالیس سال رہتے ہوئے شاید کبھی اتنی برسات نہ دیکھ پائے۔۔ کراچی میں تو کبھی ’’اتفاق‘‘ سے سیاہ بادل آبھی جائیں تو صرف ’’غرارے‘‘ کرکے چلے جاتے ہیں۔۔یا پھر ’’نامعلوم افراد‘‘ کی طرح مشرق سے آکر مغرب کی طرف ’’روپوش‘‘ ہوجاتے ہیں۔۔
اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔کتے کو اپنی دْم نظر نہیں آتی جبکہ وہ سب کی دیکھ لیتا ہے۔ کچھ ایسے ہی تو بعض انسان ہوتے ہیں؛ دوسروں کو نصیحتیں کریں گے، مذمتیں کریں گے، مشورے دیں گے، فیصلے سْنائیں گے۔ ایک نہیں ہو پائے گا ان سے تو بس اپنے گریبان میں جھانکنا نہیں ہو پائے گا۔اس لیے اپنے گریبان میں جھانکنا سیکھئے۔۔زندگی آسان ہوجائے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر